مختلف مذاہب کے دانشوروں سے ملاقاتیں

   
الشریعہ اکادمی، ہاشمی کالونی، گوجرانوالہ
۸ فروری ۲۰۱۶ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ان نشستوں میں گفتگو کے لیے بنائی گئی فہرست میں ایک موضوع ہے ”غیر مسلم شخصیات کے ساتھ ملاقاتیں اور غیر مسلم اداروں میں حاضری“۔ غیر مسلم مذہبی شخصیات کے ساتھ میری ملاقاتیں رہتی ہیں اور غیر مسلم مذہبی اداروں میں آنا جانا بھی رہتا ہے، اس سلسلہ میں اپنے بعض مشاہدات کا تذکرہ کرنا چاہوں گا لیکن اس سے پہلے یہ ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ بخاری شریف کی روایت میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہودیوں کے ایک ’’بیت المدراس‘‘ میں تشریف لے جانے اور ان سے گفتگو کا تذکرہ ملتا ہے، جبکہ تاریخی روایات بتاتی ہیں کہ امیر المومنین حضرت عمر بن الخطابؓ کے دور میں جب بیت المقدس فتح ہوا اور وہ اس کی چابیاں وصول کرنے کے لیے خود وہاں تشریف لے گئے تو دیکھا کہ یہودیوں کی قدیمی عبادت گاہ کو عیسائیوں نے قبضے کے بعد مسمار کر کے وہاں کوڑے کرکٹ کا ڈھیر لگا رکھا تھا جس کا باعث ان کی یہودیوں سے نفرت تھی۔ حضرت عمرؓ نے خود اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر وہاں سے کوڑا کرکٹ اٹھایا اور اسے عبادت کے لیے صاف کیا۔ مگر جب نماز کا وقت آیا اور ساتھیوں نے حضرت عمرؓ سے وہاں نماز ادا کرنے کے لیے کہا تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اگر میں نے یہاں نماز پڑھ لی تو تم لوگ اس پر قبضہ کر لو گے جبکہ یہ یہودیوں کی عبادت گاہ ہے۔ چنانچہ ایک اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کو حاصل سیاسی اور شہری حقوق میں ان کی عبادت گاہوں کا تحفظ اور احترام بھی شامل ہے جو اسلام کی شاندار تعلیمات اور روایات کا روشن باب ہے۔

امریکہ کا ایک بڑا شہر اٹلانٹا ہے، وہاں میرے بچپن کے دوست افتخار رانا ہوتے ہیں۔ جو گکھڑ میں ہمارے پڑوسی تھے، اہل حدیث خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، ہمارا دونوں گھرانوں کا آپس کا باہمی تعلق ایسے ہے کہ وہ حضرت والد صاحبؒ کو ”ابا جی“ کہتے ہیں۔ گکھڑ کے بہت سے گھرانے ایسے ہیں جو حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو ابا جی کہتے تھے ، ان میں ایک وہ بھی ہیں۔ پاک فوج میں میجر رہے ہیں، ریٹائرمنٹ کے بعد امریکہ چلے گئے۔ امریکہ میں انہیں تیس پینتیس سال ہو گئے ہیں۔ عمر میں مجھ سے سال دو سال بڑے ہوں گے۔ میں جب امریکہ جاتا تو دو تین دن کے لیے ان کے پاس حاضری ہوتی تھی، کیونکہ ان کے بچوں کا تقاضا ہوتا تھا۔ بلکہ ایک لطیفہ بھی ان کے حوالے سے عرض کر دیتا ہوں۔

حضرت والد محترم رحمۃ اللہ علیہ کی یادداشت کا آپ اندازہ کریں کہ جب افتخار رانا یہاں سے بچوں سمیت امریکہ گئے تو ان کی چھوٹی بچی گود میں تھی۔ ہمارا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا تھا تو ان کے بچے ہمارے گھر میں کھیلتے تھے۔ اس بات کو بائیس سال کا وقت گزر گیا۔ میں جب امریکہ سے سفر کر کے واپس آتا تو والد صاحبؒ مجھ سے پوچھتے تھے کہ افتخار کے ہاں گئے تھے؟ میں بتاتا کہ گیا تھا۔ ان کی بیوی ، بچوں اور بہنوں میں سے ہر ایک کا نام لے کر ان کا حال دریافت کرتے۔ ایک دفعہ میں امریکہ سے واپس آیا، تو والد صاحبؒ حسب معمول پوچھا افتخار کے پاس گئے تھے؟ میں نے کہا گیا تھا۔ پوچھا کتنے دن رہے؟ میں نے بتایا دو تین دن رہا ہوں۔ ان کی سب سے چھوٹی بچی جو ان کے جاتے ہوئے گود میں تھی، اس کا نام لے کر مجھ سے پوچھا اس کا کیا حال ہے؟ مجھے بہت تعجب ہوا کہ انہیں گود میں کھیلتی بچی کا نام ابھی تک یاد ہے، جو بائیس سال کی ہو چکی ہے۔ میں نے بتایا میں اس کا نکاح پڑھا کر آیا ہوں۔ افتخار رانا نے میرے لیے شادی روکی ہوئی تھی کہ میں جا کر نکاح پڑھاؤں گا۔ میرے جانے پر انہوں نے شادی کا اہتمام کیا۔ اتفاق سے اسی سفر میں نکاح پڑھا کر آیا تھا تو والد صاحبؒ نے اس کے بارے میں پوچھ لیا۔

