۱۹ فروری جمعرات کو مجلس صوت الاسلام کراچی کے خطباء کورس کی ہفتہ وار کلاس کے لیے مجلس کے اسلام آباد مرکز میں پہنچا اور آن لائن کلاس کے شرکاء کو صلیبی جنگوں کے پس منظر اور دیگر ضروری تفصیلات سے ایک لیکچر کی صورت میں آگاہ کیا۔ اس موقع پر پتہ چلا کہ شام کو جامعہ خالد بن ولیدؓ گولڑہ موڑ اسلام آباد کا سالانہ جلسہ دستار بندی ہے۔ جامعہ کے منتظم مولانا فضل الرحمن خلیل اور مولانا محمد فاروق کشمیری سے بہت پرانا دوستانہ تعلق ہے۔ میں شام کو فارغ ہی تھا اس لیے مولانا جمیل الرحمن فاروقی اور مولانا محمد جاوید کے ہمراہ اچانک وہاں جا دھمکا۔ بے تکلف دوستوں کے ہاں اچانک چھاپہ مارنے میں مجھے لطف آتا ہے اور دوست بھی بہت خوش ہوتے ہیں۔ جلسہ کے اسٹیج پر مولانا فضل محمد یوسف زئی اور مولانا عزیز الرحمن ہزاروی کی ملاقات نے اس لطف کو دوبالا کر دیا۔ جامعہ خالد بن ولیدؓ سے قرآن کریم حفظ کرنے والے اکتالیس حفاظ کی دستار بندی تھی، اس میں شرکت کی سعادت حاصل کی اور کچھ معروضات بھی پیش کیں جن کا خلاصہ درج ذیل ہے:
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج جامعہ خالد بن ولیدؓ اسلام آباد سے قرآن کریم حفظ کرنے والے اکتالیس حفاظ کی دستار بندی ہے، ان طلبہ کو اور ان کے والدین، اساتذہ اور جامعہ کے منتظمین و معاونین کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے قرآن کریم کی تعلیم اور دینی مدارس کے حوالہ سے عام طور پر پائے جانے والے دو مغالطوں پر تھوڑی سی گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔
قرآن کریم کی تعلیم و تدریس اور حفظ و تلاوت کا سلسلہ دنیا بھر میں تمام تر مخالفتوں اور رکاوٹوں کے باوجود دن بدن وسیع ہوتا جا رہا ہے اور اس کے دائرے کو سمیٹنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو رہی، جو بلاشبہ قرآن کریم کا اعجاز ہے۔ لیکن اس سے عالمی استعماری حلقے اس مغالطہ کا شکار ہوگئے ہیں کہ قرآن کریم کی تعلیم و تدریس اور قراءت و تلاوت کا یہ سلسلہ دینی مدارس کی وجہ سے باقی ہے۔ اس لیے وہ دینی مدارس کے پیچھے پڑ گئے ہیں اور دینی مدارس کا کردار محدود کرنے اور انہیں غیر مؤثر بنانے کے لیے عجیب و غریب قسم کے حربے استعمال کرنے لگ گئے ہیں۔ یہ بات بظاہر ان کی سمجھ میں آنے والی نہیں ہے لیکن میں ان سے یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ اس مغالطہ کو جتنی جلدی ہو سکے دور کر لو کہ قرآن کریم دینی مدارس کی وجہ سے باقی ہے۔ اس لیے کہ قرآن کریم دینی مدارس کی وجہ سے نہیں بلکہ دینی مدارس قرآن کریم کی وجہ سے باقی ہیں۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جس کی حفاظت کا خود اللہ تعالیٰ نے اعلان کر رکھا ہے۔ وہ تو قیامت تک باقی رہے گا، اور جب تک وہ باقی رہے گا اس کی تعلیم و تدریس کا انتظام کرنے والے مدارس بھی باقی رہیں گے۔ اس لیے ان مدارس کے بارے میں حالات کتنے ہی ناموافق کیوں نہ ہو جائیں مجھے بحمد اللہ تعالیٰ کوئی پریشانی نہیں ہوتی اور ہمیشہ کی طرح آج بھی پوری طرح مطمئن ہوں کہ دینی مدارس کا یہ کردار بہرحال جاری رہے گا اور کوئی سازش یا کوشش انہیں اس سعی و محنت سے محروم نہیں کر سکتی۔
