وطن عزیز کافی عرصہ سے احتساب کے شور و غل کا شکار ہے۔ سیاسی اور عوامی حلقوں کی طرف سے بدعنوانی اور رشوت خوروں کے کڑے احتساب کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، مختلف سرکاری محکموں میں کروڑوں روپے کے گھپلوں کے انکشافات ہو رہے ہیں، بڑے بڑے سرکاری حکام اور سیاستدانوں کے چہرے اس حوالے سے بے نقاب ہو رہے ہیں اور قومی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے والوں کی فہرستیں منظر عام پر آ رہی ہیں۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود احتساب میں عملاً کوئی پیشرفت نظر نہیں آتی اور کولہو کے بیل کی طرح احتساب کا شور و غل بھی اخبارات کی بڑی بڑی سرخیوں اور عام مجلسوں کے بحث و مباحثوں کے گرد ہی گھومتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس سلسلہ میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی تاریخ میں ہونے والے قومی سطح کے احتساب کا ذکر تازہ کیا جائے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ احتساب کے حوالے سے اسلامی روایات کیا ہیں۔
حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا تعلق بنو امیہ کے حکمران خاندان سے تھا اور امیر المومنین بننے سے پہلے مدینہ منورہ کے گورنر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے چکے تھے۔ شاہی خاندان کے افراد اور سرکاری عمّال و حکّام پر قومی خزانے کے دروازے کھلے تھے اور ہر شخص اپنی حیثیت اور ہمت کے مطابق اس سے ’’استفادہ‘‘ کر رہا تھا۔ تاریخی روایات کے مطابق جس وقت حضرت عمر بن عبد العزیزؒ خلیفہ بنے، قومی خزانے کا دو تہائی حصہ شاہی خاندان اور سرکاری حکام کی جیبوں میں جا چکا تھا۔ خود حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا حال یہ تھا کہ خیبر کا مشہور باغِ فدک، جو بیت المال کی ملکیت تھا اور جس پر خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ نے سیدہ حضرت فاطمہؓ کا حقِ ملکیت بھی تسلیم نہیں کیا تھا، اب وہ باغ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے ذاتی تصرف اور قبضے میں تھا۔ اور شاہزادگی کا عالم یہ تھا کہ اعلیٰ سے اعلیٰ لباس پہنتے تھے، اور جو لباس صبح پہنتے شام کو جسم پر نظر نہیں آتا تھا، اور ایک دفعہ جو لباس پہن لیتے دوسری بار اسے بدن کے ساتھ لگنے کی سعادت حاصل نہیں ہوتی تھی۔ حتیٰ کہ بعض روایات کے مطابق دمشق سے مدینہ منورہ جاتے ہوئے ان کا ذاتی سامان ۱۰۰ اونٹوں پر لدا ہوتا تھا۔
لیکن جب امیر المومنین کی حیثیت سے ان کے ہاتھ پر بیعت ہوئی اور خلافت کا بار کندھوں پر پڑا تو ایک قریبی دوست نے پرانا خواب یاد دلا دیا۔ خواب بھی اسی دوست نے دیکھا تھا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں، ان کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ بیٹھے ہیں، سامنے حضرت عمر بن عبد العزیزؒ موجود ہیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی طرف مخاطب ہو کر فرما رہے ہیں کہ ’’اذا امرت فاعمل مثل ھٰذین‘‘ جب تجھے امیر بنایا جائے تو ان دو شخصوں کی طرح کام کرنا۔ امیر المومنین بنتے ہی جناب رسول اللہؐ کا پیغام یاد آیا تو حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے نقشِ قدم پر چلنے کا فیصلہ کر لیا۔
ان کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ قومی خزانے کی واپسی کا تھا جس کا کم و بیش دو تہائی حصہ شاہی خاندان کے افراد اور سرکاری حکام کے ذاتی تصرف اور قبضے میں تھا:
- حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے سب سے پہلے باغِ فدک بیت المال کو واپس کیا۔
- پھر اہلیہ محترمہ فاطمہ بنت عبد الملکؒ کے گلے سے قیمتی ہار اتروایا جس میں یاقوت جَڑا ہوا تھا، اور جس کے بارے میں عمر بن عبد العزیزؒ کا موقف یہ تھا کہ فاطمہؒ کے والد اور اپنے وقت کے خلیفہ عبد الملک بن مروانؒ نے یہ موتی بیت المال سے نکلوایا تھا۔
- اس کے بعد حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے شاہی خاندان کا اجتماع کر کے ان سے بیت المال کی رقوم اور اشیا کی واپسی کا مطالبہ کیا،
- اور پھر سرکاری حکام سے قومی خزانے کی لوٹی ہوئی دولت واپس لی۔
تاریخی روایات کے مطابق اس سارے عمل پر چھ ماہ سے زیادہ وقت نہیں لگا اور نصف برس میں امیر المومنین مرکزی بیت المال اور قومی خزانے کو اس کی لوٹی ہوئی دولت واپس دلانے میں کامیاب ہو گئے، لیکن اس کے لیے انہیں ’’عمر‘‘ بننا پڑا۔
اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ روایتی شہزادوں کی طرح نفاست و نزاکت کی زندگی بسر کرنے والے عمر بن عبد العزیزؒ امیر المومنین کی حیثیت سے ایک روز اپنے گھر میں داخل ہوئے تو اہلیہ محترمہ سے فرمایا کہ اللہ کی بندی! اگر تمہارے پاس ایک درہم ہو تو مجھے دے دو، راستہ سے گزرتے ہوئے ایک دکاندار کے پاس انگوروں کی ٹوکری دیکھی ہے اور انگور کھانے کو جی چاہتا ہے۔ مگر امیر المومنین کی اہلیہ کے پاس حسرت بھرے انکار کے سوا کوئی جواب نہ تھا۔
اور یہ منظر بھی چشمِ فلک نے دیکھا کہ امیر المومنین بیمار ہیں اور ان کے برادر نسبتی مسلم بن عبد الملکؒ عیادت کے لیے آئے ہیں، اپنے بہنوئی کی بیمار پرسی کر کے گھر کے اندر بہن کے پاس گئے اور اس سے ناراض ہوئے کہ امیر المومنین کا کرتا بہت میلا ہے، تمہیں اتنی سستی نہیں کرنی چاہیے تھی اور ان کا کرتا اتروا کر دھو دینا چاہیے تھا۔ اس پر وسیع و عریض اسلامی سلطنت کی ’’خاتونِ اول‘‘ کا جواب یہ تھا کہ میرے بھائی! امیر المومنین کے پاس دوسرا کرتا موجود نہیں ہے جو انہیں پہنا کر میں ان کا یہ کرتا دھو سکوں۔
ہم قومی احتساب کے بلند بانگ نعرے لگانے والوں سے یہ گزارش کریں گے کہ بے لاگ احتساب ناممکن نہیں ہے، قومی خزانے کو اس کی لوٹی ہوئی دولت واپس دلائی جا سکتی ہے، اور کرپشن اور بدعنوانی کا خاتمہ بھی ہو سکتا ہے، لیکن اس کے لیے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے نقشِ قدم پر چلنا پڑے گا اور عمر بن عبد العزیزؒ بن کر دکھانا پڑے گا، اور ایک شاعر کے بقول