ختمِ نبوت کا عقیدہ اور منکرینِ ختمِ نبوت

   
مدرسہ معمورہ دار بنی ہاشم، ملتان
مجلس احرار اسلام پاکستان
۱۷ فروری ۲۰۲۵ء

(مجلس احرار اسلام پاکستان کے زیر اہتمام مرکز احرار مدرسہ معمورہ دار بنی ہاشم ملتان میں ۱۰ روزہ سالانہ ختمِ نبوت کورس کے لیے ریکارڈ کی گئی گفتگو)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مجلس احرار اسلام پاکستان کے زیر اہتمام دار بنی ہاشم معمورہ ملتان میں سالانہ ختم نبوت کورس جاری ہے اور شاید منگل تک جاری رہے گا۔ میں نے بھی حسب معمول، حسب سابق اس میں حاضری کا وعدہ کیا تھا اور کچھ گزارشات پیش کرنے کا ارادہ تھا، لیکن علالت کی وجہ سے سفر کا موقع نہیں بن سکا۔ مگر میں اس سے غیر حاضر بھی نہیں رہنا چاہتا، اس لیے کچھ باتیں ریکارڈ کے ذریعے مجلس تک پہنچانا چاہتا ہوں تاکہ حاضری شمار ہو جائے اور اس ثواب سے محروم نہ رہوں۔

ختم نبوت کا عقیدہ ہمارا بنیادی عقیدہ ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ پاک کے آخری نبی اور رسول ہیں، سلسلۂ نبوت و رسالت اللہ رب العزت نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل فرما دیا،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبوت نہ ملی ہے نہ ملے گی۔ یہ عقیدہ ختم نبوت ہمارا بنیادی عقیدہ ہے اور اس پر استقامت اور اس کے تقاضوں سے آگاہی ہماری ایمانی ذمہ داری ہے۔ آج کے ماحول میں چونکہ ہمیں منکرین ختم نبوت سے واسطہ پیش آتا ہے بالخصوص قادیانیت سے تو اس عقیدے سے وابستگی، استقامت، آگاہی و بیداری اور منکرین ختم نبوت کی چالوں سے، ان کی حرکتوں سے اور ان کے فتنے سے بچنے کے لیے تیاری رکھنا بھی ہماری دینی ذمہ داری ہے۔

مجھے مختلف کورسز میں گفتگو کا موقع ملتا رہتا ہے۔ بہت سے پہلوؤں پر گفتگو ہوتی ہے۔ آج میں ایک پہلو پر گفتگو کرنا چاہوں گا کہ نبوت کا دعویٰ خود جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوا ہے، صحابہ کرامؓ کے زمانے میں ہوا ہے، اس دور کے مدعیان نبوت کے ساتھ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا طرز عمل کیا تھا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نبوت کے دعویداروں کے ساتھ کیا معاملہ کیا ہے؟ ہمارے لیے سب سے بڑا اسوہ یہی ہے کہ جو طرز عمل جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا اور جو طرز عمل حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اختیار کیا اسی کی پیروی کرنی چاہیے اور وہی قیامت تک ہمارے لیے اسوہ ہے، نمونہ ہے، آئیڈیل ہے۔

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جن لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا ان میں سے ایک ایک کا تھوڑا تھوڑا تذکرہ کروں گا، یہ بات عرض کرنے کے لیے کہ نبوت کے دعویداروں کے ساتھ خود جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل کیا رہا ہے؟ سب سے پہلے تو مسیلمہ بن حبیب، جو یمامہ کے علاقے بنو حنیفہ قبیلے کا بڑا چوہدری تھا، اس نے نبوت کا دعویٰ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیغام رسانی بھی کی، حضورؐ کی خدمت میں حاضر بھی ہوا، پیشکشیں بھی کیں، لیکن جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی راستہ نہیں دیا۔

یہاں ایک بات میں عرض کرنا چاہوں گا کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات تک مسیلمہ کذاب کا دعویٰ حضورؐ کے مقابل نبی کے طور پر نہیں تھا، بلکہ خود کو وہ حضورؐ کی نبوت کا شریک کار کہتا تھا کہ میں حضور کا امتی ہوں اور شریک نبی ہوں، نبوت کا کچھ حصہ مجھے ملا ہے اور مجھے حضورؐ کے کام میں شریک کیا گیا ہے۔ اس کا دعویٰ حضورؐ کی حیات مبارکہ میں حضورؐ کے مقابلے میں آنے کا نہیں تھا، وہ حضورؐ کے وصال کے بعد مقابلے پر آیا ہے۔ حضورؐ کے زمانے میں وہ مصالحت کی کوشش کرتا رہا، سودے بازی کوشش کرتا رہا۔ اس پر ایک دو باتیں عرض کروں گا۔

بخاری شریف کی روایت ہے اس نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وفد بھیجا دو آدمیوں پر مشتمل، عبداللہ بن نواحہ اور ایک اور آدمی تھا، انہیں خط دے کر بھیجا۔ اس وفد کے ساری ملاقات روایت میں موجود ہے، خط کا متن بھی روایت میں موجود ہے۔ خط کا عنوان یہ ہے : نعوذ باللہ ”من مسیلمۃ رسول اللہ الی محمد رسول اللہ“ یعنی وہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ کا رسول مانتا ہے اور خود کو بھی اللہ کا رسول کہتا ہے۔ ”اشرکت معک فی الامر“ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ رہا ہے کہ مجھے نبوت میں آپ کے ساتھ شریک کیا گیا ہے۔ ”ولکن قریشا قوما یعتدون“ یہ قریشی سخت لوگ ہیں کسی کا حصہ مانتے نہیں ہیں، تجاوز کرتے ہیں، بات تسلیم نہیں کرتے۔ یہ اس کے خط کا عنوان اور خط کا متن کہ میں شریک نبی ہوں، آپ اللہ کے رسول ہیں، میں بھی اللہ کا رسول ہوں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر دو باتوں کا بطور رد عمل کے اظہار فرمایا۔ خط لانے والے دونوں قاصدوں سے پوچھا ”اتشھدان انی رسول اللہ “کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ انہوں نے کہا : ”نشھد“ ہم گواہی دیتے ہیں۔ پھر پوچھا ”اتشھد ان ان مسیلمۃ رسول اللہ“ کیا تم اس کے بعد یہ بھی گواہی دیتے ہو کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے؟ انہوں نے کہا ”نشھد“ ہم گواہی دیتے ہیں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا ”لو لا ان الرسل لا تقتل لضربت اعناقکما“ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ سفیروں اور نمائندوں کو قتل نہیں کیا جاتا، اگر یہ ضابطہ قانون نہ ہوتا یا عرف رواج نہ ہوتا تو میں تم دونوں کی گردیں اڑوا دیتا۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی ماننے کے بعد کسی اور کو نبی ماننا ارتداد ہے اور مرتد کی سزا شرعاً قتل ہے۔ لیکن چونکہ عام عرف اور تعامل یہ تھا کہ سفیر کو، نمائندے کو قتل نہیں کیا جاتا جو اس وقت کے بین الاقوامی ضوابط میں تھا تو حضورؐ نے فرمایا کہ اس وجہ سے میں تمہیں کچھ نہیں کہہ رہا۔ یہ خط و کتابت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بخاری شریف میں نقل فرمائی ہے۔ یہ میں نے اس لیے عرض کی ہے کہ مسیلمہ کا دعوی مقابل نبی کا نہیں تھا شریک نبی کا تھا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکار نہیں کرتا تھا، بلکہ ان کو رسول مانتا تھا۔

پھر بخاری شریف ہی کی روایت کے مطابق مسیلمہ ایک بڑا وفد لے کر مدینہ منورہ آیا کہ خود بات کروں۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ملاقات کی ہے۔ اس کا تقاضا یہ تھا کہ آپ بھی اللہ کے رسول ہیں اور نعوذ باللہ میں بھی ہوں۔ آپ دو باتوں میں سے ایک بات کر دیں۔ یا اپنے بعد اپنا جانشین مجھے نامزد کر دیں یا تقسیم کر لیں دیہات میرے حوالے کر دیں اور شہر آپ سنبھالیں۔ ”لنا وبر ولک مدر“ آپ ان میں سے کوئی بات طے کر لیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بات سنی، زمین پہ خشک لکڑی پڑی ہوئی تھی ٹوٹی ہوئی ٹہنی، اٹھائی اور فرمایا تم مجھ سے زمین کی خلافت کی بات کرتے ہو۔ اگر تم یہ لکڑی بھی مانگو گے تو میں نہیں دوں گا۔ اپنی حدود میں رہو۔ اگر تم نے اپنی حدود کراس کی تو اللہ پاک تمہاری ٹانگیں کاٹ دے گا، تمہارا راستہ روک دے گا۔

مسیلمہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں اس طریقے سے اپنا داؤ پھیلاتا رہا، اپنا دائرہ وسیع کرتا رہا۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مقابلے پر آیا۔ جنگ ہوئی ہے، جنگ میں یہ قتل ہوا ہے۔ اور یہ بھی بڑا دلچسپ واقعہ ہے اس کے قاتل حضرت وحشی بن حرب رضی اللہ تعالی عنہ ہیں، وہ خود اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں۔ یہ وحشی وہی ہیں جنہوں نے احد کی جنگ میں سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا، ان کا سینہ چاک کیا تھا اور اعضاء بھی کاٹے تھے۔ جب فتح مکہ پر اسلام قبول کیا تو خود کہتے ہیں میرے دل میں یہ احساس تھا کہ میرا تعارف جب بھی ہوتا ہے حمزہ کے قاتل کے طور پر ہوتا ہے۔ یہ مجھے محسوس ہوتا تھا تو میں نے طے کر لیا کہ موقع ملا تو اتنا ہی بڑا کافر ماروں گا تاکہ حساب برابر ہو جائے۔ مجھے یمامہ کی جنگ کی خبر ملی تو میں نے وہ حربہ، چھوٹے نیزے کو کہتے ہیں جو بازو کے برابر ہوتا ہے، وہ حربہ میں نے سنبھال کر رکھا ہوا تھا وہی نیزہ میں نے اٹھایا اور جنگ میں چلا گیا اور پھر ان کے ہاتھوں مسیلمہ قتل ہوا۔ وہ لمبی تفصیل ہے میں چھوڑتا ہوں۔ اور مؤرخین کہتے ہیں کہ وحشیؓ دیوانہ وار میدان جنگ میں اعلان کر رہے تھے کہ لوگو! مجھے حمزہ کا قاتل کہا جاتا تھا، مسیلمہ کا قاتل بھی میں ہوں۔

ایک تو یہ مسیلمہ تھا جس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کذاب فرمایا تو اب تک کذاب ہی ہے۔ حضورؐ نے اسے فرمایا ”مسیلمۃ الکذاب“۔ کمزور آدمی نہیں تھا کہتے ہیں جب یہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مقابلے پر آیا ہے تو اسی ہزار کا لشکر بتاتے ہیں اس کا، لیکن اللہ پاک نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی، یہ شکست کھا گیا۔

نبی کریم صلی اللہ وسلم کے زمانے میں دوسرا بڑا مدعی نبوت اسود تھا، عیہلہ یا عبہلہ نام بتاتے ہیں۔ اسود اس لیے کہ کالا رنگ تھا۔ یمن کا ایک سردار تھا۔ یمن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہی ریاست ِمدینہ کا حصہ بن گیا تھا، حضورؐ کی حکومت ریاست وہاں تک پہنچی تھی۔ اس دوران اسود نے نبوت کا دعوی کیا، حضورؐ کے مقرر کردہ گورنر کو شہید کر کے صنعاء کے دارالحکومت میں سرکاری محلات پر قبضہ کر لیا اور اپنی حکومت کا اعلان کر دیا۔ روایات میں آتا ہے کہ مدینہ منورہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں یہ بات آئی کہ اسود نے یمن کے شاہی محل پر قبضہ کر کے اپنی حکومت کا اعلان کر دیا ہے تو حضورؐ مجلس میں فرمایا بھئی اس کو کون سنبھالے گا؟ فیروز دیلمی رضی اللہ تعالی عنہ یمن کے تھے، حضورؐ کی مجلس میں بیٹھے تھے۔ کہا یا رسول اللہ! میں حاضر ہوں۔ اجازت لی، یمن واپس گئے۔ کہتے ہیں کہ اسود نے پہلے گورنر کی بیوی کو اپنے حرم میں شامل کر لیا تھا، یہ فیروز دیلمی رضی اللہ تعالی عنہ کی کوئی کزن لگتی تھی۔ ان کے ساتھ انہوں نے ساز باز کی، جیسے چھاپہ مار کارروائی ہوتی ہے، گوریلا کارروائی ہی ہوتی ہے۔ رات کو شب خون مارا اور اسود عنسی کو قتل کر دیا اور اسلام کا جھنڈا لہرایا۔ چند دن کے لیے یمن حضورؐ کی قلمرو سے نکلا تھا پھر حضورؐ کی زندگی میں ہی واپس آ گیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے اطلاع ہو گئی تھی۔ آخری ایام کی بات ہے، حضورؐ فرما رہے ہیں ”فاز فیروز فاز فیروز فاز فیروز“ فیروز کامیاب ہو گیا ہے، فیروز کامیاب ہو گیا ہے، فیروز کامیاب ہو گیا ہے۔ اب پس منظر کسی کو معلوم نہیں ہے کہ کون فیروز ہے؟ کہاں کامیاب ہوا ہے؟ کیا کامیابی ہے؟ کہتے ہیں کہ حضورؐ کا اگلے دن وصال ہو گیا۔ اس کے ایک دو دن بعد فیروز کی کاروائی کی اطلاع ملی تو ہمیں پتہ چلا کہ ”فاز فیروز“ جو حضورؐ فرما رہے تھے کہ فیروز اپنے مشن پر کامیاب ہو گیا ہے، اس کا مطلب کیا تھا۔ فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں اسود عنسی قتل ہوا اور یہ دوسرا مدعی نبوت بھی، یہ پہلے قتل ہو گیا تھا، حضورؐ کے زمانے میں قتل ہو گیا تھا۔

