ٹیکس وصولی کا نیا نظام اور عوامی رجحانات

   
تاریخ : 
۶ جون ۲۰۰۰ء

ملک بھر میں تاجروں کی ہڑتال تادمِ تحریر جاری ہے اور حکومت اور تاجروں کے درمیان کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ان سطور کی اشاعت تک ممکن ہے حالات میں کوئی مثبت تبدیلی آجائے مگر ابھی تک اس کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ اس سلسلہ میں راقم الحروف کو مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے حضرات سے تبادلۂ خیالات کا موقع ملا ہے اور اس حوالہ سے جو تاثرات سامنے آئے ہیں ان میں سے کچھ امور کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔

  • تاجر برادری کی اکثریت اپنی آمدنی کے مطابق ٹیکس دینے کی عادی نہیں ہے بلکہ آمدنی کے بیشتر حصے کو خفیہ رکھنا اور اس کا ٹیکس اور دیگر واجبات کا ادانہ کرنا ہمارے کلچر کا حصہ بن چکا ہے جسے کوئی عیب کی بات نہیں سمجھا جاتا، اس لیے تاجر برادری اس صورتحال میں کسی اچانک اور انقلابی تبدیلی کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہے۔ جبکہ حکومتی اخراجات، ترقیاتی کاموں، بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور دیگر قومی ضروریات کے لیے بجٹ کے موجودہ وسائل ناکافی ہیں اور ٹیکسوں میں اضافہ کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔
  • ہمارے ہاں ٹیکس وصولی کا نظام انتہائی غلط اور پریشان کن ہے، رشوت اور بدعنوانی کی بھرمار نے اس نظام کا اعتماد بالکل ختم کر دیا ہے، اس لیے اس سسٹم کے ذریعے ٹیکسوں کی وصولی کے نئے پروگرام کا حشر بھی سابقہ تجربات سے مختلف نہیں ہوگا۔ گوشواروں کے بارے میں تاجروں پر اعتماد نہیں کیا جاتا اور ان کے تحریر کردہ اعداد و شمار کو کئی گنا بڑھا کر اس اضافے کی بنیاد پر ٹیکس تجویز کیا جاتا ہے اس لیے جو تاجر صحیح اعداد و شمار لکھنا چاہتے ہیں ان کے لیے بھی ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔
  • ٹیکسوں کی وصولی کی موجودہ مہم کے نتیجے میں جو رقوم حاصل ہوں گی وہ قومی خزانے کی بجائے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی قسطوں میں چلی جائیں گی جن کے عوض نئے قرضوں کا اجراء ہوگا۔ اس لیے نئے ٹیکسوں کے نفاذ اور ان کی وصولی کی یہ ساری تگ و دو پاکستان کے گرد بیرونی قرضوں کے حصار کو مزید مستحکم کرنے کا ذریعہ بنے گی جو ملک کے مفاد کے خلاف ہے۔
  • نئے ٹیکسوں کی بھرمار اور ہڑتالوں کے تسلسل کا نتیجہ ملکی صنعت و تجارت کے خاتمہ کی صورت میں آسکتا ہے اور یہ بھی پاکستان کے بارے میں عالمی طاقتوں کے ایجنڈے کا حصہ ہے کہ پاکستان صنعت و تجارت میں آگے بڑھنے کی بجائے صرف زرعی ملک کی حیثیت پر قناعت کرے اور صنعتی ترقی سے دستبردار ہو کر بڑے صنعتی ممالک کی منڈی بنا رہے۔ جبکہ تجارت ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے ہو اور پاکستانی تاجر آزادانہ طور پر تجارت کرنے کی بجائے بین الاقوامی تجارتی نظام میں سیلز مین کی حیثیت قبول کر لیں۔
  • قومی زندگی کے سول شعبوں میں واپڈا، بھل صفائی اور ٹیکس وصولی جیسے معاملات کی طرح پاک فوج کے جوانوں اور افسروں کی شرکت اگر اسی طرح بڑھتی رہی تو مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک کی طرح پاکستان میں بھی قومی فوج ’’حکمران پارٹی‘‘ کی حیثیت اختیار کر جائے گی جس سے اس کی عسکری اور دفاعی صلاحیت متاثر ہوگی، رشوت اور بدعنوانی کے جراثیم اس میں سرایت کرتے چلے جائیں گے، فوج کے جوانوں اور افسروں میں جفاکشی کی بجائے تعیش اور سہولت پسندی کے رجحانات فروغ پائیں گے اور پاک فوج کی ساری صلاحیتیں اور توانائیاں دشمن کے خلاف صرف ہونے کی بجائے اپنی قوم کو قابو میں رکھنے کے لیے وقف ہو جائیں گی۔

اس پس منظر میں یوں لگتا ہے کہ حکومتی حلقوں اور تاجر برادری دونوں میں بین الاقوامی لابیوں کی نمائندگی کا مضبوط عنصر موجود ہے جو ملکی صنعت و تجارت کو تباہی کے مطلوبہ ہدف تک پہنچانے کے لیے باہمی انڈراسٹینڈنگ کے ساتھ پیش رفت کر رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی مفادات اور جنوبی ایشیا میں بھارتی مفادات کے ساتھ امریکہ کی ہم آہنگی واضح طور پر نظر آرہی ہے اور ان مفادات کی تکمیل تک پہنچنے کی راہ میں کوئی ادارہ اگر رکاوٹ بن سکتا ہے تو وہ صرف پاک فوج اور پاکستان کی عسکری بالخصوص ایٹمی طاقت ہے۔ جبکہ پاک فوج کو غیر موثر اور کمزور کرنے کا سب سے بڑا اور شارٹ کٹ ذریعہ یہی ہو سکتا ہے کہ اسے اپنے ملک کے عوام کے خلاف مختلف محاذوں پر صف آرا کر کے قوم کے اعتماد سے محروم کر دیا جائے۔ اس لیے اگر موجودہ صورتحال اسی طرح قائم رہی تو کشمیر رہا ایک طرف، بھارت کی متوقع جارحیت کے مقابلہ میں خود پاکستان کا دفاع کرنا پاک فوج کے لیے خدانخواستہ مشکل ہو جائے گا اور شاید متوقع پاک بھارت جنگ سے پہلے حالات کو اس نہج پر لانے کے لیے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کام ہو رہا ہے۔

ان تاثرات و احساسات اور مختلف طبقوں کے ذہنی رجحانات سے مجموعی طور پر جو خیال ذہن میں ابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ بلاشبہ قومی زندگی کے اخراجات کو باوقار طریقہ سے چلانے کے لیے ٹیکس بہت ضروری ہے جس میں ضرورت کے مطابق اضافہ ہونا چاہیے اور تاجر برادری بلکہ کسی بھی طبقہ کے افراد کو اپنے حصہ کے جائز ٹیکس کی ادائیگی سے نہیں ہچکچانا چاہیے کیونکہ ملک کا نظام اسی طرح مل جل کر چلایا جا سکتا ہے اور قومی ترقی کا کوئی بھی کام اس کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ ٹیکس وصولی کے نظام کو درست کیا جائے:

  • ٹیکسوں میں اضافہ اور ان کی وصولی کے لیے یک لخت تمام تبدیلیوں کو لاگو کرنے کی بجائے بتدریج نفاذ کا طریق کار اختیار کیا جائے،
  • ٹیکس وصول کرنے والے اداروں کی رپورٹوں کی بنیاد پر تاجر کو جھوٹا سمجھنے کی پالیسی ترک کی جائے اور تاجروں کو اعتماد میں لے کر ان کی مشاورت کے ساتھ ٹیکس وصولی کا نیا طریق کار اور ترجیحات طے کی جائیں،
  • ٹیکس وصولی بلکہ کسی بھی سول شعبہ میں فوجی جوانوں کو ًشریک کار کرنے سے حتی الوسع گریز کیا جائے اور فوج اور عوام کے درمیان بے اعتمادی کی فضا کو آگے بڑھنے سے روکا جائے،
  • بیرونی قرضوں کے شکنجے سے قوم کی گردن کو چھڑانے کے لیے مضبوط حکمت عملی اپنائی جائے،
  • ہم سمجھتے ہیں کہ جو پالیسی مجموعی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے ’’اجتماعی پیکج‘‘ کے طور پر طے کی جائے گی اس کی افادیت و ضرورت سے کوئی انکار نہیں کر سکے گا اور وہ موثر و دیرپا بھی ہوگی۔ مگر باقی تمام معاملات کو نظر انداز کر کے صرف ایک ضرورت (قسطوں کی ادائیگی) کی بنیاد پر کوئی پالیسی طے کی گئی تو اسے کسی صورت میں قومی اعتماد حاصل نہیں ہوگا اور نہ ہی اس سے ملک کے حالات میں کوئی مثبت تبدیلی رونما ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔
   
2016ء سے
Flag Counter