سرمایہ داریت، کمیونزم اور اسلام

   
اگست ۲۰۰۱ء

روزنامہ نوائے وقت لاہور ۲۱ جولائی ۲۰۰۱ء کی ایک خبر کے مطابق روس کی پارلیمنٹ نے ملک میں اراضی کی آزادانہ خرید و فروخت کی اجازت دینے کی منظوری دے دی ہے۔ واضح رہے کہ کمیونسٹ دورِ اقتدار میں روسی اراضی کی آزادانہ خرید و فروخت سختی سے ممنوع تھی، اور انتہائی اہم ضرورت کے علاوہ اراضی کی فروخت نہیں ہو سکتی تھی۔ اس سلسلہ میں غیر ملکی کمپنیوں نے ایک عرصہ سے مطالبہ کر رکھا تھا کہ کمیونسٹ دور کے اس ضابطہ میں نرمی کی جائے۔ جس کے بعد روسی پارلیمنٹ نے اب ایک قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت اراضی کی آزادانہ فروخت کی اجازت ہو گی۔ کمیونسٹ پارٹی اور روسی قدامت پرست چرچ نے اس اقدام کی سخت مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ زمین عوام کی ملکیت رہنی چاہیے۔

اس خبر سے اندازہ ہوتا ہے کہ سوویت یونین کے بکھرنے اور ایک سپرپاور کے طور پر روس کی شکست کے بعد نظریاتی اور فکری محاذ پر بھی کمیونزم کی پسپائی کا عمل مسلسل جاری ہے، اور روسی پارلیمنٹ کا منظور کردہ یہ قانون بھی اسی کا حصہ ہے۔

کمیونزم دراصل مغرب کے جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کی تباہ کاریوں کا ردعمل تھا۔ جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام نے کاشتکار اور مزدور کو جبر و استحصال کے مذموم شکنجے میں جکڑ رکھا تھا اور مظالم کی انتہا کر دی تھی۔ جس کے ردعمل میں مزدوروں اور کسانوں نے بغاوت کر دی، اور دوسری طرف انتہا پر جاتے ہوئے سرے سے انفرادی ملکیت ہی کی نفی کر کے ’’عوام کی مشترکہ ملکیت‘‘ کا تصور پیش کیا، جسے کنٹرول کرنے کے لیے پارٹی آمریت کو ذریعہ قرار دیا۔ اسی فلسفہ کی بنیاد پر روس اور چین سمیت بہت سے ممالک انقلاب سے دوچار ہوئے، اور محنت کشوں کی حکمرانی کے نام پر یہ نظام نافذ کر دیا گیا۔ لیکن یہ چونکہ خود کوئی مستقل نظام نہیں تھا بلکہ ردعمل اور غصہ و انتقام کی بنیاد پر استوار ہوا تھا، اس لیے زیادہ دیر تک نہ چل سکا اور انسانی سوسائٹی کے فطری تقاضوں کے سامنے اسے سپرانداز ہونا پڑا، جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔

اسلام نے اسی لیے فرد کی آزادی، عوام کے اجتماعی مفاد، ریاست کے کنٹرول، اور مختلف طبقات کی باہمی کشمکش میں سے کسی ایک کو اپنے اجتماعی نظام کی بنیاد بنانے کی بجائے ان سب کی اہمیت اپنی اپنی جگہ تسلیم کرتے ہوئے ان سب کے درمیان ایک حسین امتزاج اور توازن قائم کیا ہے۔ جو انسانی سوسائٹی اور اجتماعیت کا فطری تقاضہ ہے اور اسلام کے نظام کا حسن ہے۔ اس لیے سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام اور اس کے بعد کمیونزم کی پسپائی کے بعد اب اسلام ہی واحد چوائس باقی رہ گیا ہے، جو انسانی معاشرہ کو سیاسی، معاشی اور معاشرتی طور پر توازن اور اعتدال پر مبنی نظام دے سکتا ہے۔ خدا کرے کہ ہمارے اربابِ علم و دانش وقت کے اس چیلنج کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اسلام کو ایک فطری اور متوازن نظام کے طور پر دنیائے انسانیت کے سامنے پیش کر سکیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter