(۲۱ جنوری ۲۰۰۳ء کو ہمدرد سنٹر لٹن روڈ لاہور میں ’’مجلس فکر و نظر‘‘ کے زیر اہتمام ’’پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات‘‘ کے موضوع پر ایک سیمینار منعقد ہوا جس کی صدارت ’’الشریعہ‘‘ کے رئیس التحریر مولانا زاہد الراشدی نے کی۔ سیمینار میں جسٹس (ر) عبد الحفیظ چیمہ، حکیم محمود احمد سرو سہارنپوری، ڈاکٹر مغیث الدین شیخ، پروفیسر عبد الجبار شاکر، ڈاکٹر محمود الحسن عارف، جناب کے ایم اعظم اور پروفیسر ڈاکٹر محمدامین نے مختلف متعلقہ عنوانات پر مقالات پیش کیے اور متحدہ مجلس عمل کے مرکزی راہنما حافظ حسین احمد ایم این اے اور صوبہ سرحد کے راہنما پروفیسر محمد ابراہیم نے مہمانان خصوصی کی حیثیت سے نفاذ اسلام کے لیے متحدہ مجلس عمل کی پالیسی اور پروگرام نیز اس حوالہ سے صوبہ سرحد اور بلوچستان کی تازہ ترین صورت حال پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ اس موقع پر مولانا زاہد الراشدی کی طرف سے پیش کیا جانے والا مضمون ذیل میں شائع کیا جا رہا ہے۔ ادارہ الشریعہ)
بعد الحمد والصلٰوۃ۔ نفاذ اسلام کی جدوجہد کے ایک نظریاتی کارکن کی حیثیت سے مجھے یہ معلوم کر کے بے حد خوشی ہوئی ہے کہ پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی علوم کی تعلیم و تدریس سے متعلق اساتذہ نے اگست ۲۰۰۰ء سے مجلس فکر و نظر کے نام سے ایک علمی فورم قائم کر رکھا ہے جس میں عصری مسائل پر اسلامی تناظر میں غور کیا جاتا ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان بننے کے بعد سے اب تک نفاذ اسلام کے علمی و فکری تقاضوں اور عصری مسائل کے اسلامی تناظر میں تجزیہ و حل کے لیے غیر سرکاری سطح پر کوئی اجتماعی کام منظم نہیں ہو سکا اور اگرچہ اس حوالہ سے شخصی حوالوں سے اچھا خاصا کام سامنے آیا ہے مگر شخصی فکر اور عقیدت کے دائروں میں محدود ہونے کی وجہ سے قوم کی اجتماعی زندگی میں اس کے خاطر خواہ ثمرات مرتب نہیں ہو سکے اور نفاذ اسلام کے محاذ پر علمی و فکری ہوم ورک کا خلا بدستور ارباب علم و دانش کو کھٹک رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ جس طرح قیام پاکستان کے فوراً بعد تمام مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علماء کرام نے ۲۲ دستوری نکات مرتب کر کے نفاذ اسلام کے حوالہ سے اجتماعی علمی سوچ اور فکر کا عملی مظاہرہ کیا تھا، اس کا تسلسل قائم رہتا اور اسی جذبہ اور شعور کے ساتھ عصری مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ نفاذ اسلام کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور مشکلات سے نمٹنے کی علمی جدوجہد کی جاتی لیکن بد قسمتی سے ایسا نہ ہو سکا اور ہماری نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط قومی زندگی میں علماء کرام کے مذکورہ ۲۲ متفقہ دستوری نکات کے بعد اگر کوئی اجتماعی علمی کاوش نظر آتی ہے تو وہ ۷۳ء کے دستور میں اسلامی دفعات کی شمولیت، قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے، صدر ضیاء الحق مرحوم کے دور میں وفاقی شرعی عدالت کے قیام، حدود آرڈیننس کے نفاذ اور اس نوعیت کے دیگر چند اقدامات تک محدود ہے یا اس سلسلہ میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات اور وفاقی شرعی عدالت کے متعدد فیصلوں کا حوالہ دیا جا سکتا ہے مگر جب ہم نفاذ اسلام کے سلسلہ میں عالمی سطح پر پائے جانے والے ہمہ گیر شکوک و شبہات اور مختلف عالمی حلقوں کی تشویش و اضطراب کے تناظر میں نفاذ اسلام کی اصل علمی و فکری ضروریات کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ کام قطعی طور پر ناکافی دکھائی دیتا ہے۔ بالخصوص جدید علمی و فکری چیلنجز کے پس منظر میں اجتماعی علمی و فکری جدوجہد کا خلا پوری شدت کے ساتھ اپنے وجود کا احساس دلاتا رہتا ہے۔
