روزنامہ جنگ لاہور نے ۱۶ مارچ ۲۰۰۲ء کو وائس آف امریکہ کے حوالے سے خبر دی ہے کہ
’’امریکہ کے سیاہ فام مسلمانوں کے دو گروہوں میں اتحاد ہو گیا ہے اور ’’نیشن آف اسلام‘‘ کے لیڈر لوئیس فرخان نے ’’مسلم سوسائٹی آف امریکہ‘‘ کے لیڈر ویلس دین محمد کو اپنے سالانہ اجلاس میں دعوت دے کر اور انہیں جمعہ کی نماز کا امام بنا کر مسلمانوں کے سوادِ اعظم میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔‘‘
لوئیس فرخان امریکہ کے ایک سیاہ فام مدعئ نبوت ایلیج محمد کا جانشین ہے اور نیشن آف اسلام کے نام سے اس گروپ کی قیادت کر رہا ہے جس کا عقیدہ یہ چلا آ رہا ہے کہ ماسٹر فارد محمد نامی ایک شخص، جو ۱۹۳۰ء کے دوران امریکہ میں کالوں کی راہنمائی کے دعویٰ کے ساتھ نمودار ہوا تھا (نعوذ باللہ) وہ اصل میں خود اللہ تعالیٰ تھا جو چار سال تک امریکہ میں ماسٹر فارد محمد کی شکل میں رہا اور اس کے بعد ایلیج محمد کو اپنا نبی بنا کر واپس چلا گیا۔ اس گروہ کے عقیدہ کے مطابق الیج محمد پیغمبر اور نبی تھا اور اب دنیا کی نجات اس کے عقائد اور تعلیمات کی پیروی میں ہے۔
ویلس دین محمد اسی ایلیج محمد کے فرزند ہیں جو ۱۹۷۵ء میں اپنے باپ کی موت کے بعد اس کے عقائد سے منحرف ہو گئے اور اہل سنت کے عقائد کے مطابق صحیح العقیدہ مسلمانوں کا الگ گروپ قائم کر کے اس کی قیادت کر رہے ہیں۔ اس سے قبل بھی متعدد بار ایسا ہوا ہے کہ لوئیس فرخان نے مسلمانوں کے اجتماعی دھارے میں شامل ہونے کا اعلان کیا لیکن وہ اس اعلان پر زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا اور دوبارہ سابقہ عقائد کی طرف واپس لوٹ گیا۔
۱۹۶۵ء میں الیج محمد کی زندگی میں مالکم شہباز شہیدؒ، عالمی مکہ باز محمد علی، امام سراج وہاج اور لوئیس فرخان نے اکٹھے بغاوت کر کے صحیح العقیدہ مسلمانوں کا الگ گروپ بنایا تھا، جس کے بعد مالکم شہباز شہیدؒ کو ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے گولی مار دی گئی تھی۔ محمد علی کلے اور امام سراج وہاج بدستور صحیح العقیدہ اہلسنت شافعی المذہب مسلمان ہیں۔ جبکہ ۱۹۷۵ء میں الیج محمد کی وفات کے بعد جب اس کے فرزند ویلس دین محمد نے اسلام کے صحیح عقائد قبول کرنے کے بعد اعلان کیا تو لوئیس فرخان الٹی زقند لگا کر سابقہ گروپ میں واپس چلا گیا اور اس گروہ کی قیادت سنبھال لی جو بدستور فارد محمد کو خدا اور الیج محمد کو رسول تسلیم کرتا ہے۔
اس کے بعد ۱۹۹۰ء میں رابطہ عالم اسلام کی کوشش سے ان دونوں گروپوں میں اتحاد کا فیصلہ ہوا اور اس کا اعلان شکاگو کی ایک کانفرنس میں کیا گیا، جس میں امام حرم الشیخ علی حذیفی بطور مہمان خصوصی شریک تھے۔ لیکن اس کے بعد بھی لوئیس فرخان کے سرکار آرگن ’’دی فائنل کال‘‘ میں مسلسل سابقہ عقائد کے ساتھ وابستگی کا اعلان ہوتا رہا اور اسے ایلیج کے جانشین اور نمائندہ کے طور پر پیش کیا جاتا رہا۔
اب یہ تیسرا موقع ہے کہ لوئیس فرخان کی طرف سے اسلام کے صحیح عقائد اور مسلمانوں کے سوادِ اعظم کی طرف واپسی کا اعلان سامنے آیا ہے۔ خدا کرے کہ یہ اعلان درست ہو اور آخری ہو۔ ’’نیشن آف اسلام‘‘ امریکہ کے سیاہ فاموں میں مسلمان کہلانے والا سب سے بڑا گروپ ہے لیکن اپنے ملحدانہ عقائد اور عقیدۂ ختمِ نبوت سے انحراف کے باعث امریکہ کے باقی مسلمانوں کے ساتھ اس کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔ اگر وائس آف امریکہ کی یہ خبر درست ہے اور لوئیس فرخان اپنے اس اعلان میں سنجیدہ ہے تو ہمارے نزدیک یہ اس دور کی سب سے بڑی خوشخبری ہے جس سے امریکی مسلمانوں کو قوت اور اتحاد نصیب ہو گا اور وہ پورے اعتماد اور نظم و تدبر کے ساتھ امریکہ میں بیٹھ کر عالمِ اسلام کے مفادات و جذبات کی ترجمانی کر سکیں گے، خدا کرے کہ ایسا ہی ہو، آمین یا رب العالمین۔