ایک مدعی نبوت طلیحہ تھا اس نے بھی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نبوت کا دعوی کیا تھا۔ بنو اسد قبیلے کا تھا۔ بنو اسد بڑا قبیلہ تھا۔ طلیحہ بن خویلد اسدی نے نبوت کا دعوی کیا، جتھہ اکٹھا کیا۔ قبائلی دور تھا اس زمانے میں قبائل کے نام پر، برادریوں کے نام پر جتھے اکٹھے ہو جاتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی سرکوبی کے لیے معروف جرنیل ضرار بن ازور رضی اللہ تعالی عنہ کی ڈیوٹی لگائی، طلیحہ کے لشکر کا اور ضرار بن ازور رضی اللہ عنہ کے لشکر کا مقابلہ ہوا۔ طلیحہ کو شکست ہوئی، لیکن قابو نہیں آیا، بھاگ گیا۔ البتہ ایک معروف صحابی ہیں عکاشہ بن محصن فزاری رضی اللہ تعالی عنہ، وہ اس کے کزن لگتے تھے چچا زاد تھے یا خالہ زاد تھے۔ ان دونوں کا آپس میں مقابلہ ہوا اور عکاشہ بن محصن فزاری رضی اللہ تعالی عنہ طلیحہ اسدی کے ہاتھوں اس جنگ میں شہید ہوئے۔ بہرحال طلیحہ کو شکست ہوئی اور بھاگ گیا۔

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جب مختلف قبائل نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کی تو طلیحہ پھر آگیا، اس نے پھر لشکر اکٹھا کیا اور مقابلے میں کھڑا ہو گیا۔ یہ خود کو نبی کہتا تھا کہ مجھ پہ وحی آتی ہے۔ بہت کچھ باتیں کرتا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کی ڈیوٹی لگائی جب یمامہ کی جنگ سے فارغ ہوئے تو فرمایا اس سے بھی نمٹو۔ پھر مقابلہ ہوا حضرت خالد بن ولیدؓ کا اور طلیحہ بن خویلد اسدی کا۔ طلیحہ نے پھر شکست کھائی، پھر بھاگ گیا، قابو نہیں آیا۔ پہلی جنگ میں قابو نہیں آیا تھا، دوسری جنگ میں بھی قابو نہیں آیا۔ شکست کھائی اور بھاگ گیا۔ عراق کے علاقے میں گھومتا پھرتا رہا، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کا زمانہ تھا جب مصر، عراق، شام سب علاقے فتح ہو گئے، اس کو بات سمجھ میں آ گئی کہ فرار کی کوئی صورت ممکن نہیں ہے تو اس نے رجوع کا پروگرام بنایا کہ میں واپس جاتا ہوں۔ مختلف لوگوں سے مشورہ کیا کہ میں اب کلمہ پڑھ کر واپس جانا چاہتا ہوں اور مسلمانوں کی صف میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ لیکن کیا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ میری توبہ کو اور میرے اسلام کو قبول کریں گے؟ ایسے موقع پر عام طور پر ہوتا ہے کہ خطرناک مجرم جب اپنے آپ کو ریاست کے حوالے کرتا ہے تو کوئی ضمانتی ساتھ رکھتا ہے، کسی کے ذریعے پیش ہوتا تھا تاکہ جان کی امان مل جائے۔ کسی نے مشورہ دیا کہ خالد بن ولیدؓ شام کے علاقے میں آئے ہوئے ہیں ان سے بات کرو۔ اس نے کہا نہیں، وہ تو خود مار دیں گے مجھے۔ کسی نے بتایا کہ مصر کے علاقے میں عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ موجود ہیں ان سے بات کر لو۔ کہا، ہاں وہ ڈپلومیٹ آدمی ہے، سیاست کار آدمی ہے وہ بات سمجھے گا۔ یہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گیا کہ مجھے امیر المومنین کی بارگاہ میں پیش کر دیں۔

مورخ ابن عساکرؒ نے ”تاریخ دمشق“ میں یہ ساری تفصیل بیان کی ہے۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا ٹھیک ہے، وہ طلیحہ کو لے کر گئے، مدینہ منورہ جب گئے تو ساتھ لے گئے۔ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا۔ آپؓ نے پوچھا کون ہے یہ؟ انہوں نے کہا طلیحہ ہے۔ طلیحہ اسدی؟ جی وہی طلیحہ اسدی۔ یہ کس لیے آیا ہے؟ توبہ کرنے کے لیے، اسلام قبول کرنے کے لیے۔ حضرت عمرؓ نے کہا یہ تو اسلام قبول کر لے گا مگر مجھے عکاشہ نہیں بھولے گا۔ عکاشہ جو ہمارا بڑا خوبصورت جوان تھا، اس کے ہاتھوں شہید ہوا تھا۔ یہاں میں ایک جملہ کہا کرتا ہوں کہ زندہ قومیں اپنے شہیدوں کو یاد رکھا کرتی ہیں۔ کئی سال گزر گئے ہیں مگر حضرت عمرؓ کو یاد ہے۔ ابن عساکرؒ نے بڑا زبردست مکالمہ ذکر کیا ہے، جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ فرمایا کہ عکاشہ نہیں بھولے گا مجھے۔ اس کے ہاتھوں شہید ہوا تھا، جب اس کو دیکھوں گا عکاشہ یاد آئے گا تو طلیحہ سمجھدار آدمی تھا، اس نے کہا حضرت! کیا آپ کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ مقابلہ ہوا تھا، اللہ رب العزت نے عکاشہ کو میرے ہاتھوں جنت بھیج دیا ہے اور مجھے اس کے ہاتھوں جہنم جانے سے بچا لیا ہے۔ میرے ہاتھوں وہ مارا گیا، شہید ہوا اور جنت میں گیا ہے۔ اگر اس کے ہاتھوں میں مارا جاتا تو جہنم میں جانا تھا۔ حضرت عمرؓ مسکرائے۔ طلیحہ نے دوسری بات کی امیر المومنین! کل قیامت کے دن میں اور عکاشہ قاتل مقتول دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر جنت میں جا رہے ہوں گے تو آپ کو کیسا لگے گا؟ حضرت عمرؓ تھوڑا سا مسکرائے اور فرمایا باتیں نہیں کرو، کلمہ پڑھو۔ طلیحہ نے کلمہ پڑھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فارس کی جنگ میں ان کو شریک کر لیا، تشکیل کر دی۔ کہتے ہیں یہ فارس کی جنگ میں کسی محاذ پر لڑتے لڑتے شہید ہو گئے تھے۔ محدثین نے جہاں صحابہ کرام کا ذکر کیا ہے وہاں طلیحہ بن خویلد اسدیؓ کا بھی ایک صحابی کے طور پر ذکر کیا ہے۔ توبہ کر چکے تھے، جہاد میں شریک ہوئے۔ یہ تیسرے مدعی نبوت تھے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دعوائے نبوت کیا تھا اور مقابلہ کیا تھا۔