میری ایک عرصہ سے یہ کوشش اور خواہش رہی ہے کہ قرآن و سنت اور فقہ اسلامی کی تعلیم و تدریس کے ساتھ گہرا تعلق رکھنے والے علما اور جدید علوم و فنون بالخصوص قانونی نظام سے تعلق رکھنے والے ارباب دانش کے مشترکہ علمی فورم تشکیل پائیں اور امام اعظم ابوحنیفہؒ کے طرز اجتہاد کا احیا کرتے ہوئے مسائل کے تجزیہ و تحلیل اور حل کے لیے مشاورتی طریق کار کا راستہ اختیار کیا جائے لیکن متعدد مواقع پر اس کے لیے آواز اٹھانے اور متعلقہ حضرات کو توجہ کے باوجود پیش رفت کی کوئی صورت دکھائی نہیں دی۔ اس پس منظر میں مجلس فکر و نظر کے قیام پر مجھے جس قدر خوشی ہو سکتی ہے، اسے الفاظ میں بیان کرنا مجھے مشکل محسوس ہو رہا ہے تاہم اس میں یہ کمی میرے خیال میں ابھی تک موجود ہے کہ دینی مدارس کے سینئر اساتذہ اور قانونی شعبہ سے تعلق رکھنے والے ماہرین سے استفادہ کی شاید ضرورت محسوس نہیں کی گئی یا ان سے رابطہ کا کوئی قابل عمل طریقہ طے نہیں پا سکا۔ لیکن اس حوالہ سے اپنے احساسات و تاثرات کے اظہار پر خود کو مجبور پا رہا ہوں اور اس پر مجلس فکر و نظر سے معذرت خواہ ہوں ۔
جہاں تک پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات پر گفتگو کا تعلق ہے، اس سلسلہ میں سب سے پہلے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اب تک ہونے والے کام پر ایک نظر ڈال لی جائے تو آئندہ ترجیحات پر غور ہمارے لیے آسان ہو جائے گا۔
- ملک کے دستور کی بنیاد ’’قرارداد مقاصد‘‘ پر ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت مطلقہ کو تسلیم کر کے قرآن وسنت کی حدود میں رہتے ہوئے عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعہ ملک کا نظام چلانے کی ضمانت دی گئی ہے۔ اسی حوالہ سے یہ ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلاتا ہے اور اسی بنیاد پر پاکستان کو ایک نظریاتی اسلامی ریاست کا مقام حاصل ہے۔
- دستور میں اسلام کو ریاست کا سرکاری مذہب قرار دیا گیا ہے۔
- قرآن و سنت کے منافی قوانین نافذ نہ کیے جانے اور تمام قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کا دستوری وعدہ کیا گیا ہے۔
- مروجہ قوانین کی اسلامی حیثیت کے تعین کے لیے وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل کے نام سے دو دستوری ادارے کام کر رہے ہیں۔
- اسلامی نظریاتی کونسل ملک کے تمام مروجہ قوانین کا جائزہ لے کر انہیں قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کے لیے ایک جامع رپورٹ پیش کر چکی ہے۔
- وفاقی شرعی عدالت نے متعدد قوانین کے بارے میں واضح فیصلے صادر کر رکھے ہیں۔
- قومی اسمبلی اور سینٹ آف پاکستان مختلف مواقع پر قرآن و سنت کو ملک کا سپریم لا قرار دینے کا بل الگ الگ طور پر منظور کر چکی ہیں۔
