سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے گزشتہ دنوں ایک ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ عراق پر حملہ کے موقع پر وہاں ناجائز کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کی رپورٹ غلط تھی اور انہیں عراق پر حملہ کے نتیجے میں داعش کے منظم ہو جانے کا اندازہ نہیں تھا۔ اس لیے وہ اس پر معذرت خواہ ہیں۔ ٹونی بلیئر عراق پر امریکی اتحاد کے حملہ کے قائدین میں سے تھے اور انہوں نے سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اور نائب صدر ڈک چینی کا ساتھ دے کر نہ صرف اس حملہ میں برطانوی فوجوں کو شریک کیا تھا بلکہ وہ اس کا جواز پیش کرنے اور اس کو ضروری قرار دینے کی عالمی سطح پر وکالت بھی کر رہے تھے۔ عراق پر ناجائز کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری اور ان کا ذخیرہ کرنے کا الزام تھا جس کی عراق کے صدر صدام حسین بار بار تردید کر رہے تھے۔ بلکہ عراق کی حدود میں ایسے ہتھیاروں کی موجودگی کا سراغ لگانے والے بھی اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے تھے مگر بش، ڈک چینی اور ٹونی بلیئر نے پوری دنیا میں آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔ اور جب عراق کی اینٹ سے اینٹ بجانے، دس لاکھ سے زیادہ انسانوں کے قتل عام، اور وہاں اپنی مرضی کی حکومت مسلط کر کے مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے بعد بھی کچھ نہیں ملا تو اب اسے رپورٹ کی غلطی قرار دے کر اور ’’سوری‘‘ کہہ کر معاملہ کو رفع دفع کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ٹونی بلیئر کی اس معافی پر مجھے دو تین اور معافیاں یاد آرہی ہیں۔ معروف سائنس دان گلیلیو کے ساتھ چرچ نے جو سلوک کیا تھا اس پر صدیوں کے بعد سابق پاپائے روم پوپ بینی ڈکٹ نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ ہمیں اس غلطی کا اعتراف ہے۔ جبکہ گزشتہ صدی کے دوران لیبیا پر اٹلی کے استعماری قبضہ کے دوران وہاں کے عوام پر کیے جانے والے مظالم پر اٹلی کے وزیر اعظم نے چند سال قبل لیبیا کے دورہ کے موقع پر اسی طرح کا ’’سوری‘‘ کہا تھا۔ اور سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے اگرچہ ’’سوری‘‘ کا لفظ کہنے کی زحمت نہیں فرمائی مگر یہ اعتراف کیا تھا کہ افغان جہاد کے بعد روسی فوجوں کے واپس چلے جانے پر افغان مجاہدین کے مختلف گروپوں کو کوئی باہمی نظم طے کرائے بغیر اسی طرح کھلا چھوڑ دینا ہماری غلطی تھی۔
ٹونی بلیئر کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ عراق پر حملے کے نتیجے میں ’’داعش‘‘ جیسی شدت پسند قوت ابھر آئے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر داعش منظم نہ ہوتی اور پورے مشرق وسطیٰ میں سب بالادست قوتوں کے لیے چیلنج نہ بن جاتی تو عراق پر حملہ درست تھا اور ممنوعہ ہتھیاروں کی موجودگی یا غیر موجودگی کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ لیکن چونکہ نتائج توقع کے خلاف سامنے آئے ہیں اس لیے عراق پر حملہ کو غلطی کہنا اب مجبوری بنتا جا رہا ہے۔ ہمارے خیال میں ہیلری کلنٹن کے اعتراف کا پس منظر بھی اسی طرح کا ہے کہ افغانستان سے روسی افواج کی واپسی کے بعد افغان مجاہدین کے گروپوں کو آزاد چھوڑ دینا اور ان کے مستقبل کا کوئی نظم اور ایجنڈا طے کیے بغیر ان سے لا تعلق ہو جانا اصلاً تو اس لیے تھا کہ یہ آپس میں لڑتے رہیں اور خطے میں ہماری چودھراہٹ اور بالادستی قائم رہے۔ مگر اس بات کی توقع نہیں کی جا رہی تھی کہ درمیان میں ’’طالبان‘‘ اٹھ کھڑے ہوں گے جو سارا مزہ کرکرا کر دیں گے اور بجائے لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ اس لیے اب یہ احساس ابھر رہا ہے کہ انہیں اس طرح کھلا چھوڑ دینا غلطی تھی۔ ہیلری کلنٹن کے اعتراف اور ٹونی بلیئر کی ’’سوری‘‘ دونوں کے پیچھے یہی نفسیات کارفرما ہے کہ چونکہ نتائج توقع کے خلاف سامنے آئے ہیں اس لیے اپنے اقدامات کو ’’غلطی‘‘ تسلیم کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مگر کیا صرف غلطی کا اعتراف یا سوری کہہ دینا کافی ہے، اور کیا ایسا کرنے والوں پر اپنی غلطیوں کے نقصانات کی تلافی کے حوالہ سے کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی؟ مغربی معاشرہ میں ’’تھینکس‘‘ اور ’’سوری‘‘ کی روایت ایک اچھی بات سمجھی جاتی ہے مگر اس حوالہ سے دو باتیں میرے ذہن میں اکثر گھومتی رہتی ہیں جن کا بسا اوقات اظہار بھی کرتا ہوں۔ ایک یہ کہ آپس میں ایک دوسرے کو ’’تھینکس‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور ’’سوری‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور اسے تہذیب کی علامت سمجھا جاتا ہے، مگر اپنے مالک و خالق رب العالمین کو تھینکس اور سوری کہنے کا تصور ہی مغربی معاشرہ میں ناپید ہوگیا ہے جو اس سوسائٹی کا اصل المیہ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کسی کا بڑے سے بڑا نقصان کرنے کے بعد بھی محض ’’سوری‘‘ کہہ کر معاملہ نمٹا دیا جاتا ہے جس کے نقصان کا سارا بوجھ اسی غریب کے کھاتے میں پڑ جاتا ہے، جبکہ آسمانی تعلیمات اس سے مختلف بات کرتی ہیں۔ بائبل میں توبہ اور معافی کو ’’لوٹ آنے‘‘ اور ’’رجوع کرنے‘‘ کے مفہوم میں بیان کیا گیا ہے۔ یعنی غلطی کے اعتراف کے ساتھ اپنے طرز عمل پر نظر ثانی بھی اس کا حصہ ہے۔ جبکہ قرآن کریم نے اسے زیادہ وسیع انداز میں بیان کیا ہے۔ بنی اسرائیل کے اس رویے کا ذکر کرتے ہوئے کہ وہ تورات کے بہت سے احکام کو چھپا لیتے ہیں اور بیان نہیں کرتے، قرآن کریم نے کہا ہے کہ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لعنت کے مستحق ہیں مگر جو لوگ توبہ کر لیں وہ اس سے مستثنیٰ ہیں۔ جبکہ توبہ کے لیے سورۃ البقرہ کی آیت ۱۶۰ میں تین لفظ استعمال کیے گئے ہیں تابوا واصلحوا و بینوا (۱) اپنے طرز عمل سے توبہ کر لیں (۲) اپنے رویے کی اصلاح کر لیں (۳) گزشتہ غلطی کی تلافی کرتے ہوئے چھپائے ہوئے احکام کو بیان کرنا شروع کر دیں۔
اس لیے جب تک ٹونی بلیئر اور ہیلری کلنٹن غلطی کے اعتراف کے بعد اس غلطی کے نقصانات کی تلافی اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کا راستہ نہیں کرتے ان کے ایسے بیانات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