تذکرہ عمر فاروقؓ اور حسنین کریمینؓ

   
۱۷ دسمبر ۲۰۱۱ء

(جامعہ حنفیہ قادریہ، باغبانپورہ، لاہور کی شاخ جامع مسجد فاروق اعظمؓ، شمع پارک، سلامت پورہ، لاہور میں امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقؓ اور سیدنا امام حسینؓ کی یاد میں منعقد ہونے والے جلسہ سے خطاب۔)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میرے لیے اور آپ سب حضرات کے لیے یہ سعادت کی بات ہے کہ عالم اسلام کی دو بزرگ شخصیتوں سیدنا حضرت فاروق اعظمؓ اور سیدنا امام حسین ؓ کے تذکرہ کے لیے منعقد ہونے والے اس جلسہ میں ہم شریک ہیں اور ہمیں ان دو عظیم ہستیوں کے تذکرہ اور ان کی تعلیمات و ارشادات سے فیضیاب ہونے کا موقع مل رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارا مل بیٹھنا قبول فرمائیں اور بزرگان دین کی برکات سے دنیا اور آخرت دونوں جگہ ہمیں مالامال فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

ہجری سال کے پہلے ماہ محرم الحرام کا آغاز عام طور پر انہی بزرگوں کے تذکرہ سے ہوتا ہے اور ان کی خدمات، قربانیوں اور فضائل کا ذکر کیا جاتا ہے۔ دونوں بزرگوں کی زندگیاں تاریخ کا اہم حصہ ہیں اور ہر ایک کے تذکرہ کے بیسیوں پہلو ہیں جن کا احاطہ مختصر مجلس میں ممکن نہیں ہے۔ اس لیے میں دونوں بزرگوں کی زندگیوں، خدمات اور قربانیوں کے بیسیوں پہلوؤں میں سے صرف ایک دو پہلوؤں پر کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔ جبکہ ان کے ساتھ ایک تیسرے بزرگ کا تذکرہ بھی شامل کروں گا اور وہ سیدنا امام حسن ؓ ہیں۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض ارشادات میں ان دونوں بھائیوں کا اکٹھا ذکر فرمایا ہے مثلاً سیدا شباب اہل الجنۃ اور ہما ریحانتای کہ یہ دونوں جنت میں نوجوانوں کے سردار ہوں گے اور یہ دونوں میرے چمنستان کے دو پھول ہیں۔ ہمارے ہاں عام طور پر دونوں بھائیوں کا اکٹھے نام لیا جاتا ہے مگر حضرت امام حسنؓ کا تذکرہ کچھ زیادہ اہتمام کے ساتھ نہیں ہوتا۔ اس لیے میرا جی چاہتا ہے کہ تینوں بزرگوں کا تھوڑا تھوڑا تذکرہ ہو جائے۔

سیدنا حضرت عمر فاروقؓ اور سیدنا امام حسینؓؓ کے تذکرہ میں ایک قدر مشترک یہ بھی ہے کہ دونوں بزرگوں کی شہادت کا تعلق نماز سے ہے۔ حضرت عمرؓ پر نماز فجر کے دوران حملہ ہوا تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ امیر المؤمنینؓ نے مسجد نبویؐ میں فجر کی نماز پڑھانے کا آغاز کیا، ابھی وہ اللہ اکبر کہہ پائے تھے کہ ابو لؤلؤ مجوسی نے ان پر زہریلے خنجر سے وار کر دیا جس سے وہ گر پڑے۔ حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ نے فورً‌ا ان کی جگہ کھڑے ہو کر جلدی جلدی نماز مکمل کی۔ صحابہ کرامؓ کے ہاں نماز کی اہمیت کیا تھی؟ اس کا اس بات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پچھلی صفوں والے کہتے ہیں کہ ہمیں صرف اتنا پتہ چل سکا کہ اللہ اکبر حضرت عمر ؓ نے کہا تھا مگر قراءت میں آواز بدل گئی تھی اور حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ فاتحہ کی قرأءت کر رہے تھے۔ امیر المؤمنینؓ کے زخمی ہو کر گر پڑنے کے باوجود پہلے نماز کی تکمیل کی گئی۔

اس حوالہ سے ایک اور واقعہ بھی مؤرخین بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ زخمی حالت میں بستر پر تھے اور طبیب حضرات مایوسی کا اظہار کر رہے تھے، اس موقع پر ان کے بیٹے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے اپنے زخمی والد محترم کو یاد دہانی کرائی کہ آپ کی فجر کی نماز ابھی باقی ہے۔ روایت میں ہے کہ دو مرتبہ حضرت عمرؓ کو ان کے کہنے پر تیمم کرایا گیا لیکن وہ نماز شروع کرتے ہی پھر بے ہوش ہو گئے۔ مگر بیٹے کو آخر وقت تک یہی فکر رہا کہ کہیں میرے والد محترم ؓ کے ذمہ فجر کی نماز باقی نہ رہ جائے۔

جبکہ حضرت امام حسینؓ کی تو شہادت ہی نماز کے دوران سجدے کی حالت میں ہوئی۔ ہم ان بزرگوں کا تذکرہ تو کرتے ہیں مگر ان کا یہ آخری سبق ہمیں کس حد تک یاد ہے اور ہم نماز کی پابندی کے حوالہ سے ان کی کتنی پیروی کرتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائیں۔

حضرت عمرؓ کا تاریخ میں یہ اعزاز ہے کہ انہیں انصاف اور عدل کی علامت سمجھا جاتا ہے اور وہ فی الواقع عدل اور انصاف کا سِمبل تھے۔ آج مغرب کے مؤرخ بھی عدل و انصاف، گڈگورننس اور ویلفیئر اسٹیٹ کے حوالہ سے حضرت عمرؓ کے دور حکومت کا تذکرہ بطور آئیڈیل اور مثال کرتے ہیں۔ متحدہ ہندوستان کے دور میں ایک الیکشن کے بعد جب بعض صوبوں میں کانگریس کی حکومتیں قائم ہوئیں تو کانگریس کے سب سے بڑے راہنما مہاتما گاندھی نے اپنے اخبار ’’ہریجن‘‘ میں کانگرسی وزراء کے نام ہدایات تحریر کیں جن میں یہ بھی تھا کہ اگر انصاف اور عدل کے ساتھ حکومت کرنا چاہتے ہو تو ابوبکرؓ و عمرؓ کی زندگیوں اور طرز حکومت کو سامنے رکھو اور ان کی پیروی کرو۔

برطانیہ کو ویلفیئر اسٹیٹ کی شکل دینے کے لیے ناداروں، مریضوں، کم آمدنی والوں، معذوروں، دیگر کمزور افراد، اور خاندانوں کو وظیفے دینے کا جو سسٹم وہاں شروع کیا گیا تھا، اور وہ ابھی تک جاری ہے، اس کے بارے میں خود برطانوی راہ نماؤں کا کہنا ہے کہ اس کا بنیادی ڈھانچہ حضرت عمرؓ کے بیت المال کے نظام سے لیا گیا ہے۔ جبکہ ناروے کے بارے میں روایت ہے کہ وہاں بچوں کو دیے جانے والے سرکاری وظیفے کا نام ہی ’’عمر الاؤنس‘‘ ہے، ان کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ تصور حضرت عمرؓ سے لیا گیا ہے اس لیے وظیفے کا نام بھی وہی رکھا گیا ہے۔

حضرت عمرؓ بیت المال سے اپنے شہریوں کو جو وظیفے دیا کرتے تھے اس کے حوالہ سے حضرت عمرؓ اور حضرت حسینؓ کا ایک دلچسپ واقعہ مؤرخین نے بیان کیا ہے جس سے ان دو بزرگوں کے، جو چچا بھتیجا ہی لگتے تھے، باہمی تعلقات اور محبت و ادب کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے وظائف میں درجہ بندی کر رکھی تھی جبکہ حضرت ابوبکرؓ اس درجہ بندی اور گریڈ سسٹم کے قائل نہیں تھے اور وہ بڑے چھوٹے یا فضیلت کا لحاظ کیے بغیر سب کو برابر وظیفے دیا کرتے تھے۔ مگر حضرت عمرؓ نے درجہ بندی کر کے گریڈ سسٹم بنا دیا اور فضیلت کے حساب سے پانچ چھ درجے کر کے ان کے مطابق وظیفے دیا کرتے تھے۔ اسی تقسیم میں انہوں نے حضرت حسینؓ کا وظیفہ اپنے بیٹے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے زیادہ رکھا تھا جبکہ گریڈ سسٹم کے حوالہ سے وہ دونوں ایک ہی درجہ میں شمار ہوتے تھے۔ اس پر حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے اپنے والد محترم حضرت عمر فاروقؓ سے ایک موقع پر شکوہ کیا کہ آپ مجھے حسینؓ سے کم وظیفہ دیتے ہیں حالانکہ ہم دونوں کو برابر وظیفہ ملنا چاہیے۔ روایات میں ہے حضرت عمرؓ نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ تم حسینؓ کے ساتھ برابری کی بات کیسے کر رہے ہو؟ تم عمرؓ کے بیٹے ہو اور وہ رسول اللہؐ کا نواسہ ہے۔ اگر آج تمہارا باپ امیر المؤمنین ہے تو حسینؓ کے نانا کی برکت سے ہے، اس لیے اس سوچ کو ذہن سے نکال دو۔

