روزنامہ نوائے وقت لاہور ۲۳ دسمبر ۱۹۹۹ء کی ایک خبر کے مطابق حکومتِ پاکستان نے سکولوں میں بچوں کی تعلیم کو لازمی بنانے کے لیے قانونی اقدامات کا فیصلہ کیا ہے۔ جن کے تحت دکانوں، ہوٹلوں اور دیگر اداروں میں بچوں سے مزدوری لینے پر پابندی عائد کی جائے گی، اور بچوں کو سکول نہ بھیجنے والے والدین اور بچوں سے مزدوری کا کام کرانے والے دکانداروں اور مالکوں کے لیے سزائیں تجویز کی جائیں گی۔
جہاں تک بچوں کو سکول میں لازمی بھیجنے اور ان کی تعلیم کو یقین بنانے کا تعلق ہے ہمارے نزدیک اس سلسلہ میں سرکاری پالیسی بہت پہلے طے ہونی چاہیے تھی اور اس میں تاخیر سے قومی سطح پر بہت زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔ ہمارے ہاں شرح خواندگی کا تناسب بہت کم ہے، جسے اپنے معاصر ممالک اور اقوام کے تناظر میں ذکر کرتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے۔ اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد سے اب تک قومی سطح پر ایسی کوئی پالیسی سرے سے طے ہی نہیں کی گئی جس کا مقصد بچوں کے لیے لازمی تعلیم کو یقینی بنانا ہو۔ اب اگر حکومت کو اس کا خیال آ گیا ہے تو اچھی بات ہے، لیکن یہ پالیسی زبانی جمع خرچ پر مبنی نہیں ہونی چاہیے، اور اس حوالے سے کاغذات میں ایجنڈا پورا کر کے عالمی اداروں کو دکھا دینے کی بجائے ٹھوس عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اور اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اس تعلیمی پالیسی کا مقصد محض عالمی اداروں کو خوش کرنا نہ ہو، بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حیثیت سے ایک اسلامی نظریاتی ریاست کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر اس کے لیے تعلیمی نصاب اور نظام کی تشکیلِ نو کی جائے۔
یہ ہم اس لیے عرض کر رہے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں ’’مسجد مکتب اسکیم‘‘ کے تحت اس سلسلہ میں قدم اٹھایا گیا تھا مگر بعد میں عالمی اداروں کی مداخلت کی وجہ سے اسے روک دینا پڑا تھا۔ کیونکہ ان عالمی اداروں کا خیال تھا کہ مسجد کے ماحول میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے والے بچے یقیناً بنیاد پرست بنیں گے اور اس سے ملک میں بنیاد پرستوں کا تناسب خاصا بڑھ جائے گا۔ اس لیے ملک کے تمام بچوں کے لیے لازمی تعلیم کے انتظامات کے ساتھ ساتھ اس طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ اس تعلیمی سسٹم کو عالمی اداروں کے فکری اور ثقافتی مقاصد کا آلۂ کار بننے سے روکا جائے، اور تعلیم کے نصاب و نظام کو قومی مقاصد کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے۔
اس کے ساتھ بچوں سے مزدوری لینے کی ممانعت اور اس پر سزا تجویز کرنے کا اقدام بھی خوش آئند ہے، مگر اس کے دوسرے پہلو کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ ان بچوں کو کام پر بھیجنے والے ماں باپ کی غالب اکثریت ایسے لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جو انتہائی لاچاری اور بے بسی کے عالم میں اپنے ننھے منے جگر پاروں کو مزدوری کے لیے بھیجنے پر مجبور ہوتے ہیں، ورنہ کوئی بھی ماں باپ ہنسی خوشی اپنے لاڈلوں کو مشقت میں ڈالنا گوارا نہیں کرتے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیں ترقی یافتہ ملکوں کے قوانین کا ایک پہلو تو نظر آتا ہے کہ وہاں چائلڈ لیبر پر پابندی ہے اس لیے ہمیں بھی اپنے ملکوں میں بچوں کو مزدوری پر پابندی لگانی چاہیے، لیکن یہ بات ہمیں نظر نہیں آتی کہ ان ترقی یافتہ ملکوں میں لوگوں کو روزگار کا تحفظ حاصل ہے، اور حکومتیں عام آدمی کی بنیادی ضروریات کی کفالت کی ذمہ داری قبول کرتی ہیں۔ اس لیے وہاں ایسے ماں باپ کی تعداد بہت کم ہوتی ہے جو دو وقت کی روٹی سے لاچار ہو کر اپنے بچوں کو مزدوری کے لیے بھیجنے پر مجبور ہوں۔
ہم چائلڈ لیبر پر پابندی کے حق میں ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ بچے کی اصل جگہ دکان، کارخانہ یا ہوٹل نہیں بلکہ سکول ہے، اور حکومت کو اس سلسلہ میں ضروری اقدامات کرنے چاہئیں۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ معاشرے کے بے بس اور لاچار خاندانوں کی کفالت کے سلسلہ میں بھی حکومت اپنی ذمہ داری کا احساس کرے، اور ہوشربا معاشی عدمِ تفاوت کو کم سے کم کر کے عام آدمی کی ضروریات کی کفالت کا سسٹم اختیار کیا جائے، تاکہ کسی خاندان کو مزدوری کے لیے اپنے بچوں کو دکانوں، کارخانوں اور ہوٹلوں میں بھیجنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