حکومت کو زکوٰۃ کی ادائیگی اور علامہ ابوبکر بن مسعودؒ الکاسانی

   
۱۸ مارچ ۱۹۹۹ء

زکوٰۃ کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے حوالہ سے سابقہ مضمون میں راقم الحروف نے چھٹی صدی ہجری کے حنفی فقیہ امام ابوبکر بن مسعود الکاسانیؒ کی کتاب ’’بدائع الصنائع‘‘ کا ذکر کیا تھا۔ آج اسی ضمن میں ان کے ذکر کردہ بعض دلچسپ مسائل کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ مگر اس سے پہلے اس کتاب کے پس منظر کا کچھ تذکرہ ہو جائے جو دارالعلوم دیوبند کے سابق مہتمم حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ نے اپنے ایک خطبے میں بیان فرمایا ہے۔

’’بدائع الصنائع‘‘ حنفی فقہ کی مستند کتابوں میں شمار ہوتی ہے جس میں مسائل کی تنقیح اور متعلقہ امور و حالات کے تجزیہ میں علامہ کاسانیؒ نے جو اسلوب اختیار کیا ہے وہ واقعی لاجواب ہے۔ مگر یہ عظیم الشان کتاب ایک فقیہ اور خوبصورت خاتون کے رشتہ کے حصول کے لیے مقابلہ میں لکھی گئی تھی۔ مولانا قاری محمد طیبؒ کے ارشاد کے مطابق اس دور کے ایک بڑے عالم اور فقیہ کی بیٹی خود بھی بڑی عالمہ اور فقیہہ تھیں۔ علم و فضل اور فقہ و دانش کے وافر حصے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اس خاتون کو ظاہری حسن سے بھی مالامال فرمایا تھا جس کی وجہ سے اس کے لیے مختلف اطراف سے رشتے آتے تھے۔ مگر خاتون کے والد محترم کو کوئی رشتہ اپنی عالمہ و فاضلہ بیٹی کے شایان شان نہیں لگتا تھا اس لیے کہیں رشتہ طے نہیں ہو رہا تھا۔ حتیٰ کہ علماء کرام کے علاوہ بعض شہزادوں اور امراء کی طرف سے بھی پیغامات آئے جو مسترد کر دیے گئے۔

اس صورت حال میں بالآخر یہ طے پایا کہ رشتہ کے خواہش مند علماء کرام سے کہا جائے کہ وہ آج کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے فقہ حنفی کے مسائل کا جامع اور مستند مجموعہ مرتب کریں۔ ان میں سے جس کی کتاب خاتون کو پسند آئے گی اسی سے رشتہ طے ہوجائے گا۔ چنانچہ قاری محمد طیب صاحبؒ کے بیان کے مطابق اس مقصد کے لیے تقریباً ایک ہزار کتابیں لکھی گئیں جن میں سے علامہ ابوبکر کاسانیؒ کی یہ کتاب اس خاتون کو پسند آئی اور یوں اس کی شادی علامہ کاسانیؒ سے کر دی گئی۔ اس سے آپ اس دور کی خواتین کے علمی ذوق اور علم و فضل میں ان کے کمال کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب یورپ ابھی اس بحث میں الجھا ہوا تھا کہ ’’عورت‘‘ نامی چیز کو لکھنا پڑھنا سکھانے کی ضرورت بھی ہے یا نہیں۔

علامہ کاسانیؒ اپنے دور کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہمارے زمانے کے حکمران زکوٰۃ وصول کر کے اسے صحیح مصارف پر خرچ نہیں کرتے۔ اس لیے یہ سوال پیدا ہوگیا ہے کہ ان کو زکوٰۃ کی رقم ادا کرنے سے مال کے مالک کی زکوٰۃ شرعاً ادا ہو جائے گی یا نہیں؟ اس ضمن میں انہوں نے تین بزرگوں کے قول الگ الگ نقل کیے ہیں۔

فقیہ ابوجعفر ہندوانیؒ کا کہنا ہے کہ چونکہ مسلم حکمرانوں کو زکوٰۃ وصول کرنے کی ولایت حاصل ہے اس لیے انہوں نے جس سے زکوٰۃ وصول کی ہے اس کی زکوٰۃ ادا ہوگئی ہے۔ اگر وہ زکوٰۃ صحیح مصرف پر خرچ نہیں ہوئی تو اس کا وبال ان حکمرانوں پر ہوگا جبکہ صاحب مال اس سے بری الذمہ ہوگا۔

فقیہ ابوبکر بن سعیدؒ کا کہنا ہے کہ خراج کی رقم تو مال والے کے ذمہ سے ساقط ہو جائے گی، کیونکہ اس رقم کا مصرف جہاد اور دفاع وطن ہے اور یہ کام تو بہرحال حکمران جیسے کیسے کرتے ہی ہیں۔ البتہ زکوٰۃ اور صدقات کے مصارف چونکہ اس سے الگ ہیں اور ان پر سرکاری زکوٰۃ عام طور پر صحیح صرف نہیں ہوتی اس لیے ان کی ادائیگی شرعاً نہیں ہوگی۔

جبکہ فقیہ ابوبکر اسکافؒ نے کہا ہے کہ مال والے کے ذمہ سے تو ان تمام صورتوں میں یعنی زکوٰۃ، عشر، خراج، صدقہ وغیرہ ساقط ہو جائے گا مگر اسے اپنے طور پر دوبارہ بھی احتیاطاً ادا کر دینی چاہیے۔ کیونکہ یہ معلوم ہے کہ سرکاری طور پر یہ صدقات صحیح مصرف پر خرچ نہیں ہو رہے۔

علامہ کاسانیؒ نے یہاں ایک سوال اور اٹھایا ہے کہ اگر زکوٰۃ کی جبری وصولی کے وقت صاحب مال ان حکمرانوں کو ہی زکوٰۃ کا مستحق سمجھ کر زکوٰۃ کی ادائیگی کی نیت کر لے تو پھر کیا صورت ہوگی؟ جواب میں انہوں نے بعض فقہاء کا قول نقل کیا ہے کہ اس صورت میں زکوٰۃ ادا ہو جائے گی کیونکہ حکمران اور امراء کے پاس جو دولت موجود ہے وہ ان کی ذاتی نہیں ہے بلکہ نا انصافی اور ظلم کے ساتھ جمع کی ہوئی ہے جو ان کے ذمہ لوگوں کا قرض ہے۔ اور اگر ظلم و نا انصافی کے ساتھ اکٹھی کی ہوئی دولت ان سے واپس لے لی جائے تو اندر سے وہ فقیر اور محتاج ہی نکلیں گے جو کہ زکوٰۃ کے مستحق ہوتے ہیں۔ اس لیے اگر زکوٰۃ کی جبری وصولی کے وقت انہی کو زکوٰۃ دینے کی نیت کر لی جائے تو بعض فقہاء کے نزدیک زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔ لیکن علامہ کاسانیؒ کے نزدیک یہ مرجوح قول ہے جو قیل کے ساتھ نقل کیا گیا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے فقیہ ابو مطیع بلخیؒ کے ایک قول کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں انہوں نے اپنے دور کے خراسان کے حاکم علی بن عیسیٰ بن ہامان کے بارے میں کہا تھا کہ خراسان کے حکمران کو زکوٰۃ دینا درست ہے۔

علامہ کاسانیؒ نے ایک اور واقعہ کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ اس دور میں بلخ کے حکمران نے ایک فقیہ سے مسئلہ پوچھا کہ میں نے قسم اٹھائی تھی اور اب اس کو توڑنا چاہتا ہوں، اس کا کیا کفارہ ہے؟ تو اس فقیہ نے جواب دیا کہ آپ کے لیے کفارہ یہ ہے کہ آپ روزے رکھیں۔ یہ سن کر وہ حاکم رونے لگا۔ کیونکہ وہ سمجھ گیا تھا کہ مسئلہ بتانے والے عالم دین نے اسے مالدار شمار نہیں کیا اور اس کے پاس موجود اموال کو ظلم و نا انصافی کا مال قرار دیتے ہوئے اسے قسم کا وہ کفارہ بتایا ہے جو محتاج لوگوں پر واجب ہوتا ہے۔ قسم کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر قسم کھا لی ہے اور بعد میں اس کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے تو اس کا کفارہ صاحب استطاعت شخص کے لیے یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلائے یا انہیں ایک ایک جوڑا لباس مہیا کرے۔ اور جس شخص کے پاس اتنی استطاعت نہیں ہے تو وہ تین روزے رکھے۔ اس پس منظر میں بلخ کے حاکم کو اس فقیہ نے روزوں کے کفارے کا مسئلہ بتا کر یہ باور کرا دیا کہ تمہارے پاس جو دولت ہے وہ تمہاری نہیں بلکہ ظلم و نا انصافی کے ساتھ جمع کی ہوئی ہے اور اصل مالکوں کی ہے۔ اس لیے تم دراصل ایک محتاج شخص ہو اور تمہارا کفارہ یہی ہے کہ تم روزے رکھو۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جب چھٹی صدی ہجری کا حال یہ تھا کہ حکمرانوں کے مظالم اور نا انصافیوں کے حوالہ سے فقہاء کرام کو بہت سے ’’تحفظات‘‘ اختیار کرنا پڑے تھے تو آج حکمرانوں کی لوٹ کھسوٹ کس کھاتے میں شمار ہوگی؟

   
2016ء سے
Flag Counter