سیدنا حضرت حسنؓ اور سیدنا حضرت حسینؓ جناب نبی اکرمؐ کے نواسے اور رسالت مآبؐ کی گود میں پرورش پانے والے بچے تھے اور ان دونوں کی عظیم قربانیاں ہیں۔ حضرت حسنؓ کی قربانی یہ ہے کہ انہوں نے امت میں وحدت پیدا کرنے کے لیے اقتدار اور حکومت سے دستبرداری اختیار کی۔ وہ جب حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد خلیفہ بنے تو اس وقت کیفیت یہ تھی کہ ان کے پاس اور ان کے مقابل حضرت امیر معاویہؓ کے پاس بڑی بڑی فوجیں تھیں، دونوں طرف لڑائی کا جذبہ موجود تھا اور جنگ کے امکانات دن بدن بڑھتے جا رہے تھے۔ حضرت امیر معاویہؓ بڑے متحمل مزاج بزرگ تھے، ان کے سامنے ان کے ایک دوست نے اس صورت حال کا ذکر کیا تو فرمانے لگے کہ لڑائی کی باتیں نہ کرو اگر خدانخواستہ جنگ ہو گئی تو ہزاروں کی تعداد میں بچوں اور بیواؤں کو سنبھالنے والا کون ہوگا؟ انہوں نے دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حضرت حسنؓ کو صلح کا پیغام بھیجا اور پیشکش کی کہ وہ جو شرائط بھی عائد کریں گے وہ منظور کر لی جائیں گی۔ ادھر حضرت حسنؓ نے بھی کمال دانش مندی سے کام لیا اور مناسب شرائط منوانے کے بعد حضرت امیر معاویہؓ کے ہاتھ پر بیعت کر کے ٹوٹی ہوئی امت کو جوڑ دیا اور اپنے نانا جناب نبی اکرمؐ کی پیشگوئی پوری کر دی۔

حدیث میں ہے کہ آنحضرتؐ نے ایک موقع پر جمعۃ المبارک کے خطبہ کے دوران اپنے نواسے کو گود میں لے کر یہ ارشاد فرمایا تھا کہ

ان ابنی ھذا سیدا وسیصلح اللّٰہ بہ بین فئتین عظمتین من المسلمین۔

میرا یہ بیٹا سردار ہے اور اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے درمیان صلح کرائیں گے۔

حضرت حسنؓ نے اقتدار کی قربانی دے کر اور خلافت سے دستبردار ہو کر جناب نبی اکرمؐ کی اس پیشگوئی کی تکمیل کر دی۔ وہ کمزور نہیں تھے، اگر وہ لڑنا چاہتے تو بہت خوفناک جنگ بپا ہوتی۔ دوسری طرف حضرت معاویہؓ بھی کمزور نہیں تھے اور بہت بڑا لشکر رکھتے تھے۔ لیکن دونوں بزرگوں نے تحمل، بردباری اور حوصلے سے کام لیا جس سے ٹوٹی ہوئی امت جڑ گئی اور مسلمانوں کو پھر سے وحدت نصیب ہوئی۔

سیدنا حضرت حسینؓ کی قربانی بہت بڑی تھی اور بہت بڑے مقصد کے لیے تھی۔ انہوں نے صرف جان کا نذرانہ پیش نہیں کیا بلکہ اپنا خاندان ذبح کرا دیا۔ لیکن انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ اس لیے کہ وہ یزید کو اس منصب کا اہل نہیں سمجھتے تھے جس پر اس سے پہلے حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ فائز رہ چکے تھے۔ حضرت حسینؓ خلافت کے اس معیار کو قائم رکھنا چاہتے تھے اور اسی کے لیے میدان میں آئے تھے گویا حضرت عمر فاروقؓ نے محنت، ایثار، قربانی اور جرأت و حوصلہ کے ساتھ حکومت میں دیانت و اہلیت کا جو معیار قائم کیا تھا حضرت حسینؓ کو اس میں کمی گوارا نہ تھی اور وہ اس طرز حکومت اور مزاجِ حکمرانی کو باقی رکھنے کے لیے اڑ گئے تھے حتٰی کہ انہیں اپنے خاندان سمیت جام شہادت نوش کرنا پڑا۔

آج ہمارے لیے ان تینوں بزرگوں کی زندگیوں اور خدمات میں سبق موجود ہے۔ حضرت عمرؓ کے بارے میں تو ہمارے چیف جسٹس صاحب بھی فرماتے ہیں کہ اگر ملک میں کرپشن کو ختم کرنا ہے اور گڈگورننس کا قیام عمل میں لانا ہے تو ہمیں حضرت عمر فاروقؓ کی پیروی کرنا ہوگی اور ان کے طرز حکومت کو اپنانا ہوگا۔ جبکہ حضرت حسنؓ کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ امت کی وحدت کے لیے بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے اور مسلمانوں میں اتحاد کے لیے ہر وقت محنت کرنی چاہیے۔ اسی طرح سیدنا حضرت حسینؓ کی قربانی اور شہادت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ظلم و جبر کے خاتمہ اور عدل و انصاف کے قیام کے لیے ٹوٹ جانا ہی اہل حق کی نشانی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کے درجات بلند سے بلند فرمائیں اور ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter