مولانا عبد اللطیف انورؒ کی رحلت

   
۲۶ اکتوبر ۲۰۱۵ء

شاہکوٹ کے مولانا عبد اللطیف انور گزشتہ دنوں انتقال کر گئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ دینی و مسلکی کارکنوں کی موجودہ کھیپ شاید اس نام سے اتنی مانوس نہ ہو، مگر دو عشرے قبل کے تحریکی ماحول میں یہ ایک متحرک اور جاندار کردار کا نام تھا۔ شیرانوالہ لاہور اور جمعیت علماء اسلام کے ساتھ گہری عقیدت اور بے لچک وابستگی رکھنے والے مولانا عبد اللطیف انورؒ کا نام سامنے آتے ہی نگاہوں کے سامنے ایک بے چین اور مضطرب شخص کا پیکر گھوم جاتا ہے، جو ملک میں نفاذ شریعت، تحفظ ختم نبوت، تحفظ ناموس صحابہؓ اور مسلک علماء دیوبند کی ترجمانی و پاسداری کے لیے نہ صرف فکرمند رہتا تھا بلکہ ہر وقت متحرک رہنا اور اپنے مشن کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہ کرنا اس کے مزاج کا حصہ بن گیا تھا۔

مولانا عبد اللطیف انورؒ شاہکوٹ کی ایک مسجد کے خطیب تھے اور ایک عرصہ تک جمعیت علماء اسلام ضلع شیخوپورہ کے امیر رہے۔ شاہکوٹ اب نئے بننے والے ضلع ننکانہ صاحب کا حصہ ہے۔ مسجد کے ساتھ جامعہ اشرفیہ کے نام سے ایک دینی درسگاہ بھی ہے، یہ مسجد اور درسگاہ اس پورے علاقہ میں دینی اور مسلکی سرگرمیوں کا مرکز سمجھی جاتی ہے اور اس کی وجہ مولانا مرحوم کی شبانہ روز محنت اور ان کا عزم و استقلال ہے۔

مری ضلع راولپنڈی کے معروف بزرگ حضرت حافظ غلام محمد جالندھریؒ مولانا عبد اللطیف انورؒ کے خسر بزرگوار تھے اور ان کا نکاح جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں ہوا تھا، جس کے گواہوں میں میرا نام بھی شمار ہوتا ہے۔ عم مکرم مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ نے جمعۃ المبارک کے اجتماع میں حضرت حافظ غلام محمد جالندھریؒ کی تشریف آوری کا ذکر کیا اور ان کی یہ خواہش بیان کی کہ ان کی بیٹی کا نکاح جامع مسجد نور مدرسہ نصرۃ العلوم میں ہو اور نکاح حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی پڑھائیں۔

ان دنوں صدر محمد ایوب خان مرحوم کے نافذ کردہ عائلی قوانین پر دینی حلقوں میں سخت تنقید ہو رہی تھی اور ان قوانین کے غیر شرعی حصوں پر جاندار نقد کرنے والوں میں حضرت صوفی صاحبؒ سرفہرست ہوا کرتے تھے۔ وہ عام طور پر اپنی مسجد سے باہر کسی جلسے میں تقریر نہیں کیا کرتے تھے، مگر ایک بار شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں جمعیۃ علماء اسلام کا جلسہ تھا اور غالباً حضرت مولانا مفتی محمودؒ نے خطاب کے لیے آنا تھا، جو نہیں آ سکے تھے، حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ نے بحیثیت استاذ حضرت صوفی صاحبؒ سے فرمایا تو انہوں نے اپنے معمول کے خلاف جلسے میں تقریر کی۔ کسی پبلک جلسے کی وہ اکلوتی تقریر اب تک پرانے دوستوں کو یاد ہے۔ عائلی قوانین پر اتنی جاندار تنقید میں نے کسی اور سے نہیں سنی۔

جس جمعے کی میں بات کر رہا ہوں، اس روز بھی ان کا موضوع عائلی قوانین تھا اور اس کی کسی غیر شرعی شق کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ آج ہم اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نکاح پڑھائیں گے۔ شق کی تفصیل مجھے اس وقت مستحضر نہیں ہے، لیکن حضرت صوفی صاحبؒ کے لہجے کی گھن گرج آج بھی کانوں میں گونج رہی ہے۔ حضرت حافظ غلام محمد جالندھریؒ کی بیٹی کا نکاح مولانا عبد اللطیف انورؒ سے ہوا تھا۔

مولانا عبد اللطیف انورؒ دینی و مسلکی محاذ پر متحرک رہنے کے ساتھ ساتھ علاقائی سیاست کا بھی ایک جاندار کردار تھے۔ علاقہ میں ان کی برادری کے خاصے لوگ آباد تھے جو ان کی قوت ہوا کرتے تھے۔ لوکل سیاست سے لے کر قومی انتخابات تک ان کا کردار ہوتا تھا، سماجی خدمات میں پیش پیش رہتے تھے، تھانے کچہری کے کاموں میں ہمیشہ متاثرین اور مظلوموں کے ساتھ ہوتے تھے۔ پنجاب کی سیاست میں کوئی مقام حاصل کرنے کے لیے بنیادی شرط یہی ہوا کرتی ہے اور ہماری دینی جماعتیں اس کی طرف توجہ نہ دینے کی وجہ سے انتخابات میں کوئی پوزیشن حاصل نہیں کر پاتیں۔ ہم مذہبی تعلق اور روحانی وابستگی کے حوالہ سے ووٹ کے طلبگار ہوتے ہیں جو پنجاب کے مزاج کے ہی خلاف ہے۔ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ پنجاب کا عمومی مزاج یہ ہے کہ مولوی کہیں سے آئے یہ اسے قبول کر لیتا ہے، مسجد بنا کر دیتا ہے، مدرسہ بھی بنا دیتا ہے، اس کو چلانے کا خرچہ بھی دیتا ہے، مسلکی محاذ آرائی اور دینی تحریکات میں دست و بازو بھی بن جاتا ہے، حتیٰ کہ رشتہ بھی دے دیتا ہے، مگر ووٹ نہیں دیتا۔ ووٹ صرف اس کو ملتے ہیں جو سماجی خدمت میں اور تھانے کچہری کے کاموں میں پیش پیش ہو، اور بوقت ضرورت لوگوں کے کام آئے۔ مولانا عبد اللطیف انورؒ اس ضرورت اور فن سے آشنا تھے اس لیے علاقائی سیاست میں ان کا نمایاں کردار ہوتا تھا اور بسا اوقات وہ ’’بادشاہ گر‘‘ بھی بن جایا کرتے تھے۔

جمعیۃ علماء اسلام میں ان کے ساتھ میری کئی عشروں تک رفاقت رہی ہے۔ ضلع شیخوپورہ میں ایک دور میں الحاج سید امین گیلانیؒ، مولانا عبد اللطیف انورؒ، مولانا قاری محمد امینؒ، مولانا محمد یعقوب ربانی، مولانا محمد عالمؒ، مولانا عبد الہادیؒ، ڈاکٹر عبد الحق تارڑ اور حاجی شیخ محمد ابراہیمؒ دینی و مسلکی جدوجہد کے سرخیل ہوا کرتے تھے۔ اب اس کھیپ میں سے صرف مولانا محمد یعقوب ربانی حیات ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں سلامت رکھیں اور صحت کاملہ سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

کچھ عرصہ قبل بادشاہی مسجد لاہور کے معاملے میں مسلکی تنازع کھڑا ہوا اور مسجد پر مبینہ طور پر قبضے کی مہم چلی تو اس کی مزاحمت کرنے والوں میں مولانا عبد اللطیف انورؒ سرفہرست تھے۔ وہ اس موقع پر مخالفانہ زد و کوب کا نشانہ بن کر زخمی ہوئے اور پھر پہلے والی کیفیت پر واپس نہ جا سکے، مگر اس کے باوجود ان کے عزم و استقلال، حوصلہ مندی اور سرگرمیوں کا تسلسل جاری رہا۔

۲۲ اکتوبر کو میں فیصل آباد میں تھا، النور ٹرسٹ کے قرآن سنٹر میں سود کے خلاف ایک نشست سے خطاب کیا اور جامعہ اسلامیہ محمدیہ میں اساتذہ اور طلبہ کی نشست میں گفتگو کے بعد پیر حافظ محمد ریاض قادری، محترم میاں محمد افضل اور حافظ محمد بلال کے ہمراہ شاہکوٹ حاضری دی اور مولانا عبد اللطیف انورؒ کے فرزند و جانشین مفتی محمد طیب اور دیگر احباب سے تعزیت کے ساتھ ساتھ مولانا مرحوم کی قبر پر فاتحہ خوانی اور دعا کی سعادت حاصل کی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات جنت میں بلند سے بلند تر فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter