گلگت، بلتستان کا مسئلہ اور پاکستانی حکمران

   
۱۱ فروری ۲۰۱۳ء

آزاد جموں و کشمیر کی طرح گلگت بلتستان کے عوام نے بھی ہندو راجہ کے خلاف آزادی کی جنگ لڑ کر گلو خلاصی کرائی تھی اور بین الاقوامی نقشوں میں ریاست جموں و کشمیر کے متنازع علاقے کے نقشے میں شامل ہونے کے باوجود معاہدۂ کراچی کے تحت اس کا انتظام حکومت پاکستان نے اس خطے کے مستقبل کا فیصلہ ہونے تک عارضی طور پر سنبھال لیا تھا، اس لیے کہ آزاد جموں و کشمیر کی نئی ریاست کے ساتھ مواصلاتی رابطے بہت کم ہونے کی وجہ سے دونوں کا ایک نظام کے طور پر چلانا مشکل دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن یہ بات طے تھی کہ دونوں خطے ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہیں اور جب تک اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس خطے کے عوام آزادانہ حق خود ارادیت کے ذریعے اپنے مستقبل کا خود فیصلہ نہیں کرتے، ان کا انتظامی کنٹرول حکومت پاکستان کے پاس رہے گا۔

بعد میں آزاد جموں و کشمیر کی ریاست کو عبوری آئین کے تحت ایک جمہوری نظام دے دیا گیا، مگر گلگت بلتستان کو محض انتظامی احکام کے تحت چلایا جاتا رہا، حتیٰ کہ اس علاقے میں بھی شہری اور جمہوری حقوق کی آواز اٹھی اور حکومت پاکستان نے ایک انتظامی حکم کے تحت گلگت بلتستان کو صوبائی درجہ دے کر وہاں صوبائی اسمبلی اور حکومت کا اہتمام کر دیا، جو ابھی تک جاری ہے۔ لیکن اس پر بعض حلقوں کے تحفظات ہیں، جو اس خطے کی مخصوص جغرافیائی صورت حال کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے عالمی تناظر اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے پس منظر میں بھی سنجیدگی کے ساتھ قابلِ توجہ ہیں۔

جب گلگت بلتستان کو ایگزیکٹو آرڈر کے تحت صوبائی حیثیت دی گئی تو ہم نے بھی یہ عرض کیا تھا کہ بعض آئینی پیچیدگیوں کے علاوہ مسئلہ کشمیر کے تنازعے کے تناظر میں بھی یہ فیصلہ درست نہیں ہے، کیونکہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنانے کا مطلب انڈیا کو یہ جواز فراہم کرنا ہے کہ وہ بھی متنازعہ علاقے کے کسی حصے کو دستوری طور پر اپنے ملک کا حصہ قرار دے دے۔ گلگت بلتستان کے عوام کو جمہوری اور شہری حقوق سے بہرہ ور کرنا ضروری ہے، لیکن اسے پاکستان کا باقاعدہ حصہ بنانے کی بجائے متنازعہ علاقے کے طور پر آزاد جموں و کشمیر کے ساتھ کوئی مشترکہ نظام دیا جائے۔

اس سلسلے میں دونوں علاقوں کے ذمہ دار سیاسی و مذہبی رہنماؤں کا ایک مشترکہ موقف پیش خدمت ہے۔ ہمارے خیال میں حکومت پاکستان اور سیاسی جماعتوں کو اس کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے۔

آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کوآرڈی نیشن کمیٹی کے اہم نکات:

۱۸۴۷ء میں جب معاہدہ امرتسر ہوا اور برطانوی ہند نے ریاست جموں و کشمیر کو مہاراجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ فروخت کیا تو ریاست جموں و کشمیر میں گلگت بلتستان شامل تھا۔ استور اور بلتستان کو مہاراجہ کے کنٹرول میں رکھا گیا، جبکہ گلگت اور ملحقہ ریاستوں کا دفاعی کنٹرول اپنے پاس رکھا اور انتظامی امور مہاراجہ کے گورنر گھنسارا سنگھ کے حوالے کر دیے گئے۔

برصغیر کی تقسیم جس فارمولے کے تحت پایہ تکمیل تک پہنچنا تھی، اس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو، جو مسلم اکثریتی ریاست تھی، پاکستان کا حصہ ہونا چاہیے تھا، لیکن ہندو مہاشے نے مختلف حیلوں بہانوں سے مہاراجہ سے ساز باز کر کے ریاست کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی جموں و کشمیر کے بیشتر علاقوں میں آزادی کی تحریک شروع ہو چکی تھی۔ مجاہدین آزادی نے گلگت بلتستان اور موجودہ آزاد کشمیر سے ڈوگرہ افواج کو مار بھگایا۔ مجاہدین ایک کے بعد دوسرے علاقے کو فتح کرتے ہوئے سری نگر کی دہلیز تک پہنچے۔ بھارت نے اس صورت حال سے گھبرا کر اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا، جس کے نتیجے میں سیز فائر ہوا اور مجاہدین آزادی کو واپس بلا لیا گیا۔ یوں ریاست جموں و کشمیر ایک متنازعہ مسئلے کے طور پر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر آگئی۔

