(’’قرآن حکیم اور ہماری زندگی‘‘ کے عنوان سے جمعيۃ اتحاد الطلباء مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے زیرِ اہتمام ایک مجلس مذاکرہ سے خطاب)
قرآن کریم کا ہماری عملی زندگی سے کیا تعلق ہے؟ اس سوال کا جواب دینے سے پیشتر یہ بات جاننا ضروری ہے کہ قرآن حکیم اور ہماری زندگی کی انفرادی طور پر حقیقت کیا ہے اور پھر ان دونوں کے حقائق کے درمیان تعلق کس نوعیت کا ہے؟ اگر ان دونوں کے حقائق لازم ملزوم ہیں تو قرآن حکیم ہماری زندگی کے لیے ضروری ہے اور اگر ان کے حقائق میں تفارق ہے تو قرآن حکیم ہماری زندگی سے متعلق نہیں ہو سکتا۔ تو اس پہلے سوال کا جواب دینے سے قبل ان دونوں کے حقائق کا انفرادی طور پر جائزہ لینا ضروری ہے۔
جہاں تک انسانی زندگی کی حقیقت کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں آج تک جتنی باتیں کہی گئی ہیں کہ یہ ساری کائنات کے کمالات کا مجموعہ ہے۔ جمادات، نباتات اور حیوانات کے تمام تر کمالات کو نچوڑ کر انسان کی تشکیل کی گئی، جمادات کے کمالات جمع ہو کر نباتات میں آئے، نباتات کے کمالات مختلف شکلوں میں حیوانات میں جمع ہو گئے، اور حیوانات نے انسان کی غذا بن کر اس کی تشکیل کا سامان فراہم کر دیا، تو انسان جمادات، نباتات اور حیوانات کے اوصاف و کمالات کا مجموعہ ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی ساتھ اسے ایک ایسے وصف سے متصف کیا گیا جو اسے دوسری تمام مخلوقات سے ممتاز کر دیتا ہے۔ قرآن مقدس نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام کا، جو نسلِ انسانی کا محور و مرکز ہیں، خداوند قدوس و غنی نے فرشتوں سے تقابل کرایا تو اسی وصف کی بدولت حضرت آدم علیہ السلام فرشتوں سے بازی لے گئے۔ اب یہ وصف کیا ہے؟ قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے ’’وعلم آدم الاسماء کلھا‘‘ کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اشیا کے نام سکھائے۔ ’’ثم عرضہم علی الملائكۃ‘‘ پھر ان اشیا کو ملائکہ پر پیش کیا اور کہا کہ ان چیزوں کے نام بتاؤ۔ فرشتے اشیا کے ناموں کو ان کے نفوس پر تطبیق دینے سے عاجز آ گئے، اور اقرار کر لیا کہ ہمیں تو جو علم دیا گیا ہے صرف وہی جانتے ہیں، ہمارا علم جامد ہے، اس سے استخراج و استنباط کرنے کی ہم میں استطاعت نہیں۔ اس کے برعکس آدم علیہ السلام نے جب اشیا کے نفوس کو دیکھا تو وہ اپنے اس وصف یعنی عقلِ سلیم کی بدولت محض اَسما کو سامنے رکھ کر اشیا کے نفوس کو پہچاننے میں کامیاب ہو گئے، اور معلومات کو ترتیب دے کہ مجہولات کا تصور حاصل کر لیا اور فوراً ان اشیا کے نام بتا کر اس امتحان میں کامیاب ہو گئے۔ یہ تو ہے انسانی زندگی کی حقیقت۔
اب قرآن حکیم کی طرف آئیے۔ قرآن کی حقیقت کیا ہے؟ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ قرآن اس دنیا میں جہالت اور گمراہی کو دور کرنے کے لیے آیا ہے۔ جہالت کے مقابلہ میں علم ہے اور گمراہی کے مقابلہ میں ہدایت ہے۔ تو قرآن حکیم کی بنیاد علمِ صحیح ہے۔ اب علمِ صحیح اور عقلِ سلیم کے درمیان کیا تعلق ہے؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہمیں پھر اسی واقعہ کی طرف رجوع کرنا پڑے گا، جس واقعہ کے پیشِ نظر ہم نے عقلِ سلیم کو انسان کی ایک حقیقت قرار دیا تھا۔ عقلِ سلیم کو وہاں آدم علیہ السلام نے کس طرح استعمال کیا اور عقلِ سلیم نے کیا خدمت انجام دی؟ غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو اشیا کے اسما کا جو علم خداوند قدوس و غنی کی طرف سے دیا گیا تھا وہ علمِ صحیح کی پہلی کڑی تھی جو حضرت خداوند جل مجدہ کی طرف سے انسان کو دیا جانے والا تھا۔ آدم علیہ السلام نے اس علمِ صحیح کو بنیاد بنا کر عقلِ سلیم کی روشنی میں اشیا کے نفوس کا علم حاصل کر لیا جو ان کے لیے مجہول تھا، تو عقلِ سلیم کا کام ہے معلومات سے مجہولات کا استخراج و استنباط کرنا۔ اس صورت میں ان کے درمیان رابطہ تلازم کا ہوگا، کیونکہ بنیاد علمِ صحیح ہے، اگر یہ نہ ہو تو عقلِ سلیم کا کوئی مصرف نہیں رہتا۔ کیونکہ جب معلومات ہی نہ ہوں گے تو مجہولات کا تصور کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟ اور عقلِ سلیم علم کے لیے ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر علم جامد ہو کر جاتا ہے، اور انسان کے علم میں اور فرشتوں کے علم میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا جو ہر حال میں ضروری ہے۔ جب یہ دونوں آپس میں لازم ملزوم ہیں تو اس کا لازمی اور ضروری نتیجہ یہ ہے کہ انسان اور قرآن آپس میں لازم ملزوم ہیں۔
اسلام نے عقل کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے اور قرآن ہی وہ واحد کتاب ہے جس میں عقل کے صحیح مقام کی وضاحت موجود ہے، لیکن قرآن کو بنیاد بنا کر ہی انسان زندگی کو کامیاب بنا سکتا ہے۔ قرآن کو چھوڑ کر عقل خواہ کتنی ہی ترقی کر جائے وہ بہرحال ضلالت اور گمراہی ہوگی، ہدایت نہیں ہو سکتی۔ تو قرآن کا تعلق ہماری زندگی سے صرف راہنما کا ہی نہیں، بلکہ وہ ہمارے ہر شعبۂ زندگی کے لیے لازم کی حیثیت رکھتا ہے، اور اس کے بغیر ہم باقی کائنات سے ہمارا امتیاز کرنے والے وصفِ ممتاز کو برقرار نہیں رکھ سکتے۔ اور وصفِ امتیازی کو گم کر کے ہم ذہنی اور فکری موت کا شکار ہیں۔ اس موت کی وادی سے نکلنے کا راستہ صرف قرآن حکیم کی واضح اور محکم آیات اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ ہی میں مل سکتا ہے، وما علینا الا البلاغ۔