مگر اس سب کچھ کے باوجود نفاذ اسلام کی دلّی ابھی بہت دور ہے اور اس کے قریب آنے کا سردست کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک کا موجودہ نظام جن طبقات کی گرفت میں ہے اور جو گروہ پاکستان کے مروجہ سسٹم کا کنٹرول پوری قوت کے ساتھ اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے ہیں، ان میں سے کوئی طبقہ بھی نفاذ اسلام کے لیے سنجیدہ نہیں ہے اور وہ اسے قوم کو بہلانے کے لیے ایک کھلونے سے زیادہ کوئی حیثیت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس طبقہ میں سول اور ملٹری بیوروکریسی کے ساتھ جاگیردار اور اعلیٰ مراعات یافتہ گروہ بھی شامل ہیں اور انہیں پاکستان میں نفاذ اسلام کا ہر قیمت پر راستہ روکنے کے لیے عالمی استعمار اور ورلڈ اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور حمایت اور پشت پناہی حاصل ہے۔ اس لیے میرے نزدیک نفاذ اسلام کے لیے جدوجہد کرنے والی جماعتوں اور طبقات کی ترجیحات میں سب سے پہلے اس بات کو اہمیت حاصل ہونی چاہیے کہ مروجہ نظام کی حفاظت کے لوکل اور ورلڈ اسٹیبلشمنٹ کے قائم کردہ حصار اور ریڈ لائن کو کیسے توڑا جائے؟ کیونکہ اس حصار کو توڑے بغیر اور مروجہ نو آبادیاتی نظام کا خاتمہ کیے بغیر نفاذ اسلام کا کوئی سنجیدہ قدم آگے نہیں بڑھ سکتا اور نہ ہی نظام میں تبدیلی کی کوئی کوشش کامیاب ہو سکتی ہے۔
اس کے بعد تاریخ اسلام سے دو تین مواقع کا تذکرہ کرنا چاہوں گا جب چند نیک دل حکمرانوں کو بگڑے ہوئے نظام کی اصلاح کا موقع ملا اور انہوں نے اس بگڑے ہوئے نظام کی اصلاح کے لیے پوری دیانت داری کے ساتھ پیش رفت کی۔ ہو سکتا ہے ان کے اقدامات اور طرز عمل سے ہمارے لیے راہنمائی کا کوئی راستہ نکل آئے۔
پہلے نمبر پر حضرت عمر بن عبد العزیزؒ ہیں جنہوں نے پہلی صدی ہجری کے اختتام پر خلافت کی ذمہ داری قبول کی جبکہ ملکی نظام میں خاصا بگاڑ آچکا تھا۔ عوامی حاکمیت کی بجائے حکمران طبقہ وجود میں آگیا تھا۔ وی آئی پی کلچر نے مسلمان سوسائٹی میں اپنی جگہ بنا لی تھی اور قومی خزانے کی لوٹ کھسوٹ کا یہ عالم تھا کہ بعض مؤرخین کے بقول بیت المال یعنی قومی خزانے کے اسی فی صد اموال اور اثاثے شاہی خاندان اور مراعات یافتہ طبقوں کی تحویل میں تھے۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے برسر اقتدار آنے کے بعد اس صورت حال کی اصلاح کے لیے جو اقدامات کیے، ان کی فہرست طویل ہے لیکن ان میں چند اہم اقدامات یہ ہیں:
- قومی خزانے کی رقوم اور اثاثوں کی واپسی کا آغاز اپنی ذات اور گھر سے کیا اور پھر کسی رو رعایت کے بغیر تمام متعلقہ لوگوں سے قومی خزانے کی رقوم اور اثاثے سختی کے ساتھ واپس لے لیے۔
- سابق حکمرانوں نے رعایا پر جو ناجائز ٹیکس عائد کر رکھے تھے، وہ ختم کر دیے اور عام لوگوں کو سرکاری عمال کی لوٹ کھسوٹ سے نجات دلائی۔
- وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کیا اور پروٹوکول اور پرسٹیج کے ضابطے ختم کر دیے۔
- خود بھی عام لوگوں جیسی سادہ زندگی اور رہن سہن اختیار کیا اور دوسرے سرکاری حکام کو بھی عام لوگوں جیسے معیار زندگی کی طرف واپس آنے پر مجبور کیا۔
- قانون کی عملداری بحال کی اور سرکاری عمال کو پابند کیا کہ وہ کسی شخصیت، طبقہ یا خاندان کی پروا کیے بغیر قرآن و سنت کے مطابق تمام امور کے فیصلے کریں۔
چھٹی صدی ہجری میں ایک نیک دل حکمران سلطان نور الدین زنگیؒ نے شام کی حکومت کا کنٹرول حاصل کیا تو اسے بھی ایک بگڑے ہوئے نظام کا سامنا تھا اور اس نے اصلاح احوال کے لیے جو طریقے اختیار کیے، ان میں سے چندایک کا مؤرخین اس طرح ذکر کرتے ہیں:
- جزیہ اور خراج کے سوا تمام ٹیکس منسوخ کر دیے۔
- عام ضرورت کی تمام اشیا کو چونگی اور ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔
- منکرات و فواحش اور بدکاری و بے حیائی کے خاتمہ کے لیے سخت گیر پالیسی اختیار کی۔
- سرکاری خرچ پر مفت شفا خانہ قائم کیا۔
- دمشق میں علم حدیث کی تعلیم کے لیے مستقل مدرسہ قائم کیا جو عالم اسلام کا پہلا سرکاری دارالحدیث کہلاتا ہے اور جس کے شیخ الحدیث معروف محدث حافظ ابن عساکرؒ تھے۔
- خراسان کے معروف ریاضی دان قطب الدین نیشا پوریؒ کو دمشق میں بلوا کر بڑی درسگاہ قائم کی۔
بارہویں صدی ہجری کے دوران جب ہندوستان میں مغل بادشاہت کا چراغ بتدریج گل ہو رہا تھا، جنوبی ہند کی ریاست میسور میں سلطان ٹیپوؒ نے اقتدار سنبھالا تو اسے ایک زوال پذیر معاشرے سے سابقہ درپیش تھا اور وہ جنوبی ایشیا میں برطانوی استعمار کے تیزی سے بڑھتے ہوئے قدموں کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہا تھا۔ اس نے میسور کی سلطنت خداداد کو ایک خوشحال اور مستحکم اسلامی ریاست بنانے کی ہر ممکن کوشش کی، تجارت و زراعت کو ترقی دینے کے ساتھ ساتھ دفاع اور اسلحہ سازی کی طرف خصوصی توجہ دی اور جہاز سازی کے میدان میں پیش رفت کر کے عسکری قوت میں فرنگی استعمار کے بالمقابل آنے کا عزم کیا۔ مؤرخین کہتے ہیں کہ اگر ٹیپو شہیدؒ کو اس کی خواہش کے مطابق ترکی کی خلافت عثمانیہ کی سرپرستی حاصل ہو جاتی اور میسور کی پڑوسی مسلم ریاستیں اس کے مقابلہ میں فرنگی حکمرانوں کا ساتھ نہ دیتیں تو سلطان ٹیپوؒ کی حکمت عملی اور عزم میں اتنی قوت تھی کہ وہ جنوبی ایشیا کے ایک بڑے حصے کو برطانوی استعمار کے نو آبادیاتی تسلط سے آزاد رکھنے میں کامیاب ہو جاتا۔ مگر خلافت عثمانیہ اور ریاست حیدر آباد دونوں نے اس مرد غیور کا ساتھ دینے اور اس کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھنے کے بجائے انگریزوں کا ساتھ دینے کو ترجیح دی جس کی وجہ سے نہ صرف سلطان ٹیپوؒ کو جام شہادت نوش کرنا پڑا بلکہ جنوبی ایشیا کی یہ اسلامی ریاست بھی تاریخ کے دھندلکوں میں گم ہوگئی۔
ہمیں پاکستان میں اس سے کہیں زیادہ سنگین صورت حال درپیش ہے۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ اور سلطان نور الدین زنگیؒ کے سامنے ایک بگڑے ہوئے نظام کی اصلاح کا مشن تھا جو انہوں نے اپنے خلوص، دیانت اور کردار کی بدولت پورا کر دکھایا جبکہ سلطان ٹیپوؒ کے سامنے اپنی سلطنت کی آزادی کو بچانے اور جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے مستقبل کا سوال تھا جسے وہ حل نہ کر سکا مگر اپنی جان کا نذرانہ دے کر اس نے مسلمانوں کو اپنی آزادی، خود مختاری اور اسلامی تشخص کے تحفظ کی جدوجہد کا راستہ بتا دیا۔ ہمارے سامنے یہ دونوں چیلنج ہیں اور پہلے سے کہیں زیادہ سنگین اور خوفناک شکل میں ہیں۔ اس لیے پاکستان میں نفاذ اسلام کی جدوجہد کرنے والوں کو حضرت عمر بن عبد العزیزؒ ، سلطان نور الدین زنگیؒ اور سلطان ٹیپو شہیدؒ کے کردار، عزم اور حوصلہ و استقامت سے راہنمائی حاصل کرنا ہوگی اور محض روایتی سیاسی عمل پر قناعت کرنے کی بجائے ایک ملی و دینی مشن کے طور پر اس کے طریق کار اور ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا۔