چوتھی مدعیہ نبوت سجاح تھی۔ خاتون تھی اس نے نبوت کا دعوی کیا کہ میں بھی نبی ہوں۔ بنو تغلب میں سے تھی۔ بڑا لشکر اکٹھا کیا، یہ بھی مقابلے پر آ رہی تھی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں، تو مسیلمہ اور سجاح ان دونوں کا رابطہ ہو گیا، طے کیا کہ اکٹھے مل کے لڑتے ہیں۔ مورخین نے تو بڑی لو سٹوری بیان کی ہے، ون ٹو ون مذاکرات ہوئے ایک خیمے میں اور کہتے ہیں دو دن مذاکرات چلتے رہے۔ دونوں نے ایک دوسرے کو تسلیم کر لیا اور اکٹھے جنگ لڑنے کا فیصلہ ہوا۔ اس نے بھی شکست کھائی، مسیلمہ کو شکست ہوئی تو سجاح کو بھی ہو گئی۔ مسیلمہ تو قتل ہو گیا تھا، یہ غائب ہو گئی اور اپنے علاقے میں چلی گئی۔ اب گمنام ہے، عورت کا گمنام ہونا آسان ہوتا ہے۔ خاصا عرصہ گزر گیا، امیر المومنین حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کا زمانہ تھا، سجاح کے علاقے میں قحط پڑا۔ بارشیں رک گئیں، قحط ہوا، قحط کے نتیجے میں جو کچھ ہوا کرتا ہے ہوا، پیداوار رک گئی، سبزہ خشک ہو گیا، پانی کم ہو گیا۔ لوگ علاقہ چھوڑنے لگے۔ سجاح کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ اپنے خاندان کو لے کر دمشق چلی گئی۔ امیر المومنین حضرت معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش ہوئی اور اس نے کہا جناب! میں سجاح ہوں وہی سجاح جس نے مسیلمہ کے ساتھ مل کر جنگ لڑی تھی، ہمارے علاقے میں قحط پڑ گیا ہے، میں آئی ہوں مجھے آپ مسلمان بنا لیں، کلمہ پڑھائیں۔ اس سے توبہ کی، رجوع کیا، کلمہ پڑھا، مسلمان ہو گئی۔

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کی تشکیل کوفہ میں کی۔ کوفہ کے گورنر سمر ہ بن جندب رضی اللہ تعالی عنہ تھے، ان کو خط لکھا کہ اس خاتون کو عزت و احترام کے ساتھ کوفہ میں بساؤ۔ پھر سجاح کوفہ میں رہیں۔ اس دور کے بارے میں محدثین لکھتے ہیں کہ بڑی پارسا، عابدہ، عبادت گزار خاتون تھیں، بڑی نیک خاتون تھیں۔ وہیں کچھ عرصہ رہیں، کوفہ میں ان کا انتقال ہوا۔ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالی عنہ نے جنازہ پڑھایا اور ان کی تدفین کی۔

میں نے ان چار مدعیان نبوت کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں، صحابہ کرام کے زمانے میں انہوں نے دعوے بھی کیے، سامنے بھی آئے۔ دو قتل ہو گئے، دو نے توبہ کر لی۔ ان کے بارے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طرز عمل میں نے عرض کیا ہے کہ حضورؐ کا طرز عمل کیا تھا اور صحابہ کا طرز عمل کیا تھا۔ کسی کے دعوے کو کسی درجے میں تسلیم نہیں کیا۔ ایک واقعہ اور ساتھ شامل کروں گا جو امام بیہقی رحمہ اللہ تعالی نے السنن الکبری میں بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں کوفہ میں چلے گئے تھے حضرت عمر کے حکم پر۔ آپؓ کوفہ کے قاضی تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا زمانہ تھا، ان کی خلافت کے دور کے دو واقعات امام بیہقیؒ نے ذکر کیے ہیں۔ ایک تو یہ کہ کوفہ کے کسی علاقے میں کچھ لوگوں کے خفیہ اڈے کا پتہ چلا کہ مسیلمہ کذاب کے طبقے کے بچے کھچے لوگ وہاں الگ جمع ہوتے ہیں اور اپنی مجلس جماتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے پتہ کرایا۔ کہتے ہیں کوئی ستر کے قریب مرد و عورت، بوڑھے بچے انہوں نے اپنا ایک ٹھکانہ بنا رکھا تھا، وہاں جمع ہوتے تھے اور مسیلمہ کذاب کے طریقہ پر اذان اورنماز پڑھتے تھے۔