ایک مرتبہ امریکہ کی ریاست الاباما کے شہر برمنگھم میں افتخار رانا کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا، انہوں نے بتایا کہ اس علاقہ میں اب بھی سیاہ فام عیسائیوں کے چرچ الگ ہیں اور گوروں کے چرچ الگ ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے چرچ میں نہیں جا سکتے۔ مجھے یقین نہ آیا اس لیے کہ امریکہ میں گوروں اور کالوں کا یہ فرق صدیوں سے چلا آرہا تھا اور ہر شعبے میں تھا حتیٰ کہ کالوں کے سکول، ہسپتال اور ریسٹورنٹ تک الگ ہوتے تھے۔ مگر سیاہ فام امریکی راہنما مارٹن لوتھرکنگ کی تحریک کے نتیجے میں صدر جان ایف کینیڈی نے اپنے دور میں قانوناً یہ فرق ختم کر دیا تھا اور کالوں کو برابر کے شہری حقوق دے دیے تھے۔ لیکن جب افتخار رانا نے بتایا کہ عبادت خانوں میں یہ فرق ابھی تک موجود ہے تو میں نے اصرار کیا کہ یہ فرق میں خود دیکھنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اس کے لیے آپ کو اتوار تک یہاں رکنا پڑے گا اس لیے کہ عیسائی عبادت گاہوں کی سرگرمیاں اتوار کے روز ہی ہوتی ہیں۔ میں رک گیا اور اتوار کو افتخار رانا کے ہمراہ برمنگھم الاباما میں کالوں اور گوروں کے الگ الگ عبادت خانوں کا مشاہدہ کیا اور انہیں عبادت کرتے دیکھا۔

میں نے افتخار رانا سے کہا کہ یہاں کے کسی بڑے پادری صاحب سے وقت لے دیں، میں ان سے ملنا چاہتا ہوں، تبادلہ خیالات اور مختلف معاملات پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ عیسائیوں کا ایک فرقہ بپٹسٹ ہے، جس طرح ہمارے بہت سے فرقے ہیں، عیسائیوں کے ہم سے زیادہ فرقے ہیں۔ بپٹسٹ فرقہ امریکہ میں خاصی تعداد میں ہے۔ کالوں کے چرچ کے چیف پادری ، جن کا نام کیمبل تھا، ان سے ملاقات کا وقت لیا۔ میں انگریزی بالکل نہیں جانتا، نہ بات کر سکتا ہوں نہ سمجھ سکتا ہوں۔ افتخار رانا ہمارے درمیان ترجمان تھے۔ کام رکتا نہیں الحمد للہ کوئی نہ کوئی ترجمان مل جاتا ہے۔ ہم چرچ میں پادری صاحب کے ہاں گئے۔ علیک سلیک اور چائے پانی سے فارغ ہوئے تو میں نے کہا آپ سے دو تین سوال کرنا چاہتا ہوں۔ افتخار رانا نے انہیں میرا تعارف کرایا کہ میرا شمار پاکستان کے بڑے مولویوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا پوچھیں۔

میں نے ان سے پوچھا کہ آپ امریکی معاشرے کے فرد ہیں، آپ کا یہیں سے تعلق ہے اور یہاں ہی رہتے ہیں۔ معاشرے میں جو کچھ شر، فساد بپا ہے خاص طور پر اس حوالے سے کہ یہاں بے حیائی ، عریانی، بدکاری عام ہے، سود، زنا اور جوا عام چلتا ہے۔ یہ ساری چیزیں عیسائی مذہب میں حرام ہیں۔ جس طرح ہمارے مذہب میں حرام ہیں ان کے ہاں بھی حرام ہیں۔ میں نے کہا یہاں اتنی کھلی آزادی ہے، یہ آپ کو کیسا لگ رہا ہے؟ وہ کہنے لگے دراصل ہمارے ہاں دستور اور قانون میں کوئی مذہبی پابندی نہیں ہے۔ میں نے کہا میں دستور اور قانون کی بات نہیں کر رہا، آپ کی بات کر رہا ہوں، مذہب کی بات کر رہا ہوں کہ بائبل، عیسیٰ علیہ السلام، خدا ،چرچ اور آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا جو کچھ ہو رہا ہے ، غلط ہو رہا ہے۔ جیسس یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کی خلاف ورزی ہو رہی ہے ، بائبل اور مذہب کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے مذہب کے خلاف ہے، جیسس اور بائبل کی تعلیمات کے خلاف ہے۔

میں نے کہا آپ مذہب کے نمائندے ہیں، بائبل اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نمائندے ہیں، آپ اس کو روکنے کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ کہنے لگے میں یہاں ہر اتوار بائبل کا درس دیتا ہوں۔ اس میں ساری چیزیں بتاتا ہوں کہ یہ غلط ہے، وہ غلط ہے وغیرہ۔ میں نے کہا آپ کے درس میں کتنے لوگ شریک ہوتے ہیں؟ انہوں نے کہا تقریباً ڈیڑھ دو سو ہوتے ہیں۔ میں نے پوچھا اٹلانٹا کی آبادی کتنی ہے؟ کہنے لگے ایک ملین۔ میں نے کہا کیا آپ مطمئن ہیں کہ دس لاکھ کی آبادی میں ہفتے میں ڈیڑھ دو سو آدمیوں کو آدھا گھنٹہ درس دے کر آپ نے اپنا فرض ادا کر لیا ہے؟ کل قیامت میں آپ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سامنے پیش ہونا ہے۔ کیا آپ انہیں مطمئن کر لیں گے کہ میں نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے؟ کہنے لگے نہیں! میں نے کہا پھر آپ کیا کر رہے ہیں؟ انہوں نے پوچھا میں کیا کر سکتا ہوں؟ میں انہیں یہیں پر لانا چاہتا تھا۔ میں نے کہا جو میں کر رہا ہوں۔ انہوں نے پوچھا آپ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا ہمیں بھی یہ صورتحال درپیش ہے، لیکن ہم صرف ہفتے میں آدھے گھنٹے کے درس پہ اکتفا نہیں کرتے۔ ہم وہاں بازار، مسجد، منبر، اسمبلی، ریڈیو ، ٹی وی، اخبارات و رسائل، جلسہ و جلوس ہر طریقے سے جو ذرائع بھی ہمیں میسر آتے ہیں، ان کے ذریعے شور مچاتے ہیں اور لوگوں کو متنبہ کرتے ہیں۔ ہماری کشمکش چل رہی ہے ، لیکن ہم نے یہ سب کچھ قبول نہیں کیا بلکہ مزاحمت کر رہے ہیں۔ وہ کہنے لگے مجھ سے یہ بات آج سے پہلے کسی نے نہیں کہی، پہلی دفعہ یہ بات سن رہا ہوں۔ میں نے کہا ہم تو یہ کرتے ہیں۔ ہمیں بھی اس صورتحال کا سامنا ہے، لیکن جہاں تک ممکن ہو ہم کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں۔ ہم یہ سوچ کر کہ ہفتے میں ایک دن درس دے دیا تھا، باقی چھ دن آرام سے نہیں گزارتے۔ ہفتے کے سات دن کچھ نہ کچھ کہیں نہ کہیں کرتے رہتے ہیں۔

انہوں نے پوچھا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میں نے کہا جناب! آپ کا اور ہمارا دشمن ایک ہے۔ وہ طبقہ جو یہ کہتا ہے کہ مذہب کا معاشرتی مسائل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، معاشرہ آزاد ہے جو مرضی کرے، مذہب ذاتی چیز ہے، صحیح کام کرو یا غلط، آپ کی مرضی ہے، قانون ، تجارت، سیاست ، عدالت اور معاشرے کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آپ کا مخالف یہی طبقہ ہے اور میرا مخالف بھی یہی طبقہ ہے۔ اسی طبقے نے ہم دونوں کے راستے میں رکاوٹ ڈال رکھی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ طبقہ آپ کے ہاں غالب ہے ،اور ہمارے ہاں غالب ہونے کی کوشش کر رہا ہے اور ہم مزاحمت کر رہے ہیں۔ میں نے کہا کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ہم دونوں اکٹھے ہو جائیں اور مل کر جدوجہد کریں؟ میں نے کہا میں علماء کو اکٹھا کرتا ہوں، آپ پادری صاحبان کو اکٹھا کریں، ہم ایک مشترکہ فورم بناتے ہیں۔ میں علماء کی طرف سے ذمہ داری سے بات کر رہا ہوں، آپ پادری صاحبان کا کنونشن بلائیں، ہم دونوں ان سے بات کرتے ہیں اور دونوں مل کر یہ جنگ لڑتے ہیں۔ اگر اللہ پاک ہمیں فتح دے دے تو آپ اپنے ہاں بائبل نافذ کر دیں، میں اپنے ہاں قرآن پاک نافذ کر دوں گا۔ ہم دونوں مل کر رکاوٹ ختم کرتے ہیں اور اپنی اپنی کتاب نافذ کرتے ہیں۔ امریکہ میں عیسائی اکثریت ہے یہاں آپ بائبل نافذ کریں، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا، لیکن میں قرآن نافذ کروں تو آپ کو بھی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔

درمیان میں لطیفہ یہ ہوا کہ جب میں نے یہ بات کی کہ آپ اپنے ہاں بائبل نافذ کر دیں تو افتخار رانا نے، جو ہمارے درمیان ترجمہ کر رہا تھا، مجھے کہا ،اینوں کیوں مروانا ایں؟ ( اسے کیوں مروانا چاہتے ہو؟) میں ہنس پڑا۔ پادری صاحب نے پوچھا مگر ہم نے نہیں بتایا کہ کیا بات ہوئی ہے۔

پادری صاحب فرمانے لگے کہ آپ کی باتیں ٹھیک ہیں، لیکن زندگی میں پہلی بار ایسی باتیں ہوئی ہیں۔ میرا ذہن اس وقت کام نہیں کر رہا ، آپ آئندہ کسی موقع پر آئیں تو میں پادری صاحبان سے آپ کی ایک نشست کرواؤں گا اور مل کر کوئی مشورہ کریں گے۔ آپ کی بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہمیں اپنے مشترکہ دشمن کو مل جل کر شکست دینی چاہیے۔ اس کے بعد مجھے وہاں جانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ یہ میں نے آدھ پون گھنٹے گفتگو کا خلاصہ ذکر کیا ہے۔