اسی طرح ہم بھی بسا اوقات اس مغالطہ کا شکار ہو جاتے ہیں کہ ہم قرآن کریم کی حفاظت کر رہے ہیں۔ میرے نزدیک یہ بھی مغالطہ ہے، ہم قرآن کریم کے محافظ نہیں ہیں بلکہ قرآن کریم ہمارا محافظ ہے اور ہم اس کی حفاظت کرنے کی بجائے اس کے ساتھ وابستہ ہو کر اپنی حفاظت کا اہتمام کر رہے ہیں، اور دنیا و آخرت میں اس کی برکات سے بہرہ ور ہونے کا سامان کر رہے ہیں۔
دوسری بات یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دینی مدارس میں بنیادی طور پر قرآن کریم کی تعلیم دی جاتی ہے اور اس کے بارے میں عام طور پر کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ قدیم تعلیم ہے۔ اور پھر عصری تعلیم کو جدید تعلیم کہہ کر قدیم و جدید تعلیم کی تقسیم کر دی جاتی ہے۔ مجھے اس میں اشکال ہے۔ قدیم و حادث کی بحث میں بھی میرا ایمان یہ ہے کہ قرآن کریم حادث نہیں بلکہ قدیم ہے ۔ لیکن قدیم و جدید کی تقسیم میں قرآن کریم کو قدیم کہنا میری طالب علمانہ رائے میں درست نہیں، اس لیے کہ قرآن کریم کا زمانہ قیامت تک کا ہے۔ وہ ماضی کی طرح حال اور مستقبل میں بھی اپنا وہی کردار رکھتا ہے جس کے لیے چودہ سو برس قبل اس کا نزول ہوا تھا۔ توراۃ و انجیل کو ہم ماضی کی کتابیں کہہ سکتے ہیں، اس لیے کہ ان کا دور گزر چکا ہے، مگر قرآن کریم صرف ماضی کی کتاب نہیں ہے بلکہ حال اور مستقبل کی کتاب بھی ہے۔ جبکہ دنیا کی آج کی دانش بھی قرآن کریم کو نسل انسانی کے مستقبل کی ضروریات میں شمار کرنے پر مجبور ہوگئی ہے، جو کہ قرآن کریم کے اعجاز کا ایک نمایاں پہلو ہے۔ پاپائے روم کی معاشی نظام کے لیے قائم کردہ کمیٹی کہہ چکی ہے کہ ہمیں دنیا کے معاشی نظام کو صحیح رخ پر لانے کے لیے قرآن کریم کے بیان کردہ معاشی اصولوں کو اپنانا ہوگا۔ اور برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس نے بین الاقوامی فورم پر واضح الفاظ میں اظہار کیا ہے کہ قرآن کریم کے معاشرتی احکام و قوانین کی طرف رجوع نسل انسانی کے لیے ضروری ہوگیا ہے۔ چنانچہ یہ بات صرف ہماری نہیں رہی کہ قرآن کریم نسل انسانی کی مستقبل کی بھی ضرورت ہے بلکہ آج کی عالمی دانش بھی اس ضرورت کو محسوس کر رہی ہے۔ اس لیے میں یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ قرآن و سنت کی تعلیم کو جدید کے مقابلے میں قدیم کہنا صحیح نہیں ہے، یہ حال اور مستقبل کی تعلیم بھی ہے۔ اور جب تک قرآن کریم کا دور باقی ہے اس کو اس معنیٰ میں قدیم نہیں کہا جا سکتا۔
قرآن کریم کے بارے میں عام طور پر پائے جانے والے ان دو مغالطوں پر اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کے ساتھ میں آج دستار بندی کا شرف حاصل کرنے والے حفاظ کو ایک بار پھر مبارک باد دیتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں قرآن کریم کا علم اور اس پر عمل نصیب فرمائیں اور دارین میں اس کی برکات سے بہرہ ور فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