یہ بات بھی درمیان میں عرض کر دوں کہ مسیلمہ کذاب جب کسی سے اپنا اقرار کرواتا تھا تو پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اقرار کرواتا تھا۔ پہلے حضورؐ کا کلمہ پڑھاتا تھا پڑھو ”اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا رسول اللہ“ پھر نعوذ باللہ ”اشھد ان مسیلمۃ رسول اللہ“ اذان بھی یہی تھی، پہلے ”اشھد ان لا الہ الا اللہ، اشھد ان محمدا رسول اللہ“ پھر ”اشھد ان مسیلمۃ رسول اللہ“ پہلے حضورؐ کا اقرار کرواتا تھا پھر اپنا۔ حتیٰ کہ ختم نبوت کے پہلے شہید حبیب بن زید انصاری رضی اللہ تعالی عنہ جو کسی جگہ پکڑے گئے، مسیلمہ کے سامنے پیش کیے گئے تو مسیلمہ نے ان سے پوچھا ”اتشھد ان محمدا رسول اللہ“ انہوں نے فرمایا ”اشھد اشھد“ پھر پوچھا ”اتشھد انی رسول اللہ“ پہلے رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا اقرار کروایا، پھر پوچھا مجھے بھی مانتے ہو؟ حبیب بن زیدؓ نے بڑا تاریخی جملہ فرمایا ” ان فی اذنی صمما عن سماع ما تقول“ میرے کانوں میں ڈاٹیں ہیں تیری بات اندر نہیں جا رہی۔ محاورے کا ترجمہ کہ میرے کان تمہاری یہ بات سننے سے انکاری ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی کوئی نبی ہو سکتا ہے میرے کان سننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس پر مسیلمہ نے انہیں شہید کر دیا۔ یہ ختم نبوت کے پہلے شہید ہیں۔ شہید ختم نبوت حبیب بن زید ہیں اور شہید ختم نبوت عکاشہ بن محصن فزاری ہیں رضی اللہ تعالی عنہما جو حضورؐ کے زمانے میں ختم نبوت کے عقیدے پر ختم نبوت کے منکرین کے ہاتھوں شہید ہوئے۔

خیر حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے ان کو چھاپہ مارا، پکڑ لیا، کیس امیر المومنین حضرت عثمانؓ کی خدمت میں بھیج دیا کہ کیا کروں۔ یہ روایت امام بیہقیؒ نے بیان کی ہے السنن الکبریٰ میں۔ انہوں نے فرمایا کہ کیا کرنا ہے، ان کو اسلام کی دعوت دو، توبہ کی مہلت دو۔ مرتد کے لیے قانون یہ ہے کہ مرتد کو تین دن کی مہلت دی جاتی ہے اسلامی ریاست میں۔ اسلامی قانون نافذ ہو، ریاست ہو تو تین دن کی مہلت دی جائے گی، اس کے ساتھ اس کے شبہات دور کرنے کا اہتمام کیا جائے گا۔ صرف دعوت نہیں دی جائے گی بلکہ اس کے شبہات کے دور کرنے کی کوشش کی جائے گی، سمجھایا جائے گا۔ تین دن کا موقع دیا جائے گا۔ فرمایا جو توبہ کر لے اسے چھوڑ دو، نہیں تو جو سزا ہے وہ دو۔ روایت میں یہ ہے کہ ان سب نے توبہ کر لی۔

جبکہ ایک واقعہ اور بھی ہے، حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں ہی کوفہ میں عبداللہ بن مسعود قاضی ہیں، ایک دن بازار جا رہے ہیں۔ ایک شخص پر نظر پڑی، غور سے دیکھا۔ بلایا، فرمایا تمہیں کہیں دیکھا ہے۔ اس نے کہا دیکھا ہوگا۔ فرمایا مجھے یوں لگتا ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مسیلمہ کذاب کا خط لے کر جو دو بندے آئے تھے ان میں شاید ایک تم تھے؟ اس نے کہا آپ نے ٹھیک پہچانا ہے میں وہ ہوں۔ میں ان دو قاصدوں میں سے ہوں جو مسیلمہ کذاب کا خط لے کر جناب نبی کریمؐ کی خدمت میں آئے تھے، میں ان میں سے ایک ہوں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے پوچھا اب بھی مسیلمہ کو رسول مانتے ہو؟ اس نے کہا جی مانتا ہوں۔ پوچھا اب سفیر تو نہیں ہو؟ نہیں۔ فرمایا آجاؤ! اسے گرفتار کر لیا۔ یہ کیس بھی حضرت بن عفان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیجا، کہ کیا کرنا ہے؟ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کا جواب بھی وہی دیا۔ توبہ کا موقع دو، توبہ کر لے تو ٹھیک، ورنہ قتل کر دو۔ چنانچہ امام بیہقیؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کو موقع دیا۔ سمجھایا، تین دن کے بعد اس کو پھانسی دے دی۔

یہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طرز عمل تھا مدعیان نبوت کے بارے میں اور منکرین ختم نبوت کے بارے میں۔ یہ اس دور کے واقعات ہیں، حضرات صحابہ کے دور کے واقعات ہیں۔ میں اس پر دو باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ

(۱) ہمارے لیے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا یہ اسوہ آج بھی ہمارے لیے یہ اسوہ ہے کہ ہم اس طریقے کے مطابق جیسے حضورؐ نے ان کے ساتھ طرز عمل اختیار کیا ہم بھی وہ طرز عمل اختیار کریں۔ صحابہ کرام نے جو رویہ اختیار کیا ہمارا رویہ بھی وہ ہونا چاہیے۔

(۲) اور دوسری بات یہ ہے جو قادیانیوں سے میں کہتا ہوں، قادیانیوں سے اور تمام منکرین ختم نبوت سے۔ عام طور پر، یہ بات چناب نگر میں بھی کئی اجتماعات میں کہہ چکا ہوں قادیانیوں سے کہ تمہارے سامنے بھی تاریخ ہے۔ مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی بننا ضروری نہیں ہے، طلیحہ اور سجاح بھی بنا جا سکتا ہے، تمہارے لیے راستہ کھلا ہے۔ طلیحہ نے کیا کیا تھا؟ توبہ کی تھی، کلمہ پڑھا تھا، ریاست کے سامنے امیر المومنین کے سامنے خود کو پیش کر دیا تھا۔ پھر انہوں نے تشکیل کی تھی کہ کیا کرنا ہے تم نے۔ سجاح نے کیا کیا تھا؟ توبہ کی تھی، امت میں شامل ہوئی تھی، خود کو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دیا تھا، حوالے کر دیا تھا۔ اس کی اگلی تشکیل حضرت معاویہؓ نے کی تھی۔ میری یہ قادیانیوں کو بڑے کھلے طور پر دعوت ہے آئیے طلیحہ کا راستہ اختیار کیجیے، سجاح کا راستہ اختیار کیجیے۔ اگر آپ اپنے غلط عقائد سے توبہ کر کے امت مسلمہ کے عقائد پر دیانتداری کے ساتھ، خلوص کے ساتھ آئیں گے، توبہ کریں گے، رجوع کریں گے، اپنے آپ کو امت مسلمہ میں شامل کرنے کے لیے سجاح اور طلیحہ والا راستہ اختیار کریں گے تو آپ کا خیر مقدم کیا جائے گا۔

لیکن قادیانی حضرات یہ بات یاد رکھیں کہ وہ موجودہ عقائد پر، موجودہ طرز عمل پر قائم رہتے ہوئے امت مسلمہ میں اپنے آپ کو شامل کرنے کے لیے جو مرضی کر لیں، یہ نہیں ہوگا۔ ان کے لیے دو ہی راستے ہیں، تیسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔ ایک یہ کہ امت مسلمہ نے ان کے بارے میں جو فیصلہ کیا ہے، پاکستان کی پارلیمنٹ نے، پاکستان کی عدالت عظمی نے جو فیصلہ کیا ہے اور علماء امت کا جو اجماعی فیصلہ ہے اس کو قبول کریں اور خود کو غیر مسلم تسلیم کریں، پھر جو معاملات آگے چلیں گے۔ اور اگر مسلمان کہلانا چاہتے ہیں تو اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ اپنے غلط عقائد سے توبہ کر کے امت مسلمہ کے اجماعی عقائد میں واپس آئیں اور دوبارہ کلمہ پڑھیں اور امت مسلمہ میں شامل ہو کر اپنے جھوٹے عقائد سے توبہ کریں، اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اللہ رب العزت ہم سب کو صحیح راستے پر قائم رہنے کی اور اللہ تبارک و تعالی ہر کفر سے، ہر ارتداد سے، ہر زندقہ سے توبہ کرنے کی اور اس کا مقابلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ اللہم صل علی سیدنا محمد النبی الامی والہ واصحابہ وبارک وسلم۔

2016ء سے
Flag Counter