جامعہ الہدیٰ نوٹنگھم برطانیہ میں ہمارے میرپور آزاد کشمیر کے ساتھی مولانا رضاء الحق سیاکھوی ہوتے ہیں۔ کافی عرصہ سے وہاں مقیم ہیں۔ بڑے سمجھدار عالم دین ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ کسی اچھے سمجھدار پادری سے ملوائیں، میں ان سے گفتگو اور تبادلہ خیالات کرنا چاہتا ہوں۔ نوٹنگھم کے لاٹ پادری یعنی سرکاری بڑے پادری صاحب فادر کینن نیل سے وقت لے کر ہم ان کے پاس چلے گئے ،مولانا عیسیٰ منصوری ، مولانا رضاء الحق صاحب اور ہمارے نو مسلم ساتھی حاجی عبدالرحمٰن ساتھ تھے۔ حاجی عبدالرحمٰن آئرش ہیں۔ انہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد باقاعدہ دین پڑھا ہے، تبلیغی جماعت کے ساتھ وقت لگایا ہے۔ ان کو دیکھیں تو پہلی نظر میں یوں لگتا ہے جیسے سوات کے کوئی بزرگ تبلیغی جماعت میں چار ماہ لگا کر آئے ہیں۔ ان کا باپ اٹارنی جنرل رہا ہے۔ حاجی عبدالرحمٰن بہت سمجھدار آدمی ہے ، اردو اور عربی ٹھیک ٹھاک بولتا ہے اور انگریزی ان کی اپنی زبان ہے۔ حاجی عبدالرحمٰن وہاں ہمارے ترجمان تھے۔ میں نے پادری صاحب سے یہی سوال کیا آپ کے معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہے، تین حوالوں سے کہ مغرب میں زنا عام ہے ، عریانی عروج پر ہے، شراب اور سود عام ہے۔ آپ مطمئن ہیں کہ یہ ٹھیک ہو رہا ہے؟ کہنے لگے نہیں۔ میں نے کہا اس کو کوئی بریک ہے؟ یہ عمل کہیں جا کر رکے گا یا بڑھتا ہی رہے گا؟ آپ کو کوئی بریک نظر آ رہی ہے ؟ کہنے لگے نہیں۔ میں نے کہا میں ریورس گیئر کی بات نہیں کرتا کیونکہ جب اسے بریک ہی نہیں ہے تو ریورس گیئر کہاں سے لگے گا؟ میں نے کہا جب یہ فحاشی، بدمعاشی ، عریانی، بدکاری اور حرام خوری بڑھتی جا رہی ہے تو اس کا آپ کے پاس کیا حل ہے؟ آپ چرچ ، بائبل اور جیسس کی بات کر رہے ہیں تو آخر آپ کچھ سوچتے ہوں گے۔ مجھے بتائیں کہ آپ کو اس سارے عمل میں کہیں رکاوٹ کا امکان نظر آتا ہے؟ انہوں نے کہا کوئی رکاوٹ نہیں ہے، ہمارے پاس کوئی بریک نہیں ہے جو ہم اس کو روک سکیں۔ ہم ناکام ہو گئے ہیں۔ میں نے کہا پھر؟ ان کا یہ جملہ میں اپنے بچوں سے بطور خاص کہنا چاہوں گا کہنے لگے ان خرابیوں کو روکنے کے لیے ہمارے پاس کوئی حل نہیں ہے، ہم آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ان کا اگلا جملہ یہ تھا کہ اس سارے شر کو روکنے کے لیے جو نور درکار ہے، اس نور کی چمک ہمیں آپ لوگوں کی آنکھوں میں دکھائی دیتی ہے۔ آپ ہی کچھ کر سکتے ہیں، ہم سے کچھ نہیں ہوتا۔ میں عرض کرتا ہوں یہ ان کا ہمارے لیے پیغام ہے۔ یہ میں نے دوسرے پادری صاحب سے ملاقات کا ذکر کیا ہے۔

برمنگھم برطانیہ میں سکھوں کا ایک بڑا گردوارہ ہے۔ ایک دفعہ ہمارا پروگرام بن گیا کہ وہاں چلتے ہیں، دیکھتے ہیں، گپ شپ کرتے ہیں۔ مولانا عیسیٰ منصوری، میں اور مولانا سلمان الحسینی ندوی سمیت ہم چار پانچ تگڑے مولوی تھے۔ ہم نے انہیں پیغام بھجوایا کہ ہم آپ کا گردوارہ وزٹ کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے آئیں۔

میں نے ان کا امرتسر کا بڑا گردوارہ ، گولڈن ٹمپل اور ننکانہ صاحب کا گردوارہ بھی دیکھا ہوا ہے۔ گولڈن ٹیمپل کی مرکزی عمارت تک جانے کے لیے پانی کے ایک تالاب میں سے گزرنا پڑا جس میں ٹخنوں تک پانی تھا، اس تالاب اور پانی کو سکھوں کے ہاں بہت مقدس سمجھا جاتا ہے۔ میں بھی اس میں سے ننگے پاؤں گزر کر عمارت میں پہنچا اور وہاں سکھوں کو عبادت کرتے دیکھا۔

ہم ساتھی برمنگھم گردوارہ میں گئے تو ہمارے لیے مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ ان کا طریقہ یہ ہے کہ گردوارہ کے ہال میں جوتا اور جراب پہن کر نہیں جا سکتے ،ننگے پاؤں جانا ضروری ہے۔ جس طرح ہمارے ہاں مسجد کے اندر جوتا پہن کر نہیں جا سکتے ان کے ہاں گردوارہ کی باہر کی حدود میں بھی جوتا نہیں پہن سکتے۔ ہم گئے تو انہوں نے کہا ننگےپاؤں آنا پڑے گا۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے، کوئی بات نہیں، ننگے پاؤں آ جائیں گے۔ ان کی یہ بھی شرط ہے کہ گردوارہ کے مین گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہوئے سکھوں کی مقدس کتاب گرو گرنتھ کو سجدہ کرنا پڑتا ہے، جس کو ماتھا ٹیکنا کہا جاتا ہے۔ اس کے بغیر کوئی دروازے سے اندر نہیں جا سکتا۔ ہم گئے تو انہوں نے کہا آپ کو ماتھا ٹیکنا پڑے گا۔ ہم نے کہا ہم ماتھا نہیں ٹیکیں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کے سامنے ماتھا ٹیکنا شرک ہے، اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہم یہاں ماتھا ٹیکیں۔ اس پر ہمارا خاصا تکرار ہو گیا۔

ان کے ہر گردوارے کے ساتھ پانچ بڑے سکھوں کے کمیٹی ہوتی ہے جو فیصلے کیا کرتی ہے، اسے ”پنج پیارے“ کہتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں کہا کہ یہ فیصلہ تو پانچ پیارے ہی کریں گے۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے۔ وہ پنج پیارے بیٹھے۔ ایک گھنٹہ کے بحث مباحثہ کے بعد انہوں نے فیصلہ دیا۔ اور ہمیں کہا گیا کہ چونکہ آپ مہمان ہیں، اس لیے آپ ماتھا ٹیکے بغیر اندر آ سکتے ہیں۔ ہم اندر گئے اور سارا منظر دیکھا۔

