صحرا میں اذان

   
۱۱ مئی ۲۰۰۲ء

’’حدود آرڈیننس’’ ایک بار پھر این جی اوز کی سرگرمیوں کا عنوان بن گیا ہے اور انسانی حقوق کے جن علمبرداروں کو افغانستان میں امریکہ کی وحشیانہ بمباری سے جاں بحق ہونے والے ہزاروں بے گناہ شہریوں کی ہلاکت پر سانپ سونگھ گیا تھا، وہ کوہاٹ کی ایک خاتون کو سنگسار ہونے سے بچانے کے لیے لنگر لنگوٹ کس کر میدان میں اتر آئی ہیں۔

کوہاٹ کے علاقہ کڑی شیخاں کی ایک خاتون کو عدالت نے ناجائز تعلقات کے جرم میں سنگسار کرنے کی سزا سنائی ہے، جس پر کہرام مچ گیا ہے اور نیچے سے لے کر اوپر تک ہر سطح پر انسانی حقوق اور شرف انسانیت کے احترام کی ’’سوئی ہوئی حس‘‘ پھر سے جاگتی نظر آ رہی ہے۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ ایک عدالتی فیصلہ ہے جس کے خلاف اپیل کے مراحل موجود ہیں، بین الاقوامی فورم پر دو ٹوک انداز میں کہہ دیا ہے کہ مذکورہ خاتون کو سنگسار کرنے کی سزا نہیں دی جائے گی، بلکہ ان کے بقول پاکستان میں ایسا کبھی ہوا ہے نہ آئندہ ایسا ہو سکتا ہے۔ گویا انہوں نے عالمی رائے عامہ کو دو پیغام واضح طور پر دے دیے ہیں۔

  1. ایک یہ کہ پاکستان میں اگر کسی سطح پر شرعی قوانین نافذ ہیں تو وہ محض نمائشی ہیں جن پر عملدرآمد کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔
  2. اور دوسرا یہ کہ ملک کا عدالتی نظام مکمل طور پر صدر جنرل پرویز مشرف کے کنٹرول میں ہے اور پورے عدالتی پراسیس سے گزر جانے کے باوجود کسی مجرم کو سزا دینے کا معاملہ ان کے اختیار میں ہے کہ وہ جسے چاہیں سزا دیں اور جسے چاہیں سزا سے مستثنیٰ قرار دے دیں۔

وفاقی شرعی عدالت نے اس سزا کے خلاف اپیل سماعت کے لیے منظور کر کے سزا پر عملدرآمد معطل کر دیا ہے، اور صدر جنرل پرویز مشرف نے کیس کا سارا ریکارڈ خود طلب کیا ہے جس سے عالمی رائے عامہ کے سامنے یہ سوال بھی کھڑا ہو گیا ہے کہ کوہاٹ کی عدالت کے فیصلہ پر نظرثانی وفاقی شرعی عدالت نے کرنی ہے یا اس کے بارے میں حتمی فیصلہ ایوانِ صدر سے جاری ہو گا۔

ادھر پنجاب کے وزیر قانون اعجاز احمد خان نے اعلان کیا ہے کہ حدود آرڈیننس میں ترمیم کی جا رہی ہے اور این جی اوز نے چودہ مئی کو پشاور پریس کلب کے سامنے حدود آرڈیننس کے خلاف احتجاجی مظاہرے کا پروگرام بنا لیا ہے۔ جبکہ این جی اوز کے ایک سیمینار میں مقررین نے کہا ہے کہ کوہاٹ کی خاتون زعفران بی بی کے ساتھ زنا بالجبر کے باوجود اسے قانونی مجرم قرار دے کر قانون کے رکھوالوں نے قانون کی دھجیاں بکھیر دی ہیں اور سنگساری کی سزا سنا کر پوری کائنات کی خواتین کی تذلیل کی گئی ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین افراسیاب خٹک نے اس سیمینار میں کہا ہے کہ یہ سزا سراسر ناانصافی پر مبنی ہے اور جنرل ضیاء الحق کے لاگو کردہ حدود آرڈیننس اور اسلام کے نام پر بنائے جانے والے قوانین کے ذریعے خواتین طبقہ کی حق تلفی کی جا رہی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ زنا و حدود آرڈیننس کے قوانین فوری تبدیل کیے جائیں۔

اس ساری تگ و دو سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ این جی اوز اس انتظار میں تھیں کہ کسی عدالت سے اس قسم کی کوئی سزا سنائی جائے اور وہ اسے بہانہ بنا کر ملک میں اسلامی قوانین کے خلاف شور و غوغا کی فضا گرم کر سکیں۔ اور یہ بھی بعید نہیں کہ اس مقصد کے لیے اس طرح کی سزا دلوانے کا اہتمام بھی کر لیا گیا ہو، تاکہ ملک کی دینی قوتوں اور بین الاقوامی اداروں کی پشت پناہی سے چلنے والی سیکولر این جی اوز کے درمیان جس کشمکش اور پنجہ آزمائی کا عمل مسلسل آگے بڑھایا جا رہا ہے، اس میں مقابلہ کا میدان این جی اوز کی مرضی کا ہو۔ کیونکہ مقابلہ کے لیے میدان کا انتخاب سب سے زیادہ اہم مرحلہ ہوتا ہے، اور یہ میدان ایسا ہے جس میں این جی اوز کو بین الاقوامی پریس، عالمی اداروں اور مغربی حکومتوں کی بھرپور حمایت حاصل ہو سکتی ہے، اور عورت کی مظلومیت کے نام پر ملک کے اندر بھی ان کے لیے زیادہ کھلی فضا میں بات کہنے کے مواقع میسر آ سکتے ہیں۔

ورنہ یہی این جی اوز اچھی طرح جانتی ہیں کہ پاکستان میں حدود آرڈیننس کا نفاذ برائے نام ہے، آج تک کسی کیس میں ان قوانین کے تحت کسی مجرم کو سزا نہیں ملی، اور اگر کسی ماتحت عدالت نے کسی جرم میں شرعی سزا سنائی ہے تو وہ وفاقی شرعی عدالت یا دوسری بالاتر عدالتوں میں جا کر معطل ہو گئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود این جی اوز جس انداز میں اس مسئلہ پر متحرک ہوئی ہیں اس سے اندازہ ہو گیا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی منصوبہ بندی اور پلاننگ ہے، ورنہ عدالت سے فیصلہ سنائے جاتے ہی چوبیس گھنٹے کے اندر ہر سطح پر ہنگامی صورتحال کے انداز میں اس ردعمل کا اظہار سمجھ میں آنے والی بات ہے۔

دوسری طرف دینی حلقوں کی صورتحال یہ ہے کہ انہیں سرے سے معاملہ کی سنگینی کا ادراک و احساس ہی نہیں ہے اور وہ پاکستان کے اسلامی تشخص، دستور کی اسلامی دفعات، چند نافذ شدہ برائے نام شرعی قوانین حتیٰ کہ تحفظ ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالتؐ جیسے دستوری فیصلوں کے خلاف امریکی کانگریس سے لے کر پشاور کی این جی اوز تک کی مربوط صف بندی اور کھلے اعلان جنگ کو دیکھتے ہوئے بھی ’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ سانپ کی کسی نسل کے بارے میں سنا ہے کہ وہ اپنے شکار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کے حواس کو معطل کر دیتا ہے جس سے وہ شکار ہلنے جلنے کے قابل نہیں رہتا، اور اس کے بعد سانپ اپنی کارروائی کرتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے دینی حلقوں کے حواس معطل ہو گئے ہیں اور وہ سب کچھ دیکھتے اور سمجھتے ہوئے بھی کوئی حرکت کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے۔

میں نے اہل دین کی کئی محفلوں میں عرض کیا ہے کہ یہ ایک باقاعدہ جنگ ہے، طویل نظریاتی کشمکش ہے اور طے شدہ تہذیبی معرکہ ہے۔ اسے محض جمعہ کی تقریروں، اکا دکا اخباری بیانات اور چند قراردادوں کے ذریعے نہیں لڑا جا سکتا۔ اس کے لیے منصوبہ بندی درکار ہے، ترجیحات قائم کرنے کی ضرورت ہے، صف بندی ناگزیر ہے اور وسائل ضروری ہیں، لیکن یوں لگتا ہے جیسے کسی صحرا میں اذان دے رہا ہوں یا بھینسوں کے کسی ریوڑ کے آگے بین بجا رہا ہوں۔

بہرحال ان جذبات و تاثرات سے قطع نظر متعلقہ مسئلہ کے حوالے سے بھی دو باتیں عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

  1. ایک یہ کہ اگر فی الواقع یہ ثابت ہو جائے کہ مذکورہ خاتون کے ساتھ زنا بالجبر ہوا ہے تو واقعی اس کو سنگسار کرنے کی سزا نہیں دی جا سکتی۔ اسلامی قانون بھی یہی کہتا ہے کہ جبر ثابت ہو جانے کے بعد شرعی حد کا نفاذ مجبور پر نہیں ہوتا، لیکن جبر ثابت کرنے کا فورم این جی اوز کا سیمینار، پشاور کا پریس کلب اور بین الاقوامی میڈیا نہیں، بلکہ بالاتر عدالت ہے جو موجود ہے اور ایک عرصہ سے اس قسم کے معاملات کو نمٹا رہی ہے۔ اسے نظرانداز کر کے ماتحت عدالت کے کسی فیصلے کو عام سطح پر موضوع بحث بنانا اور دنیا بھر میں اس کے خلاف شور و غوغا کرنا ملک کے عدالتی نظام کے خلاف عدمِ اعتماد کا اظہار ہے۔
  2. دوسری گزارش یہ ہے کہ اگر اس کیس میں جبر ثابت نہیں ہوتا اور مذکورہ خاتون کے ناجائز تعلقات اور بدکاری میں اس کی رضامندی ثابت ۔۔۔
   
2016ء سے
Flag Counter