آخر میں صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت کے حوالہ سے بھی کچھ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ وہ یہ کہ نہ صرف پاکستان کے عوام بلکہ دنیا بھر کی دینی تحریکات اور دینی کارکنوں کی نظریں ان پر لگی ہوئی ہیں اور افغانستان میں طالبان کی اسلامی حکومت کے جبری خاتمہ نے دنیا بھر کے دینی کارکنوں کے دلوں پر جو زخم لگائے ہیں، وہ صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی کامیابی کو اپنے زخموں پر مرہم کی طرح محسوس کر رہے ہیں۔ میں اس سلسلہ میں اپنے ذاتی مشاہدہ کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ۱۰ اکتوبر ۲۰۰۲ء کے انتخابات کے موقع پر میں لندن میں تھا۔ انتخابات کے نتائج سامنے آنے پر کم از کم چھ مختلف ملکوں کے مسلم دانش وروں نے مجھ سے رابطہ قائم کیا اور مبارک باد دیتے ہوئے اپنے جذبہ اور خلوص کے مطابق صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی متوقع حکومت کو کامیاب بنانے کے لیے بہت سے مشورے دیے۔ انہیں یہ غلط فہمی تھی کہ شاید متحدہ مجلس عمل میں مجھے بھی ایسی حیثیت حاصل ہے کہ میں اس کی قیادت کو پالیسی اور ترجیحات کے معاملہ میں کوئی مشورہ دے سکتا ہوں اور اسی وجہ سے وہ مجھے مفید مشوروں سے نواز رہے تھے جبکہ میں اس بات پر خوش تھا کہ متحدہ مجلس عمل کو صرف پاکستان کے دین دار عوام ہی نہیں بلکہ مختلف ملکوں کے مسلمان دانش ور بھی اپنی جماعت سمجھ رہے ہیں اور اس سے توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ ان سب دوستوں کے مشوروں کا خلاصہ یہ تھا کہ:
- متحدہ مجلس عمل کو صوبہ سرحد میں ایک مثالی عوامی اور اسلامی حکومت کا عملی نقشہ پیش کرنا چاہیے۔
- عوامی مسائل کے حل اور مشکلات کے خاتمہ کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
- سماجی انصاف اور معاشرتی عدل کی فراہمی کو اولیت دینی چاہیے۔
- پروٹوکول، پرسٹیج اور وی آئی پی کلچر کے عذاب سے لوگوں کو نجات دلانا چاہیے۔
- صوبائی وزراء کو قناعت، سادگی اور قانون کی یکساں عملداری کا اپنی ذاتی زندگی میں نمونہ بننا چاہیے۔
- نا انصافی، رشوت، بد عنوانی اور سرخ فیتہ کی لعنت کے خاتمہ کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں۔
- عام لوگوں میں اپنی مدد آپ کے تحت سماجی کاموں کا شعور بیدار کرنا چاہیے اور ہر لحاظ سے دوسرے صوبوں اور دوسری سیاسی جماعتوں کے وزرا سے متحدہ مجلس عمل کے وزرا کو الگ اور ممتاز نظر آنا چاہیے تاکہ وہ نہ صرف اپنے صوبہ میں عوام کو عدل و انصاف کا صحیح ماحول فراہم کر سکیں بلکہ ان کا کردار اور حکومتی طرز عمل ملک کے دوسرے صوبوں کے عوام کے لیے بھی باعث کشش ہو اور پورے پاکستان کے عوام عملاً یہ محسوس کریں کہ ان کی فلاح و بہبود اور بہتر مستقبل اسلامی نظام اور دینی قیادت ہی سے وابستہ ہے۔
ان مشوروں کے ساتھ میں اپنی طرف سے سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی صوبائی حکومت کے لیے ایک مشورہ کا اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ اسلامائزیشن کا بہت سا کام اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی شکل میں موجود ہے۔ صرف آئین کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لے کر صوبائی اختیارات کی حدود واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کام کے بعد صوبائی اختیارات سے تعلق رکھنے والی اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو چھانٹ لیجیے اور متعلقہ ماہرین کی مشاورت سے ترجیحات طے کر کے صوبائی اسمبلی کے ذریعہ ان کے بارے میں قانون سازی کا آغاز کر دیجیے کہ اس وقت آپ کے بس میں عملاً صرف یہی ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ جب اپنے بس اور اختیار کا کام آپ کر گزریں گے تو اگلی پیش رفت کی راہیں بھی اللہ تعالیٰ ضرور کھول دیں گے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین۔