دینی و عصری تعلیم کے نصاب کو یکساں بنانے کا پس منظر

   
۴ اکتوبر ۲۰۱۸ء

نئی حکومت کی جانب سے دینی مدارس اور اسکولوں کا یکساں نصاب رائج کرنے کے اعلانات کے بعد یہ موضوع ایک بار پھر زیر بحث آ گیا ہے۔ راقم نے ایک وائس میسج میں اس پر اپنے موقف کا اظہار کیا تھا، جو مختلف حلقوں میں توجہ کے ساتھ سنا گیا۔ اسے عزیزم مولوی حذیفہ سواتی نے تحریری صورت دی ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

آج کی خبر کے مطابق عمران خان کی حکومت نے یہ طے کیا ہے کہ اسکول اور مدرسہ کا نصاب ایک کریں گے اور نصاب کی تجویز کے لیے ایک کمیٹی بھی بنا دی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس مسئلہ پر بھی سنجیدگی اور ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ دینی مدارس کے حوالہ سے میں کچھ عرض کرنا چاہ رہا ہوں، ذرا ٹھنڈے دل و دماغ سے دو تین باتوں پر غور کر لیں۔

اسکول اور مدرسہ کا نظام تعلیم الگ الگ ہے، یہ دونوں اکٹھے ہونے چاہئیں، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ ان دونوں نصابوں کو اکٹھا ہونا چاہیے، بلکہ یہ دونوں نصاب اکٹھے تھے، ۱۸۵۷ء سے پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں بھی اکٹھے تھے، جبکہ مغلوں کے دور میں بھی صدیوں تک اکٹھے تھے، دینی اور عصری تعلیم اکٹھی پڑھائی جاتی تھی۔ ۱۸۵۷ء کے بعد جب تاجِ برطانیہ نے یہاں کا نظام سنبھالا تو اس نظام کو ختم کر دیا اور دینی تعلیم کو نصاب سے خارج کر کے تقسیم کر دیا۔ یہ تقسیم انگریزوں نے کی ہے کہ جو نظام صدیوں سے چلا آ رہا تھا، جس میں دینی اور عصری تعلیم اکٹھی پڑھائی جا رہی تھی، اس کو ختم کر کے دینی تعلیم کو خارج کر دیا اور انگریزی عصری تعلیم پر بنیاد رکھی۔ چنانچہ دینی تعلیم کے جو علوم نکال دیے گئے تھے، دینی مدارس ان علوم کے تحفظ اور بقا کے لیے وجود میں آئے تھے اور الحمد للہ دینی مدارس کا یہ کردار ہے کہ وہ ان علوم کا تحفظ بھی کیے ہوئے ہیں، انہیں پڑھا بھی رہے ہیں اور ان کا ایک پورا نیٹ ورک ہے جو پورے جنوبی ایشیا میں کام کر رہا ہے۔ لہٰذا یہ بات کہ دونوں الگ الگ نہیں ہونے چاہیے تھے، تو یہ میں بھی کہتا ہوں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ علیحدگی کی بات کس نے کی ہے؟ صاف بات ہے کہ انگریزوں نے کی ہے، ہم نے تو نہیں کی۔

دوسری بات یہ کہ اس کو اکٹھا کرنے کی سب سے پہلی تحریک آج سے ایک سو سال پہلے شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ نے چلائی تھی۔ میں تاریخ کے ریکارڈ کی بات کرنا چاہ رہا ہوں، مولانا محمود حسنؒ ان دونوں تعلیموں کے اکٹھے ہونے کے داعی تھے، وہ خود علی گڑھ یونیورسٹی تشریف لے گئے تھے، ان کے ساتھ اس مہم میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، مولانا ظفر علی خان، حکیم محمد اجمل خان، ڈاکٹر انصاری اور مولانا حسین احمد مدنی رحمہم اللہ شریک ہوئے کہ ان دونوں تعلیموں کو اکٹھا کرنا چاہیے۔ مولانا محمد علی جوہرؒ، حکیم اجمل خانؒ، ڈاکٹر محمد انصاریؒ اور ڈاکٹر ذاکر حسین نے جامعہ ملیہ بنایا، پہلے علی گڑھ میں اور پھر دہلی میں منتقل ہوئے۔ جبکہ مولانا حسین احمد مدنیؒ نے پورا اٹھارہ سال کا دونوں تعلیموں کا مشترکہ نظام اس دور میں ترتیب دے کر شائع کیا، بلکہ آسام میں یونیورسٹی قائم کرنے کا پروگرام بھی بنایا جو وہ نہیں کر سکے۔ لیکن وہ اٹھارہ سال کا نصاب پرائمری سے لے کر ایم۔ اے ڈگری کلاسوں تک موجود ہے، ریکارڈ پر ہے اور اب بھی چھپ رہا ہے۔ غرضیکہ ان دونوں تعلیمی نظاموں کو اکٹھا کرنے کی تحریک سب سے پہلی ان بزرگوں نے چلائی تھی اور عملی اقدامات بھی کیے تھے۔ جامعہ ملیہ بھی اسی پر بنا تھا اور مولانا حسین احمد مدنیؒ کا نصاب بھی اسی پر ہے، لیکن یہ آگے نہیں چل سکا، کیونکہ سرکاری ذرائع سارے اس کے مخالف تھے۔ انگریز کا اصل مقصد تو دینی تعلیم کو نکالنا تھا، وہ اس کو دوبارہ ایڈجسٹ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے اس کی حوصلہ شکنی ہوئی، لیکن اس کے باوجود یہ کام جاری رہا۔