وہاں ان کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ہال کے درمیان میں گرو گرنتھ (سکھوں کی مذہبی کتاب) پڑی ہوتی ہے۔ گرنتھ میں قرآن پاک کی آیتیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات، بابا فرید الدین گنج شکرؒ کی کافیاں اور صوفیاء بالخصوص حضرت میاں میرؒ کے اقوال ہیں۔ گرنتھ میں عربی ، اردو ، فارسی ، پنجابی اور سنسکرت سب ہیں۔ ایک گرو اس کو پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ یہ ان کا کمال ہے کہ ایک لمحے کا ناغہ کیے بغیر چوبیس گھنٹے گرنتھ کی قرات ہوتی رہتی ہے۔ گرو صاحبان کی دو دو گھنٹے ڈیوٹی ہوتی ہے ، جو ترنم کے ساتھ گرنتھ پڑھتے رہتے ہیں۔ وہاں جانے والوں کے دو ہی کام ہیں کہ گرنتھ سنو اور لنگر کھاؤ۔ جیسے ہمارے پرانے خانقاہی سسٹم میں ہوتا تھا کہ اللہ اللہ کرتے رہیں اور لنگر کھائیں۔پرانے صوفیاء کی خانقاہ میں یہ دو چیزیں تھیں۔ سکھوں نے یہی طریقہ رکھا ہوا ہے کہ گرنتھ پڑھتے یا سنتے رہو، اور تبرک کھاتے رہو۔

ان سے ہم نے معلومات کی تو انہوں نے بتایا اس گردوارہ کو بنے ہوئے پندرہ سال ہو گئے ہیں ، آج تک ایک منٹ کا وقفہ کیے بغیر گرنتھ کی مسلسل قرأت ہو رہی ہے اور ایک منٹ کا ناغہ کیے بغیر مسلسل چوبیس گھنٹے لنگر جاری ہے، مسلمان، عیسائی، سکھ، سکھ جو مرضی ہے آئے، لنگر سے کھا سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اوسطاً یومیہ پانچ ہزار آدمی لنگر کھاتے ہیں۔ لنگر میں حلوہ، سویاں گوشت سب کچھ چلتا ہے۔ انہوں نے ہمیں کھانے کا کہا تو ہم نے کہا کہ ہم حلوہ کھا لیں گے، گوشت نہیں کھائیں گے۔ بہرحال ہم نے وہاں کاوزٹ کیا اور ان کا طریقہ کار دیکھا۔

ایک دفعہ ہم نے شکاگو میں بہائیوں کا مرکز دیکھا۔ بہائی منکرین ختم نبوت میں سے ہیں۔ ہمارے ہاں مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا، ایران میں مرزا بہاءاللہ شیرازی نے نبوت کا دعوی کیا تھا اس کے ماننے والے بہائی کہلاتے ہیں، دنیا میں کثیر تعداد میں ہیں۔ بہائی اور مرزائی تقریباً ملتے جلتے ہیں۔ میں کہا کرتا ہوں کہ بہائی شیعوں کے قادیانی ہیں اور مرزائی سنیوں کی بہائی ہیں۔ مرزا بہاء اللہ شیرازی کا دعویٰ ہے کہ ہم سارے مذاہب کو سچا سمجھتے ہیں اور سب کو اکٹھا کرتے ہیں۔ ”اتحاد بین المذاہب“ اصل میں بہائیوں کا دعویٰ ہے۔ مرزا بہاء اللہ کا کہنا ہے ’’نقلِ کفر کفر نہ باشد‘‘ کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے پیغمبر دنیا میں آئے ہیں سارے سچے ہیں، سارے مذہب حق ہیں۔ لیکن ان کی مثال دریاؤں، نہروں، ندی نالوں کی ہے، میری مثال سمندر کی سی ہے۔ جیسے برف پگھلتی ہے اور پانی ندی نالوں، نہروں اور دریاؤں سے ہوتا ہوا سمندر میں جا گرتا ہے، اسی طرح سارے پیغمبر مجھ میں آ کر گرے تھے، میں سمندر ہوں۔ مجھ میں ساری سچائیاں اکٹھی ہو گئی ہیں۔

حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ اور میں ہم دونوں کا محاذ ایک ہی تھا اور ہم اکثر اکٹھے سفر کیا کرتے تھے۔ ہم نے برطانیہ ،جنوبی افریقہ، امریکہ، ایران ،سعودی عرب میں اکٹھے ہی سفر کیے ہیں۔ ایک دفعہ ہم امریکہ میں تھے تو پتہ چلا کہ شکاگو میں بہائیوں کا بہت بڑا مرکز ہے۔ دنیا کے بڑے مراکز میں سے ہے۔ میں نے مولانا چنیوٹی ؒ سے کہا کہ بہائیوں کا مرکز دیکھنے جاتے ہیں اور جا کر دیکھتے ہیں کہ وہ وہاں وہ لوگ کیا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہمیں کون وہاں جانے دے گا؟ میں نے کہا چلیں تو سہی۔ میرے ذوق کی بات ہے، مندر ہو، چرچ ہو، گردوارہ ہو، میں اندر چلا جاتا ہوں، گپ شپ کرتا ہوں، جائز حدود میں کھاتا پیتا بھی ہوں۔ ہم نے پیغام بھجوایا۔ جب ہم اندر گئے تو وہ ہمیں پہچان گئے۔ انہیں پتہ چل گیا تھا کہ یہ ختم نبوت کے محاذ کے مولوی ہیں۔ مولانا چنیوٹیؒ ختم نبوت کے محاذ کے کمانڈر تھے، میں بھی کارکن تھا۔ انہوں نے بڑے اعزاز ، پروٹوکول اور اکرام کے ساتھ ہمارا استقبال کیا۔ جس طرح ایک مہمان کا استقبال اور خدمت ہوتی ہے، انہوں نے کیا۔ پھر ہمیں اپنا سارا ماحول دکھایا۔

اس کا ایک منظر یہ ہے کہ ایک بہت بڑا ہال ہے۔ اس ہال میں چھ عبادت خانے ایک چھت کے نیچے ہیں۔ ایک کونے میں مسجد ہے، جس میں ہماری مساجد کی طرح چٹائیاں بچھی ہوئی ہیں، مسجد کی محراب ہے، منبر اور تپائیاں پڑی ہیں، الماری میں قرآن پاک رکھے ہوئے۔ بالکل مسجد کا ماحول ہے۔ دوسرے کونے میں چرچ ہے، تیسرے میں مندر ہے اور چوتھے کونے میں یہودیوں کا سینی گاگ ہے، جبکہ ہال کے وسط میں گوردوارہ اور بدھوں کی عبادت گاہ ہے اور ہر عبادت گاہ کو اس کا پورا ماحول فراہم کیا گیا ہے۔ مرکز کے منتظمین کا کہنا تھا کہ ہر مذہب والے کو اپنی عبادت گاہ میں آنے اور اپنے طریقے کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت ہے، بہت سے لوگ عبادت کے لیے آتے ہیں۔ ہم نے یہ سہولت اور آزادی دے رکھی ہے اور یوں ہم نے سارے مذہبوں کو ایک چھت کے نیچے اکٹھا کر دیا ہے۔ انہوں نے ڈیڑھ دو گھنٹہ ہمیں گھمایا پھرایا اور سارا کام بتایا۔

آخر میں ہم سے پوچھا کہ آپ کا تبصرہ کیا ہے، آپ کو یہ منظر کیسا لگا کہ کہ چھ عبادت خانے ایک چھت کے نیچے ہیں۔ میں نے کہا کہ مسجد اور چرچ تو آپ نے ایک چھت کے نیچے اور ایک چار دیواری کے اندر بنا دیے ہیں لیکن ایک خدا اور تین خداؤں کو کیسے جمع کر لیا ہے؟ مسجد میں خدا ایک ہے، چرچ میں تین ہیں اور مندر میں خدا کروڑوں کے حساب سے ہیں۔ آپ نے مسجد، چرچ اور مندر تو اکٹھے کر دیے ہیں مگر (۱) خدا ایک ہے وحدہٗ لا شریک ہے (۲) خدا تین ہیں (۳) خدا کی قدرت کے مظاہر کروڑوں بھی خدا کا درجہ رکھتے ہیں، یہ باتیں کیسی اکٹھی کر لی ہیں؟ یہ مجھے سمجھا دیں۔ وہ مسکرا کر بولے کہ چھوڑیں یہ فلسفہ کی باتیں ہیں۔ میں نے کہا کہ فلسفہ کی نہیں بلکہ یہ عقیدہ اور ایمان کی بات ہے۔

میرا ایک دفعہ مندر میں بھی جانا ہوا تھا۔ ۱۹۸۰ء کے دوران دارالعلوم دیوبند کے صد سالہ اجلاس کے موقع پر حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی قیادت میں علماء کرام کا ایک بڑا قافلہ دیوبند گیا تھا جس میں والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ بھی شامل تھے۔ میرا ویزا قافلہ کے ساتھ لگا تھا لیکن قافلہ کے ساتھ سفر کرنے کی بجائے یہ سارا سفر میں نے اکیلے کیا۔ جاتے ہوئے تو ایک عذر کی وجہ سے ایسا ہوا مگر واپسی پر میری افتاد طبع اور ذوق و مزاج نے مجھے تنہا سفر پر آمادہ کیا اور میں دہلی، سہارنپور، لدھیانہ، مظفر نگر اور امرتسر وغیرہ میں گھومتا رہا۔ جاتے ہوئے راستے میں ایک مندر کے اندر چلا گیا۔ ایک دوسرے کا حال احوال پوچھا، میں نے اپنا تعارف کرایا۔ میرا مقصد راستہ پوچھنا تھا کہ میں نے دیوبند جانا ہے راستہ بتا دیں۔ وہاں انہوں نے مجھے پکوڑے کھلائے۔ مزید وہاں کسی حوالے سے گفتگو نہیں ہوئی۔

علاوہ ازیں امام بارگاہوں میں میرا آنا جانا رہتا ہے، بلکہ ایران کی ایک بڑی امام بارگاہ کا بھی دورہ کیا۔ میں ایران میں گیارہ دن رہا ہوں۔ میں نے پاکستانی علماء، وکلاء اور دانشوروں کے ایک وفد کے ہمراہ جنوری ۱۹۸۷ء میں ایران کے مختلف حصوں کا مطالعاتی دورہ کیا، پنجاب اسمبلی کے رکن اور جمعیۃ علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات مولانا منظور احمد چنیوٹی بھی وفد میں شامل تھے۔ یہ وفد پندرہ ارکان پر مشتمل تھا۔ ایران میں گیارہ روزہ قیام کے دوران ہم نے چھ دن تہران میں قیام کیا اور انہی میں سے ایک دن کا کچھ حصہ قم میں گزارا۔ دو دن مشہد میں رہے، دو دن زاھدان میں قیام رہا اور باقی وقت سفر میں گزرا۔

تہران میں یونیورسٹی کے وسیع گراؤنڈ میں ادا کی جانے والی نماز جمعہ کے اجتماع میں شرکت کی۔ یہ اجتماع تہران میں جمعۃ المبارک کا واحد اجتماع ہوتا ہے جس میں کم و بیش پانچ چھ لاکھ افراد شریک ہوتے ہیں اور صدر ایران جناب علی خامنہ ای، یا اسپیکر قومی اسمبلی جناب ہاشمی رفسنجانی، یا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس خطبۂ جمعہ اور امامت کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ جس روز ہم نے اس عظیم اجتماع میں شرکت کی اس روز چیف جسٹس جناب آیت اللہ عبد الکریم اردبیلی نے خطبہ دیا، ان کے پہلے خطبہ کا موضوع اولاد کی تربیت کے سلسلہ میں ماں باپ کی ذمہ داری تھا جبکہ دوسرے خطبہ میں انہوں نے ایران کے قومی مسائل مثلاً عراق ایران جنگ، کویت کی اسلامی کانفرنس اور دیگر مسائل پر روشنی ڈالی۔ گویا یہ اجتماع ایک طرح سے قومی مسائل پر عوام کو اعتماد میں لینے کا اجتماع تھا جو ہر جمعہ کو منعقد ہوتا ہے اور اسے ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے پورے ایران میں نشر کیا جاتا ہے۔

ایران کی اعلیٰ ترین کونسل ’’شورٰی نگہبان‘‘ کے فقیہ جناب آیت اللہ جنتی سے ہماری اجتماعی ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے انقلاب ایران کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ باقی مسلم ممالک میں بھی دینی انقلاب کی جدوجہد ہونی چاہیے۔ اس مجلس میں ہماری طرف سے ان مشکلات کا ذکر کیا گیا جو پاکستان میں نفاذ اسلام کی راہ میں حائل ہیں، بالخصوص انہیں توجہ دلائی گئی کہ پاکستان میں شیعہ فقہ کے مستقل نفاذ کا مطالبہ نفاذ اسلام کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔

تہران میں چھ روزہ قیام کے دوران ہمیں ایک دن قم لے جانے کا اہتمام کیا گیا۔ قم ایران کا دینی و علمی مرکز ہے اور جناب آیت اللہ خمینی کا مدرسہ فیضیہ بھی قم میں ہے جو انقلاب ایران کا فکری مرکز ہے۔ ہمارے ساتھ سازمان تبلیغات اسلامی کی طرف سے سرینگر سے تعلق رکھنے والے جناب مقصود علی رضوی اور لکھنو کے جناب خادم حسین بطور رہبر اور ترجمان ہمسفر تھے، ان کی زبانی کچھ معلومات حاصل ہوئیں۔

قم کے سفر میں ہی جناب آیت اللہ منتظری سے وفد کی ملاقات ہوئی۔ جناب منتظری کو آیت اللہ العظمی کہا جاتا ہے اور وہ جناب آیت اللہ خمینی کے قائم مقام ہیں سمجھے جاتے ہیں۔ ملاقات اور گفتگو سے اندازہ ہوا کہ بے حد متین اور مرنجاں مرنج قسم کی علمی شخصیت کے مالک ہیں بلکہ بعض سنی راہنماؤں نے کھلم کھلا اظہار کیا کہ ایرانی انقلاب کے راہنماؤں سے جناب آیت اللہ منتظری اہل تشیع اور اہل سنت کے درمیان رواداری اور تعلقات کے حوالہ سے سب سے زیادہ موزوں اور بردبار شخصیت ہیں۔ بہرحال ان سے ملاقات ہوئی اور مختصر گفتگو بھی ہوئی، انہوں نے معاشرہ میں علماء کے فرائض، استعماری سازشوں سے واقفیت حاصل کرنے، مظلوم طبقوں کی حمایت کرنے، اور اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان زیادہ سے زیادہ رواداری اور روابط پر زور دیا۔

قم میں ہی سیدہ فاطمہؒ کے مزار پر بھی حاضری اور دعا کی سعادت حاصل ہوئی، یہ امام علی رضاؒ کی بہن ہیں جن کے بارے میں روایت ہے کہ اپنے بھائی امام علی رضاؒ سے ملاقات کے لیے مشہد جا رہی تھیں، راستہ میں قم سے گزر ہوا تو خبر ملی کہ امام علی رضاؒ کا انتقال ہوگیا ہے، غم سے بیمار ہوگئیں اور یہیں ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کا مزار اہل ایران کی عقیدتوں کا مرکز ہے اور مزار سے ملحق مسجد میں قم کے مدارس کے طلبہ اپنے اسباق کے تکرار میں مصروف رہتے ہیں۔

تہران میں امام جعفر صادقؒ کے نام سے ایک دینی یونیورسٹی قائم کی گئی ہے۔ یونیورسٹی کی عمارت جدید معیار کی اعلیٰ عمارت ہے اور اس میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری علوم کی تعلیم کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ ہمارے وفد نے یونیورسٹی کے طلبہ کے ساتھ ان کے میس میں دوپہر کا کھانا کھایا اور پھر طلبہ کی طرف سے وفد کے اعزاز میں ایک مختصر استقبالیہ دیا گیا جس میں ایک طالب علم نے شستہ عربی میں اور دوسرے طالب علم نے انگریزی میں خیر مقدمی تقریر کی۔ جواب میں مولانا منظور احمد چنیوٹی نے عربی میں اور جناب محمد احسن خاکوانی ایڈووکیٹ نے انگریزی میں تقریر کی۔

پاکستان کے قومی معاملات میں شیعہ کی الگ شناخت کی بات کب ہوئی اس کا مختصر ذکر کر دیتا ہوں۔ ورنہ شیعہ تحریک پاکستان میں بھی شریک تھے ، بائیس نکات میں، تحریک نظام مصطفٰی میں اور تحریک ختم نبوت کے تینوں مراحل میں شریک تھے۔ علیحدگی کی بات تب ہوئی جب جنرل ایوب خان کے زمانے میں ادارہ تحفظ حقوق شیعہ کے نام سے ایک تنظیم قائم ہوئی جس کے لیڈر سید محمد دہلوی شیعہ عالم اور خطیب تھے۔ میں نے زندگی میں جتنے خطیب دیکھے ہیں ان میں دو تین بڑے خطیبوں میں سے ایک سید محمد دہلوی تھے۔ آگ لگانے والے اور مجمع کو اپنی مرضی سے چلانے والے خطیب تھے۔ انہوں نے یہ جماعت بنائی اور مطالبہ کیا کہ شیعہ اوقاف الگ کیے جائیں، شیعہ کا امتیاز تسلیم کیا جائے، شیعہ کا نصاب تعلیم الگ کیا جائے۔ وہاں سے تحریک شروع ہوئی اور پورے ملک میں بڑا طوفان کھڑا ہو گیا۔

اس پر تنظیم اہلسنت کے زیر انتظام لاہور موچی دروازے میں بہت بڑا جلسہ ہوا۔ حضرت مولانا محمد علی جالندھری ؒ نے تقریر کی، انہوں نے شیعہ قیادت کو خطاب کر کے فرمایا کہ دیکھو، ہم تمہیں تمام معاملات میں اکٹھے رکھے ہوئے ہیں تو تم کیوں الگ ہونا چاہتے ہو؟ تم سے تو مرزائی سیانے ہیں کہ ہم ان کو الگ کر رہے ہیں، مگر وہ کہتے ہیں کہ نہیں ہم الگ نہیں ہوتے۔ یہ کہہ کر آپؒ نے فرمایا کہ تم نے الگ ہونا ہے تو ٹھیک ہے۔ لیکن تقسیم وہاں سے ہو گی جہاں باپ فوت ہوا تھا۔ میراث ایسے ہی تقسیم ہوتی ہے۔ بھائی بیس سال اکٹھے رہیں، لیکن جب تقسیم کریں گے تو تقسیم اسی دن سے کریں گے جس دن باپ فوت ہوا تھا کہ اس دن کس کا کتنا حصہ بنتا تھا اسی کے مطابق تقسیم ہوتی ہے۔ مولانا جالندھریؒ نے شیعہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ٹھیک ہے تم نے الگ ہونا ہے تو اسی اصول پر تقسیم کر لو۔ میں اس کا فارمولہ بتاتا ہوں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ ،حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے، لہٰذا جو علاقے انہوں نے فتح کیے ہیں وہ سارے خالی کرو۔ حضرت علیؓ ہمارے بھی ہیں، مشترک ہیں تو جو علاقے انہوں نے فتح کیے ہیں وہ آدھے تمہارے اور آدھے ہمارے۔ تقسیم کرنی ہے تو پھر شروع سے کرتے ہیں۔ آؤ بیٹھ کر طے کر لیتے ہیں۔

اس کے ایک بڑی عجیب بات کی۔ فرمایا چلو پچھلی بات کو چھوڑو، آج پر تقسیم کر لو۔ ملک میں شیعہ سنی بنیاد پر مردم شماری کرواؤ۔ ہم اس کے لیے تیار ہیں لیکن تمہارے کہنے پر، ہمارا مطالبہ یہ نہیں ہے۔ مردم شماری کرواؤ کہ آپ کتنے فیصد ہیں اور سنی کتنے فیصد ہیں۔ جب فیصد طے ہو جائے گا کہ شیعہ تین فیصد ہیں یہ چار یا پانچ فیصد ہیں، تو پھر ملازمتوں میں بھی اسی تناسب سے تمہارا حصہ ہو گا، فوج اور اسمبلی میں بھی تمہارا اتنا ہی حصہ ہو گا۔ پھر تمہیں چار یا پانچ فیصد سے آگے نہیں بڑھنے دیں گے۔ تمہیں سیٹیں خالی کرنی پڑیں گی، ہم تقسیم کے لیے تیار ہیں۔

اس مسئلے پر بعد میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے قائد علامہ عارف الحسینی صاحب سے میری تفصیلی گفتگو ہوئی۔ میں مذاکرے، مکالمے سے گھبراتا نہیں ہوں، سب سے ملتا ہوں، بات کرتا ہوں، سنتا ہوں بحمد اللہ۔ بات کرنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہوں اور سننے کا حوصلہ بھی رکھتا ہوں۔ خود بھی پوری بات کہتا ہوں اور سنتا بھی پوری بات ہوں۔ علامہ عارف الحسینی سے میری گفتگو ہوئی۔ وہ کہنے لگے کہ مولانا بات بگڑ رہی ہے۔ میں نے کہا ٹھیک کر لو ، بائیس نکات کی پوزیشن پر واپس آ جاؤ اور اعلان کرو کہ ہمارا علیحدگی کا کوئی مطالبہ نہیں ہے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ ختم کرنے کا اعلان کرو۔ میں نے کہا سنیوں کو سمجھانا میرا کام ہے۔ انہوں نے کہا یہ تو مشکل ہے۔ میں نے کہا وہ مشکل ہے تو یہ بھی مشکل ہے۔

پھر ان سے معروضی صورتحال کی بات کی۔ میں نے کہا آپ علیحدہ شناخت کی اس مہم کو ختم نہیں کر سکتے تو مردم شماری کروا لیتے ہیں۔ ہم دونوں مطالبہ کرتے ہیں کہ ملک میں شیعہ سنی بنیاد پر مردم شماری کروائی جائے۔ تناسب طے کیا جائے اور اسی تناسب کی بنیاد پر آپس میں حقوق طے کر لیے جائیں۔ انہوں نے کہا یہ بھی مشکل ہے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے، پھر باقی کام سنبھالنے بھی مشکل ہیں۔ کوئی فارمولہ اور اصول ہو گا تو اس پر بات ہوگی۔ میں نے کہا آپ پچھلی بات پر آتے ہیں تب بھی ہم حاضر ہیں اور اس پر آتے ہیں تب بھی ہم حاضر ہیں۔ میرا مطالبہ یہ ہے کہ اگر سنی شیعہ معاملات میز پر بیٹھ کر طے کرنے ہیں تو ہم اس کے لیے تیار ہیں۔ لیکن اس سے پہلے مردم شماری کروائی جائے، تناسب طے کر لیں۔ جتنا جائز حق بنے گا اگر ہم ایک حق سے بھی انکار کریں تو ہم مجرم ہیں، لیکن پہلے حق کا تعین کیا جائے کہ کس کا کتنا بنتا ہے؟

غیر مسلم شخصیات کے ساتھ ملاقات اور غیر مسلم اداروں میں جانے کے حوالے سے چند مشاہدات میں نے ذکر کیے ہیں۔ میں معلومات حاصل کرنے کے لیے جایا کرتا ہوں اور دیکھا کرتا ہوں۔ مجھے بہت سی دیگر غیر مسلم شخصیات سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے، جس کی تفصیلات کا موقع نہیں ہے۔

2016ء سے
Flag Counter