(مرکزِ مطالعہ خلافتِ راشدہ کے زیر اہتمام ہفتہ وار درس)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ یہ آواز تو کافی عرصے سے لگ رہی ہے، اب ذرا عالمی سطح پر بلند ہوئی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے نسبت رکھنے والے مذہب اکٹھے ہو جائیں، یہ بڑی پرانی آواز ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی حیاتِ مبارکہ میں جزیرۃ العرب میں جن مذاہب سے واسطہ تھا وہ سب ابراہیمی کہلاتے تھے۔ مشرکینِ مکہ اور مشرکینِ عرب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد تھے، وہ بھی ابراہیمی کہلاتے تھے۔ یہودی بھی ابراہیمی کہلاتے تھے، عیسائی بھی ابراہیمی کہلاتے تھے، اور مسلمان تو ابراہیمی تھے ہی۔
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں دو مقام پر دو ٹوک بات کی ہے: ایک جگہ فرمایا ’’ماکان ابراہیم یہودیاً ولا نصرانیاً ولکن کان حنیفاً مسلماً وما کان من المشرکین‘‘ (اٰل عمران ۶۷) ابراہیم علیہ السلام نہ یہودی تھے نہ عیسائی تھے نہ مشرکین میں سے تھے، وہ موحد مسلمان تھے۔ دوسرے مقام پر یہ فرمایا کہ یہ ابراہیمی کون ہیں؟ ’’ان اولی الناس بابراہیم للذین اتبعوہ وہذا النبی والذین اٰمنوا‘‘ (اٰل عمران ۶۸) ابراہیمی وہ ہیں جو ابراہیم علیہ السلام میں ان کے پیروکار تھے، اور یہ پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت۔ قرآن کریم نے بڑی صراحت کے ساتھ بتایا کہ وہ ابراہیمی نہیں ہیں، یہ ابراہیمی ہیں۔
اور قرآن مجید نے ایک سوال بھی کیا کہ دیکھو، یہودی شروع ہوئے تھے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے، عیسائی شروع ہوئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے، مشرکین وہ ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے مشرک ہو گئے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام ان سب سے پہلے گزرے تھے، ان کو یہودی کیسے بنا لیا تم لوگوں نے؟ موسیٰ علیہ السلام اور تورات ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور انجیل، یہ بعد میں آئے ہیں۔ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں سال کا فاصلہ ہے، یہ پہلے کے لوگوں کو یہودی اور عیسائی کیسے بنا دیا تم لوگوں نے؟ چنانچہ قرآن مجید نے واضح کیا کہ ابراہیمی صرف محمد رسول اللہ اور ان کی امت ہے، ان کے علاوہ کوئی ابراہیمی نہیں ہے۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان ’’ابراہیمیوں‘‘ کی طرف سے مختلف مواقع پر پیشکشیں ہوئی ہیں، وہی جو آج بھی کی جا رہی ہے۔ حضورؐ کو اپنی حیاتِ مبارکہ میں جو پیشکشیں ہوئی ہیں ان میں سے تین چار کا ذکر کرنا چاہتا تھا ۔
ایک پیشکش یہ ہوئی کہ ’’ودوا لو تدہن فیدہنون‘‘ (القلم ۹) تھوڑی سی آپ اپنے عقیدے میں لچک پیدا کر لیں، تھوڑی سی لچک یہ پیدا کر لیں گے۔ سیرت میں کتابوں میں آتا ہے کہ جناب ابو طالب کی وفات سے کچھ دن پہلے قریش کے سرداروں نے یہ محسوس کیا کہ جناب ابو طالب کی موجودگی میں اگر کوئی آپس میں مصالحت ہو گئی تو ہو جائے گی، بعد میں نہیں ہوگی، تو وہ اکٹھے ہو کر جناب ابو طالب کے پاس آئے کہ اپنے بھتیجے سے ہماری بات کروائیں۔ انہوں نے حضورؐ کو بلا لیا۔ مذاکرات میں دو فارمولے تھے اور تین پیشکشیں تھیں۔
فارمولے یہ تھے کہ جناب آپ اپنی توحید کی بات کریں اور اللہ کی صفات بیان کریں لیکن ہمارے بتوں کو کچھ نہ کہیں، ان کی نفی نہ کریں کہ یہ کچھ نہیں کر سکتے، ہم آپ کے ساتھ ہیں، ہمارا کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ آپ اللہ کی عبادت کریں اور حرم میں کریں ہم نہیں روکتے، لیکن ہم اپنے بت خانوں میں جو کرتے ہیں وہ ہمیں کرنے دیں، کبھی ہم آپ کے پاس آ جایا کریں گے، کبھی آپ بھی ہمارے پاس آجایا کریں۔ یہ دو فارمولے تھے ’’بین المذاہب ہم آہنگی‘‘ کے۔
جبکہ پیشکشیں تین تھیں کہ اگر یہ آپ کو فارمولا قبول کر لیں تین باتوں میں سے ایک کا انتخاب کر لیں۔ (۱) بتائیں کتنے پیسے چاہئیں، ہم اکٹھے کر دیتے ہیں۔ (۲) نشاندہی کریں کہ عرب کی کون سی خاتون سے شادی کرنی ہے، ہم کروائیں گے ۔ (۳) آپ فرمائش کریں، ہم آپ کو علاقے کا سردار بنا دیتے ہیں۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا جواب دیا؟ وہ مشہور جواب اسی موقع کا ہے کہ میرے دائیں ہاتھ پہ سورج اور بائیں ہاتھ پہ چاند رکھ دو تب بھی میں یہ بات ماننے کو تیار نہیں۔ اور قرآن مجید نے بھی اس کا دو مقامات پر ذکر کیا ہے۔ ایک یہ کہ ’’ودوا لو تدہن فیدہنون، ولا تطع کل حلاف مہین‘‘ (القلم ۹، ۱۰) اور دوسرا ’’قل یا ایہا الکافرون، لا اعبد ما تعبدون‘‘ میں تمہارے بت خانے میں عبادت کے لیے نہیں آؤں گا، تم سے ایک اللہ کی عبادت نہیں ہو گی ’’لکم دینکم ولی دین‘‘ تم اپنے گھر، میں اپنے گھر۔
یہ ’’بین المذاہب ہم آہنگی‘‘ تھی اور اس کی حضورؐ کو پیشکش ہوئی تھی۔ قرآن کریم نے مشرکینِ مکہ کی طرف سے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک پیشکش کا اور ذکر کیا ہے۔ فرمایا ’’واذا تتلیٰ علیہم اٰیاتنا بینات قال الذین لا یرجون لقائنا ائت بقرآن غیر ہذا او بدلہ‘‘ آپ جو قرآن کریم پڑھ کر سناتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ٹھیک ہیں مان لیں گے لیکن یہ قرآن نہیں، یا تو متبادل لے کر آئیں یا اس میں ردوبدل کر لیں۔ اللہ پاک نے اس کا جواب بھی قرآن مجید میں دلوایا ’’ما یکون لی ان ابدلہ من تلقاءِ نفسی ان اتبع الا ما یوحیٰ الی‘‘ (یونس ۱۵) آپ فرما دیجیے کہ مجھے قرآن میں ردوبدل کا سرے سے کوئی اختیار ہی نہیں ہے، میں تو وحی کا پابند ہوں۔
پھر ایک موقع آیا کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مختلف قبائل کے پاس گئے۔ انہی مذاکرات کے نتیجے میں انصارِ مدینہ آئے تھے اور بیعت کی تھی۔ اس زمانے میں ایک بڑا قبیلہ تھا جس کا ایک سردار تھا عامر بن طفیل، عرب کے بڑے سرداروں میں سے تھا۔ اس نے حضور کے ساتھ مذاکرات کی فضا میں یہ پیشکش بھجوائی کہ ٹھیک ہے ہم آپ کا ساتھ دینے کو تیار ہیں، دو شرطوں میں سے ایک شرط مان لیں۔ (۱) یا تو تقسیم کر لیں کہ میدانی علاقے آپ کے، شہری علاقے ہمارے۔ (۲) یا پھر اپنے بعد مجھے اپنا خلیفہ نامزد کر دیں۔ ورنہ تیار ہو جائیں میں بنو غطفان کے بندے اکٹھے کروں گا اور آپ سے لڑوں گا۔ اس کو تو اللہ پاک نے اسی سفر میں سنبھال لیا راستے میں ایک جگہ ٹھہرا، طاعون کا پھوڑا نکلا، وہیں ہلاک ہو گیا۔ بہرحال پیشکش یہ تھی کہ یا علاقہ تقسیم کر لو یا خلافت دے دو تو میں آپ کے ساتھ ہوں۔
یہی پیشکش مسیلمہ کذاب نے کی تھی، بنو حنیفہ کا بہت بڑا اور جنگجو قبیلہ تھا۔ پہلا لشکر جو مسیلمہ کا مقابلے پر آیا تھا وہ اَسی ہزار کا بتایا جاتا تھا۔ اس نے نبوت کا دعویٰ کر دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خود آیا مدینہ منورہ میں حضور سے اس ملاقات ہوئی۔ پھر ایک دفعہ وفد اور خط بھیجا۔ اس کا کہنا بھی یہی تھا، اس کے خط کا مضمون بخاری شریف میں موجود ہے۔ ’’اشرکت معک فی الامر ولکن قریشاً قوم یعتدون‘‘ کہ مجھے آپ کے ساتھ شراکت دار بنایا گیا ہے لیکن یہ قریشی مانتے نہیں ہیں۔ وہ مقابلے کا نبی نہیں بنا تھا، اس نے شراکت کا دعویٰ کیا تھا۔ اس نے وہی عامر بن طفیل والی پیشکش کی کہ (۱) شہری نبی آپ، دیہاتی نبی میں، (۲) یا پھر اپنے بعد مجھے خلیفہ نامزد کر دیں تو میں آپ کے ساتھ ہوں۔ حضورؐ نے مسترد فرما دی۔
میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ پیشکشیں حضورؐ کو بھی ہوئی تھیں، سیاسی بھی ہوئی تھیں، اعتقادی بھی ہوئی تھیں، احکام کی بھی ہوئی تھیں۔ ایک پیشکش کا اور ذکر کر دیتا ہوں۔ مکہ مکرمہ فتح ہونے کے بعد جب طائف کا محاصرہ کامیاب نہیں ہو سکا اور حضورؐ واپس آ گئے تو طائف کے بنو ثقیف وفد لے کر حضورؐ کے پاس آئے۔ کہا کہ ٹھیک ہے ہم کلمہ پڑھنا چاہتے ہیں لیکن ہماری شرطیں ہیں۔ آپ کہتے ہیں شراب حرام ہے، ہمارا علاقہ انگوروں کا ہے، شراب ہی بنتی ہے اس سے، ہم شراب نہیں چھوڑیں گے۔ آپ کہتے ہیں سود حرام ہے، ہمارا سارا کاروبار سود پر ہے، یہ بھی نہیں چھوڑیں گے۔ آپ کہتے ہیں پانچ وقت کی نماز فرض ہے، ٹھیک ہے لیکن اوقات ہم خود طے کریں گے۔ آپ کہتے ہیں زنا حرام ہے، ہمارے ہاں شادیاں دیر سے کرنے کا رواج ہے، گزارا نہیں ہوتا اس لیے یہ بھی نہیں چھوڑیں گے۔ اور آپ ہمارا بت ’’لات‘‘ نہیں گرائیں گے۔ میں اس کا ترجمہ اس طرح کیا کرتا ہوں کہ انہوں نے کہا کہ یہ پانچ کام تو ہم نہیں کریں گے، اگر کلمے میں کچھ اور باقی رہ گیا ہو تو ہمیں پڑھا دیں۔ حضورؐ نے مسترد فرما دیں۔
تین دائروں کی پیشکشیں ہیں۔ سیاسی دائرے کی، جب مکے والوں نے سردار بنانے کی پیشکش کی تھی۔ عامر بن طفیل نے پورے صحرائی علاقوں کا حکمران ماننے کی پیشکش کی تھی۔ مسیلمہ کذاب نے شہری علاقوں کا حاکم ماننے کی پیشکش کی تھی۔ مکے والوں نے ایک دوسرے کے پاس آ جا کر عبادت میں شریک ہونے کی پیشکش کی تھی۔ اور بنو ثقیف نے احکام میں ردوبدل کرنے کی پیشکش کی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کوئی پیشکش قبول نہیں فرمائی اور صاف اعلان فرما دیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اعلان کروایا
’’قل یا ایہا الکافرون۔ لا اعبد ما تعبدون۔ ولا انتم عابدون ما اعبد۔ ولا انا عابد ما عبدتم۔ ولا انتم عابدون ما اعبد۔ لکم دینکم ولی دین۔‘‘
فرمایا کوئی سودے بازی نہیں، کوئی سمجھوتہ نہیں، کوئی اتحاد نہیں۔ میں یہ گزارش کی ہے کہ آج بھی ہمیں یہی پیشکش ہو رہی ہے جو عالمی سطح پر ہے اور امریکی صدر ٹرمپ صاحب کی طرف سے ہے۔ ہمارا جواب بھی وہی ہے جو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا۔ اللہ رب العزت ہمارے حکمرانوں کو ہدایت دیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر اور حضورؐ کے طریقے پر ہم سب کو قائم رکھیں ، وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