پاکستان نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں پوری ریاست جموں و کشمیر کو، جس میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان شامل ہیں، بھارت اور پاکستان کے مابین ایک متنازعہ علاقے کی حیثیت دے رکھی ہے۔ لیکن بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے انحراف کرتے ہوئے بعد میں مقبوضہ کشمیر کو اپنا حصہ بنا لیا اور کشمیریوں کو بین الاقوامی فورم پر تسلیم شدہ حق خود ارادیت دینے سے انکاری ہے۔ آزادی کے بعد آزاد کشمیر کی لیڈر شپ نے انتظامی دشواریوں کے باعث گلگت بلتستان کو عارضی طور پر معاہدہ کراچی کے ذریعے پاکستان کے سپرد کیا۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کی حکومتیں گزشتہ پینسٹھ سالوں سے گلگت بلتستان میں کوئی قابلِ قبول آئینی جمہوری نظام تشکیل دینے میں ناکام ہو چکی ہیں اور بیورو کریسی کی ”لڑاؤ اور حکومت کرو“ کی پالیسی نے وہاں مختلف طبقات اور گروہوں کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا۔ سیاسی اور جمہوری روایات مفقود ہوئیں۔

پاکستان میں بعض سیاسی حکومتوں کے ادوار میں گلگت بلتستان میں اصلاحاتی پیکیج دیے گئے، لیکن ایک کے بعد دوسرے پیکیج کی ناکامی نے گلگت بلتستان کو ایک جانب اہل کشمیر اور مسئلہ کشمیر سے دور رکھا تو دوسری جانب انتظامی اور ترقیاتی منصوبے قلیل بجٹ کے باعث وسیع و عریض علاقے کو جدید ترقی سے ہم آہنگ نہ کر سکے۔ چنانچہ پاکستان کو اپنی منزل اور مقبوضہ کشمیر کی آزادی کو اپنا اولین فریضہ قرار دینے والے محب وطن گلگت بلتستان کے عوام کی عظیم اکثریت نے یہ فیصلہ کیا کہ پاکستان کی سا لمیت اور مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا یہ تقاضا ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو، جو ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہیں، باہم مربوط ہو کر ایک پلیٹ فارم تشکیل دینا ہوگا۔ لہٰذا تنظیم اہل سنت گلگت بلتستان و کوہستان، دیامر قومی جرگہ جس میں تمام جماعتوں کی نمائندگی ہے اور گلگت بلتستان کے طول و عرض میں موجود پاکستان اور کشمیر سے محبت رکھنے والے عمائدین و علمائے کرام نے ایک مشترکہ وفد کی صورت میں آزاد کشمیر کے تمام سیاسی قائدین سے انفرادی اور اجتماعی ملاقاتیں کیں۔

دونوں طرف سے قائدین پر مشتمل ایک مشاورتی اجلاس ۷ جنوری ۲۰۱۳ء کو اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ جس میں درج ذیل نکات پر مکمل اتفاق کرتے ہوئے اعلامیہ جاری کیا گیا:

  • آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کی قیادت نے اپنے ایک مشاورتی اجلاس میں تحریک آزادئ کشمیر کی تقویت اور پاکستان کی سلامتی کے لیے ریاست کے دونوں آزاد حصوں کے ایک مشترکہ آئینی اور انتظامی ڈھانچے کی تشکیل پر اتفاق کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ ریاست کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی ہر سازش کا بھرپور مقابلہ کیا جائے گا۔
  • اجلاس میں آزاد جموں و کشمیر کے عبوری آئین اور گلگت بلتستان کے موجودہ انتظامی بندوبست کو بھی کشمیریوں کی وحدت کے مغائر قرار دیا اور گلگت بلتستان میں مسلسل بد امنی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وہاں موجودہ پیکیج گورننس آرڈر ۲۰۰۹ء کے تحت قائم ہونے والے نظام کی ناکامی قرار دیا، جو مذہبی و سیاسی تنظیموں اور کشمیری قیادت کی تجاویز کو نظر انداز کرتے ہوئے وہاں مسلط کیا گیا۔
  • گلگت بلتستان کی سٹریٹیجک اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے وہاں فی الفور ایک ایسا آئینی اور جمہوری انتظام کیا جائے جسے تمام سیاسی جماعتوں اور مکاتب فکر کا اعتماد حاصل ہو اور خطے کے تاریخی پس منظر کی روشنی میں آزاد جموں و کشمیر کے ساتھ آئینی اور انتظامی لحاظ سے مربوط ہو، تاکہ ریاست کے دونوں حصے تحریک آزادی کشمیر کے لیے بیس کیمپ کا کردار ادا کر سکیں اور اندرونی و بیرونی دشمنوں کے عزائم ناکام ہو سکیں۔
  • اجلاس نے مندرجہ بالا نکات پر مشتمل امور کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ایک مشترکہ کوآرڈی نیشن (Co-ordination) کمیٹی بنانے پر اتفاق کیا۔ جس میں آزاد کشمیر کے تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین اور گلگت بلتستان سے آئے ہوئے جرگہ کے ممبران اور علمائے کرام و زعماء شامل ہیں۔
  • اجلاس نے متفقہ طور پر سردار محمد انور خان سابق صدر آزاد کشمیر کو کوآرڈی نیشن کمیٹی کا صدر اور مشتاق احمد ایڈووکیٹ نائب امیر جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر کو سیکرٹری نامزد کیا۔
   
2016ء سے
Flag Counter