تیسری بات یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد چاہیے یہ تھا کہ جہاں سے انگریزوں نے نظام کو تقسیم کر کے دینی اور دنیاوی تعلیم کو الگ کیا تھا اور دینی تعلیم کو نکال دیا تھا، وہیں سے پھر کام کا آغاز کیا جاتا اور پاکستانی ریاستی تعلیمی نظام ۱۸۵۷ء کے پہلے کے فریم ورک کو بحال کرتا کہ ہم دینی اور عصری تعلیم اکٹھی دیں گے، اس طرز پر دیں گے جس طرز پر پہلے دی جاتی تھی اور اس تقسیم کو ختم کریں گے جو انگریزوں نے پیدا کر دی تھی۔ لیکن ہماری بیوروکریسی، اسٹیبلشمنٹ اور تعلیمی نظام ابھی تک ۱۸۵۷ء میں انگریز کے مسلط کردہ تعلیمی فارمولے پر چل رہا ہے اور وہ نہ صرف یہ کہ ریاستی تعلیمی نظام میں قرآن و سنت اور دینی علوم کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، بلکہ ہماری اسٹیبلشمنٹ دینی مدارس کے آزادانہ کردار اور ان کی تعلیم کو بھی ختم کرنے کے درپے ہے، جس کے لیے یہ خوشنما عنوان اختیار کیا جاتا ہے کہ ہم انہیں مین اسٹریم میں واپس لانا چاہتے ہیں اور دینی و دنیاوی تعلیم کو اکٹھا کرنا چاہتے ہیں۔

یہ اصل میں وہی پروگرام ہے جو انگریزوں نے دیا تھا، ہم سے آج بھی ۱۸۵۷ء کے انگریزی تعلیم کے فارمولے کو منوانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ میں یہ بات دو ٹوک کہنا چاہتا ہوں کہ ہم سے انگریز نوے سال میں یہ بات نہیں منوا سکا، آج ہم سے کون منوا سکے گا؟ ہمارا نیٹ ورک موجود ہے، جب تک ریاستی تعلیمی نظام میں قرآن و سنت کے علوم کو ۱۸۵۷ء سے پہلے کے لیول پر واپس نہیں لے جایا جاتا، ہمارا یہ نظام قائم رہے گا اور ہم دینی علوم کی تعلیم دیتے رہیں گے۔

میں بڑے خلوص سے مشورہ دینا چاہوں گا، اگر خان صاحب اس معاملہ میں سنجیدہ ہیں تو میں بھی ان کے ساتھ ہوں۔ دونوں تعلیموں کو اکٹھا کرنا ہے، لیکن امریکن ایجنڈے پر نہیں، ریڈ کارپوریشن کی رپورٹ پر نہیں، مغربی استعمار کے پروگرام پر نہیں، بلکہ پاکستان کی قومی اور دینی ضرورت پر۔ سیدھا سادہ فارمولا ہے کہ جہاں سے تقسیم کر کے الگ الگ کیا تھا، اس سے پہلے کی پوزیشن پر واپس چلے جائیے۔ ۱۸۵۷ء سے پہلے کی یہاں کے تعلیمی نظام کی جو پوزیشن تھی، اس فارمولے اور اس فریم ورک کو قبول کر کے اس کا اعلان کر دیا جائے۔ آپ اعلان کریں کہ ہم ۱۸۵۷ء سے پہلے کی پوزیشن پر واپس جائیں گے اور اس تقسیم کو رد کرتے ہیں جو انگریزوں نے کی تھی۔ یہی ایک فارمولا ہے دونوں کو اکٹھا کرنے کا۔ دینی تعلیم بھی اور عصری تعلیم بھی، دونوں کو اکٹھا کرنا ہے تو اس بات پر غور کیا جا سکتا ہے اور اس پر غور کرنا چاہیے۔

لیکن اگر دونوں کو اکٹھا کرنے کا مقصد رہی سہی دینی تعلیم کو بھی ختم کرنا ہے تو میں عمران خان صاحب کو یہ مشورہ دوں گا کہ جس طرح انہوں نے عاطف میاں کو شامل کر کے بہت بڑا رسک لیا تھا، جو ان سے سنبھالا نہ جا سکا، یہ بھی وہ اس سے بڑا رسک لے رہے ہیں کہ دینی و عصری تعلیم کو اکٹھا کرنے اور ایک نصاب کو رائج کرنے کے نظام پر وہ دینی تعلیم کی نفی کر رہے ہیں اور اس کا عملی مطلب ہم سے آج وہ فارمولا منوانا ہے جو انگریزوں نے ۱۸۵۷ء کے بعد یہاں رائج کیا تھا۔ جسے نوے سال ہم نے نہیں مانا اور اب تک نہیں مان رہے، آج ہم سے وہ منوانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

الغرض تقسیم نہیں بلکہ اکٹھا کرنا ہے اور اکٹھا کرنے کے نام پر دینی تعلیم کی نفی نہیں بلکہ دینی تعلیم کو اصل وجود میں قائم رکھنا ہے تو آئیے غور کیجئے۔ اگر سیدھا راستہ اختیار کریں گے تو ہم آپ کا ساتھ دیں گے اور اگر اس کا مقصد دینی تعلیم کے نظام کو ختم کرنا ہے تو یہ نہیں ہوگا، نہیں ہوگا، نہیں ہوگا۔

   
2016ء سے
Flag Counter