۱۹۷۴ء میں جب پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی دستوری ترمیم منظور کی، تو اس کے ساتھ طے پایا کہ قادیانیوں کا شمار ووٹروں کی فہرستوں میں غیر مسلموں کے خانے میں ہو گا۔ اور اس مقصد کے لیے مسلمان ووٹروں کے لیے ’’عقیدۂ ختم نبوت کا حلف نامہ‘‘ ووٹر فارم میں شامل کیا گیا جسے پُر کرنے کے بعد کسی کا نام مسلمان ووٹروں کی فہرست میں درج ہو سکتا تھا۔ قادیانی چونکہ پارلیمنٹ کے فیصلہ کو تسلیم کرنے اور دستوری طور پر غیر مسلم اقلیت کی حیثیت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، اس لیے انہوں نے حلف نامہ پُر کرنے پر بصورت دیگر غیر مسلموں کے خانے میں ووٹر کی حیثیت سے نام درج کرانے سے انکار کر دیا۔ اور ووٹروں کے اندراج اور اس کے بعد جداگانہ الیکشن کا بھی بائیکاٹ کر دیا جو گزشتہ ربع صدی سے بدستور جاری ہے۔
مگر موجودہ حکومت نے اپریل ۲۰۰۲ء کے دوران نئے ووٹروں کا اندراج شروع کیا تو مسلم ووٹروں کے لیے عقیدۂ ختمX نبوت کا حلف نامہ پُر کرنے کی شرط ختم کر دی اور حلف نامہ فارم سے حذف کر دیا۔ جس سے قادیانیوں کے لیے مسلم ووٹروں کی حیثیت سے اپنے ناموں کا اندراج کرانے کی راہ ہموار ہو گئی۔ اسی وجہ سے اس دفعہ قادیانیوں نے پورے ملک میں اہتمام کے ساتھ نہ صرف اپنے ووٹ درج کرائے ہیں، بلکہ بعض حلقوں میں قادیانی امیدوار الیکشن لڑنے کی تیاری بھی کر رہے ہیں۔
یہ صورتحال دینی حلقوں کے لیے سخت تشویش و اضطراب کا باعث بنی ہوئی ہے۔ چنانچہ عالمی مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت کی دعوت پر لاہور میں تمام دینی مکاتبِ فکر کا ایک مشترکہ اجلاس منعقد ہوا، جس میں مخلوط طرزِ انتخابات رائج کرنے اور ووٹر فارم میں عقیدۂ ختمِ نبوت کا حلف نامہ ختم کرنے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس سے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا دستوری فیصلہ عملاً غیر مؤثر ہو گیا ہے، اور سرکاری ریکارڈ میں مسلمانوں اور قادیانیوں میں کوئی فرق باقی نہیں رہا۔ چنانچہ اس اجلاس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ یہ دونوں فیصلے فی الفور واپس لیے جائیں۔ اور اس کے ساتھ ہی اس مسئلہ پر تمام دینی جماعتوں کا سربراہی اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ اس سلسلہ میں رائے عامہ کو منظم کرنے اور حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے منظم پروگرام طے کیا جا سکے۔
حکومت کی طرف سے بار بار یہ اعلان کیا جا رہا ہے کہ دستور کی اسلامی دفعات سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا، اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے ظفر علی شاہ کیس میں اپنے فیصلے کے ذریعے حکومت کو اس بات کا پابند بھی کر رکھا ہے کہ وہ دستور کی اسلامی دفعات کو تبدیل نہیں کرے گی، لیکن اس کے باوجود ایسے اقدامات سامنے آ رہے ہیں جن کا مقصد دستورِ پاکستان کی اسلامی دفعات کو غیر مؤثر بنانے کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
اس لیے ہم حکومت سے گزارش کریں گے کہ وہ اپنے اعلانات اور عدالتِ عظمیٰ کے فیصلہ کی پاسداری کرتے ہوئے ایسے اقدامات سے گریز کرے جن سے دستور کی اسلامی دفعات اور پاکستان کی نظریاتی حیثیت پر زد پڑتی ہو۔ اور اس کا یہ بھی تقاضہ ہے کہ مخلوط انتخاب کا اعلان واپس لیا جائے اور ووٹر فارم میں عقیدۂ ختمِ نبوت کا حلف نامہ حسبِ سابق بحال کیا جائے، تاکہ ملک میں اسلامی تشخص اور دستور کی اسلامی دفعات کے بارے میں دینی حلقوں میں پائی جانے والی بلکہ مسلسل بڑھنے والی بے چینی کا خاتمہ ہو سکے۔