مکالمہ بین المذاہب: اہداف اور دائرے

   
تاریخ: 
۱۳ مئی ۲۰۰۷ء

۱۳ مئی ۲۰۰۷ء کو مرکزی جامع مسجد گلاسگو برطانیہ میں ظہر کی نماز کے بعد ایک اجتماع سے ’’مکالمہ بین المذاہب‘‘ کے عنوان پر خطاب کا موقع ملا۔ اس موقع پر کی گئی گزارشات کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ’’مکالمہ بین المذاہب‘‘ آج کے اہم عالمی موضوعات میں سے ہے جس پر دنیا بھر میں گفتگو کا سلسلہ جاری ہے اور ہر سطح پر اس کی اہمیت پر زور دیا جا رہا ہے۔ برطانیہ کے وزیراعظم جناب ٹونی بلیئر کے حوالے سے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ وہ ۲۷ جون ۲۰۰۷ء کو وزارت عظمیٰ سے سبکدوش ہونے کے بعد انٹرفیتھ ڈائیلاگ یعنی بین المذاہب مکالمہ کے لیے ایک باقاعدہ ادارہ قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ اس سلسلہ میں عالمی سطح پر سنجیدگی کے ساتھ کوئی فورم یا ادارہ کام نہیں کر رہا اس لیے وہ اس کام کے لیے پروگرام بنا رہے ہیں۔ اس سے آپ اس موضوع کی اہمیت کا اندازہ کر سکتے ہیں، اسی وجہ سے میں نے آج کی گفتگو کے لیے اس عنوان کا انتخاب کیا ہے۔

مختصر وقت میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ مکالمہ بین المذاہب سے مراد کیا ہے؟ اس کا دائرہ کار کیا ہے؟ اور معروضی صورتحال میں اس کے تقاضے کیا ہیں؟ مکالمہ بین المذاہب کا سادہ سا مفہوم یہ ہے کہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے حضرات مذہب کے حوالے سے آپس میں گفتگو کریں، اور آج کے دور میں اس کا سب سے بڑا مقصد بین الاقوامی ماحول میں مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان مفاہمت اور رواداری کو فروغ دینا بیان کیا جاتا ہے۔ اس مکالمے کے مختلف درجات اور دائرے ہیں، میں ان کا ترتیب وار تعارف کرانا چاہوں گا۔

  1. اسلامی نقطۂ نظر سے اس کا پہلا دائرہ یہ ہے کہ مسلمان غیر مسلموں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں، ان تک جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچائیں اور اسلام کی دعوت کو تمام غیر مسلموں تک عام کرنے کی کوشش کریں۔ کسی مسلمان کا کسی غیر مسلم تک قرآن کریم کا پیغام پہنچانا اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعارف کرا کے اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دینا اسلامی تعلیمات کی رو سے دنیا بھر کے تمام غیر مسلم انسانوں کا مسلمانوں پر حق ہے اور دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کا دینی فریضہ ہے۔ اس وقت دنیا کی آبادی چھ سات ارب کے لگ بھگ بیان کی جاتی ہے جن میں ڈیڑھ ارب کے قریب مسلمان ہیں، باقی ساڑھے چار یا پونے پانچ ارب انسانوں تک اسلام کی دعوت پہنچانا اور انہیں قرآن کریم اور جناب نبی کریمؐ کے ساتھ وابستہ ہونے کی دعوت دینا ہمارا دینی فریضہ بھی ہے اور اخلاقی ذمہ داری بھی ہے کہ جب ہم اپنے عقیدے کی رو سے یہ یقین رکھتے ہیں کہ نسل انسانی کی دنیوی اور اخروی کامیابی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے وابستہ ہونے میں ہے اور اس کے بغیر اس کے لیے ہلاکت اور بربادی ہے تو سب لوگوں کو اس سے بچانا اور گمراہی سے نکالنے کی کوشش کرنا ہماری ذمہ داری میں شامل ہو جاتا ہے۔ ورنہ میں اگر ایک شخص کو ہلاک ہوتا دیکھ رہا ہوں اور یہ سمجھتا ہوں کہ میں اسے اس ہلاکت سے نکال سکتا ہوں لیکن اس کے باوجود یہ کوشش نہیں کرتا تو اس کی ہلاکت کا میں بھی ذمہ دار قرار پاتا ہوں اور خود کو اس ذمہ داری سے بری الذمہ کرنا میرے لیے مشکل ہو گا۔ یہ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ مذہب کے حوالے سے ہماری گفتگو کا پہلا دائرہ ہے۔ اگرچہ اسے یکطرفہ مکالمہ شمار کیا جائے گا لیکن بہرحال یہ اسی نوعیت کی بات ہے اس لیے میں اسے مکالمہ بین المذاہب کا پہلا درجہ تصور کرتا ہوں۔
  2. مکالمہ بین المذاہب کا دوسرا دائرہ یا درجہ یہ ہے کہ جہاں مختلف مذاہب کے پیروکار ایک سوسائٹی کے طور پر مشترک زندگی بسر کر رہے ہوں اور انہوں نے اکٹھے ہی رہنا ہے تو وہ اپنے اپنے مذہب کے دائرے میں رہتے ہوئے اکٹھے رہنے کے امکانات اور وسعتوں پر باہم گفتگو کریں کہ وہ کن معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ چل سکتے ہیں اور کہاں کہاں گنجائش پیدا کر سکتے ہیں۔ اور جہاں وہ ایک دوسرے کے ساتھ اپنے مذہبی عقائد و احکام کی رو سے تعاون نہیں کر سکتے اور اکٹھے نہیں چل سکتے وہاں وہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور تصادم سے بچنے کے لیے کیا راستہ نکال سکتے ہیں؟ یہ مکالمہ بین المذاہب کا دوسرا دائرہ ہے اور میرا خیال ہے کہ اس وقت دنیا میں اس موضوع پر گفتگو کا جو دائرہ روز بروز وسیع ہو رہا ہے اس کے اہداف میں سے ایک بڑا ہدف یہ بھی ہے۔ بلکہ خود برطانیہ میں جہاں کھڑے ہو کر میں یہ بات کر رہا ہوں اسی قسم کا ماحول پایا جاتا ہے۔
  3. مکالمہ بین المذاہب کا تیسرا دائرہ یہ ہے کہ مختلف مذاہب کے افراد سوسائٹی میں مذاہب کی مشترکہ باتوں کے فروغ کے لیے مل کر محنت کریں اور مشترکہ امور کے لیے مشترکہ جدوجہد کے راستے تلاش کریں۔ میں ایک ذاتی مثال کے ذریعے واضح کرنا چاہوں گا کہ برطانیہ کے شہر نوٹنگھم اور امریکہ کے شہر اٹلانٹا میں مختلف اوقات میں میری دو مسیحی پادریوں سے گفتگو ہوئی، میں نے ان سے عرض کیا کہ اس وقت دنیا میں زنا، فحاشی، ہم جنس پرستی اور عریانی کو فروغ دیا جا رہا ہے اور پوری انسانی سوسائٹی اس کی لپیٹ میں آ رہی ہے۔ جبکہ قرآن کریم اور بائیبل دونوں کے نزدیک یہ امور جرائم میں شمار ہوتے ہیں اور اسلامی و مسیحی تعلیمات دونوں کی رو سے یہ گناہ کے اعمال ہیں، تو کیا مسلم اور مسیحی علماء مل کر اس شر اور گناہ سے سوسائٹی کو پاک کرنے کے لیے جدوجہد نہیں کر سکتے؟ اسی طرح اور بھی بہت سے معاملات ہیں جو قرآن کریم اور بائبل دونوں کے نزدیک جرائم ہیں، گناہ کے اعمال ہیں اور سوسائٹی کی تباہی کے اسباب ہیں لیکن ان کا دائرہ مسلسل پھیلتا جا رہا ہے۔ تو کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ آسمانی تعلیمات پر یقین رکھنے والے مختلف مذاہب کے علماء ان مشترکہ امور کے لیے مل جل کر محنت کریں؟ یہ تیسرا دائرہ میرے نزدیک مکالمہ بین المذاہب کے ایجنڈے میں شامل ہو سکتا ہے اور آج کے معروضی حالات میں یہ انسانی سوسائٹی کی ضرورت بھی ہے۔
  4. مکالمہ بین المذاہب کا چوتھا دائرہ یا درجہ یہ ہے کہ مختلف مذاہب کے پیروکار اپنے اپنے مذہب کو حق اور صحیح ثابت کرنے کے لیے باہم گفتگو کریں، اپنے دلائل دیں، دوسروں کے دلائل کا جواب دیں اور دلیل و منطق کے ساتھ اپنے مذہب کی حقانیت اور برتری دوسروں پر ثابت کرنے کی کوشش کریں۔ یہ مناظرے کا میدان ہے اور اسے قرآن کریم نے مجادلہ قرار دے کر ہدایت کی ہے کہ اگر اس کی نوبت آ جائے تو اسے احسن طریقے سے انجام دو۔ اتفاق کی بات ہے کہ ہمارے ہاں مکالمہ بین المذاہب کا یہی دائرہ زیادہ تر متعارف ہے اور ہم چودہ سو سال سے اسی میدان میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہے ہیں۔ یہ بھی مکالمہ بین المذاہب تصور کیا جاتا ہے جبکہ مکالمے کے دوسرے شعبوں اور دائروں سے ہم عام طور پر متعارف نہیں ہیں۔
  5. مکالمہ بین المذاہب کا ایک اور دائرہ بھی ہے، وہ یہ کہ تمام مذاہب کو اپنی اپنی جگہ صحیح قرار دیتے ہوئے مبینہ طور پر ان کی اچھائیوں اور خوبیوں کو ایک مشترکہ مذہب کے طور پر سمو لیا جائے، اور اس طرح ایسا کرنے والوں کے خیال میں تمام مذاہب کی اچھائیوں کو جمع کر لیا جائے تو اسے ’’اتحاد بین المذاہب‘‘ کا عنوان دیا جاتا ہے اور یہ آج عالمی سطح پر منعقد ہونے والی بہت سی بین المذاہب کانفرنسوں کا ایجنڈا اور ہدف ہے۔ اس سے قبل بھی اس طرح کی کوششیں ہوتی رہی ہیں، مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے ’’دین الٰہی‘‘ کے نام سے جو نیا دین ایجاد کیا تھا اس کے پس منظر میں یہی ذہن کارفرما تھا، اور ’’بہائی مذہب‘‘ کے پیروکار بھی اپنے نئے مذہب کا یہی بنیادی سبب بیان کرتے ہیں۔ بہائیوں کا کہنا ہے کہ ان کے مذہب کے بانی مرزا بہاء اللہ شیرازی تمام آسمانی مذاہب کی اچھائیوں اور سچائیوں کو اسی طرح جمع کرنے والے ہیں جیسے مختلف پہاڑی علاقوں سے نکلنے والی ندیاں اور نالے دریا میں جا کر ایک ہو جاتی ہیں۔

    غالباً سترہ اٹھارہ برس پہلے کی بات ہے کہ حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ اور میں نے شکاگو میں بہائیوں کا ایک مذہبی مرکز دیکھا جہاں ایک بڑے ہال میں مسلمانوں کی مسجد، ہندوؤں کے مندر، سکھوں کے گوردوارے، مسیحیوں کے چرچ، یہودیوں کے سینیگاگ اور دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے لیے الگ الگ علامتی عبادت گاہیں بنی ہوئی تھیں۔ اس مرکز کے منتظمین کا کہنا تھا کہ ہم ایک ہی چھت کے نیچے تمام مذاہب کے لوگوں کو اپنے اپنے طریقے کے مطابق عبادت کرنے کی سہولت فراہم کرتے ہیں اور یہ بات ان کے نزدیک ’’اتحاد بین المذاہب‘‘ علامت تھی۔ اس قسم کی کوشش ’’مکالمہ بین المذاہب‘‘ کے حوالے سے آج کے عالمی ایجنڈے کا بھی ایک اہم حصہ ہے لیکن چونکہ یہ غیر فطری بات ہے اس لیے نہ پہلے کبھی کامیاب ہوئی ہے اور نہ ہی اب کامیاب ہو سکتی ہے۔ غیر فطری اس لیے ہے کہ یہ متضاد باتوں کو جمع کرنے کی کوشش ہے مثلاً توحید اور شرک ایک دوسرے کی ضد ہیں جو کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے اور ان دونوں کو ایک چھت کے نیچے جمع کرنا قطعی طور پر ایک بے جا تکلف اور غیر ضروری کوشش ہے۔

یہ چند دائرے اور درجے ہیں جو مکالمہ بین المذاہب کی بات کرتے ہوئے اس کی عملی صورتوں کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ لیکن آج کے عالمی تناظر میں اس کے ایک اور اہم پہلو کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں جو مکالمہ بین المذاہب کی آج کی کی عالمی کوششوں کا میرے نزدیک سب سے بڑا مقصد اور ہدف ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ بین المذاہب مکالمہ اور انٹرفیتھ ڈائیلاگ کا ایک بڑا مقصد یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس کے ذریعے مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان رواداری، مفاہمت اور برداشت کو فروغ دے کر انتہاپسندی کو ختم کرنا مقصود ہے۔ یہ بظاہر ایک خوبصورت مقصد ہے لیکن انتہاپسندی ختم کر کے باہمی برداشت کا ماحول پیدا کرنے کی عملی شکل یہ بتائی جا رہی ہے کہ کسی مذہب کو غلط نہ کہا جائے اور کسی کی نفی نہ کی جائے۔ آج کے ماحول میں اگر کسی مذہب کے پیروکار خود کو حق پر قرار دے کر دوسرے مذاہب کو غلط اور باطل کہتے ہیں تو اسے انتہاپسندی سے تعبیر کیا جاتا ہے، اور ان سے یہ تقاضا کیا جاتا ہے کہ اپنے حق اور صحیح ہونے کی بات کریں دوسرے مذہب کو غلط نہ کہیں اور کسی مذہب کی نفی نہ کریں۔ چونکہ مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اسلام ہی حق مذہب ہے اور دوسرے مذاہب حق اور سچا ہونے کا ٹائٹل استعمال کرنے کے حقدار نہیں ہیں اس لیے ایسا عقیدہ رکھنے والے اور اس کا اظہار کرنے والے مسلمان انتہاپسند ہیں اور انہیں اس کمٹمنٹ میں نرمی کر کے دوسرے مذاہب کے لیے رواداری اور برداشت کا جذبہ پیدا کرنا چاہیے۔

یہ بات ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے اور ہم قرآن و سنت کی تعلیمات پر ایمان و یقین رکھتے ہوئے دوسرے کسی مذہب کے لیے یہ بات تصور نہیں کر سکتے کہ وہ بھی صحیح مذہب ہے اور باطل نہیں ہے، اس لیے مکالمہ بین المذاہب کے اس ایجنڈے کا سب سے بڑا مخاطب ہم ہیں اور ہم سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ہم دوسرے مذاہب کی نفی نہ کریں، انہیں باطل قرار نہ دیں اور رواداری، برداشت اور مفاہمت کے نام پر اسلام کی طرح انہیں بھی برابر کا درجہ دیں۔ اس سلسلہ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کا حوالہ دینا چاہوں گا کہ مذاہب کے درمیان مکالمہ اور مفاہمت کے لیے ان سے بھی بات کی گئی تھی۔ قرآن و حدیث میں مختلف مکالموں کا تذکرہ موجود ہے جن میں سے دو کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے تاکہ ہمارے سامنے یہ بات آجائے کہ اس معاملہ میں جناب نبی کریمؐ کی سنت مبارکہ کیا ہے اور ہمارے لیے پیغمبر آخر الزمانؐ کا اسوۂ حسنہ کیا ہے۔

حدیث و سیرت کی کم و بیش تمام کتابوں میں مذکور ہے کہ مکہ مکرمہ میں جناب رسول اکرمؐ کے پاس قریش کے سرداروں کا ایک وفد آیا جس نے یہ پیشکش کی کہ وہ مسلمانوں کے معاملے میں نرمی کرنے کے لیے تیار ہیں مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ حضرت محمدؐ ان کے خداؤں یعنی بتوں کی نفی کرنا چھوڑ دیں۔ مثبت بات کریں، منفی نہ کریں، اپنے خدا کی بات کریں، قریش کے خداؤں کی نفی نہ کریں۔ یہ بات کہیں کہ اللہ تعالیٰ بہت کچھ کر سکتا ہے لیکن یہ بات نہ کہیں کہ ان کے بت کچھ نہیں کر سکتے۔ اس کے ساتھ ہی قریش کے سرداروں کے وفد نے یہ پیشکش بھی کی کہ اس صورت میں وہ حضرت محمدؐ کے ساتھ ان کی عبادت میں شریک ہونے کے لیے تیار ہیں اور آپؐ بھی ان کے بت خانوں میں آیا کریں، اس طرح باہمی مفاہمت کا ماحول پیدا ہو گا۔

یہ آج کی معروف اصطلاح میں ’’اتحاد بین المذاہب‘‘ کی پیشکش تھی اور اس کا مقصد اسی طرح باہمی برداشت اور مفاہمت کا ماحول پیدا کرنا تھا جیسا کہ آج تقاضا کیا جا رہا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سورۃ الکافرون کی صورت میں اس کا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوٹوک جواب دلوایا کہ ان کافروں سے کہیں کہ وہ صرف ایک خدا کی عبادت کرنے کو تیار نہیں ہیں اور میں ان کے بتوں کی پوجا نہیں کر سکتا، اس لیے ان کا دین ان کے ساتھ ہے اور میرا دین میرے ساتھ ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے یہ جواب دلوایا کہ عقیدے اور عبادت میں درمیان کی راہ نہیں ہو سکتی اور اس معاملے میں مفاہمت ممکن نہیں ہے۔ یہ جواب قرآن کریم کی ایک سورہ مبارکہ کے طور پر قیامت تک کے لیے محفوظ ہے، اس لیے ہمارے لیے بھی یہی ہدایت ہے کہ ایمان و عقیدہ اور عبادت کے بارے میں اگر مفاہمت اور ایڈجسٹمنٹ کی دعوت دی جائے تو اس کے جواب میں ’’لکم دینکم ولی دین‘‘ کہہ کر اسے دوٹوک انداز میں مسترد کر دیا جائے۔

اسی طرح قرآن کریم نے ایک اور مکالمے کا ذکر بھی کیا ہے جو جناب نبی اکرمؐ نے نجران سے آنے والے مسیحی علماء اور سرداروں کے ساتھ کیا تھا۔ ان کے ساتھ عقائد پر گفتگو ہوئی جو کسی نتیجے پر نہیں پہنچی، پھر نوبت مباہلے تک پہنچی مگر وہ بھی نہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر نبی کریمؐ سے قرآن کریم کی آیات کی صورت میں دوٹوک اعلان کرا دیا کہ ان اہل کتاب سے کہہ دیجئے کہ دو باتیں ہمارے اور ان کے درمیان قدرِ مشترک کا درجہ رکھتی ہیں جن پر مفاہمت نہیں ہو سکتی ، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور دوسری یہ کہ ہم میں سے بعض دوسرے بعض کو اللہ تعالیٰ کے نیچے اپنے رب نہ بنا لیں۔ گویا توحید کا اقرار، شرک سے دستبرداری اور انسان پر انسان کی خدائی کی نفی کو مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان قدر مشترک قرار دے کر قرآن کریم نے واضح طور پر اعلان کر دیا کہ ان مشترک اقدار پر مفاہمت نہیں ہو سکتی اور ان کو تسلیم کرنے کے بعد ہی دوسرے کسی مسئلہ پر بات چیت کی جا سکتی ہے۔

انسان پر انسان کی خدائی کی نفی کو قرآن کریم نے آسمانی مذاہب کے درمیان قدر مشترک قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب جناب نبی اکرمؐ کے مطابق یوں ہے کہ حاتم طائی کے بیٹے حضرت عدیؓ نے، جو پہلے مسیحی سردار تھے پھر مسلمان ہو کر صحابہ کرامؓ میں شمار ہوئے، ایک بار آنحضرتؐ سے سوال کیا کہ قرآن کریم نے ہمارے بارے میں کہا ہے کہ مسیحی حضرات نے اپنے علماء اور مشائخ کو اللہ تعالیٰ کے ورے اپنا رب بنا لیا ہے، حالانکہ ہم تو اپنے علماء کرام اور مشائخ کو رب کا درجہ نہیں دیتے تھے۔ نبی اکرمؐ نے ان سے پوچھا کہ کیا تمہارے ہاں علماء و مشائخ کو حرام کو حلال کرنے اور حلال کو حرام قرار دینے کا اختیار حاصل تھا؟ حضرت عدیؓ نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ یہ اختیار تو ہم علماء و مشائخ کے لیے مانتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا شرک ہے تو اسی طرح حلال و حرام کے اختیار میں کسی اور کو اتھارٹی تسلیم کرنا بھی شرک ہے۔

مسیحی دنیا میں آج بھی صورتحال یہ ہے کہ پاپائے روم کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی حلال کو حرام قرار دے دیں اور کسی حرام کو حلال کی فہرست میں شامل کر دیں۔ جبکہ مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ اگر حلال کو حرام کرنے یا حرام کو حلال کرنے کا اختیار اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لیے ہوتا تو اس کا استحقاق سب سے پہلے جناب رسول اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوتا، لیکن جب آپؐ نے اپنی ذات کے لیے شہد کو حرام قرار دیا تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح طور پر فرما دیا کہ ’’آپ نے اس چیز کو کیوں حرام کیا جسے اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے حلال کیا ہے؟ تو جب اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی چیز کو حرام کرنے اور اس کی طرف سے حرام کی جانے والی چیز کو حلال قرار دینے کا جناب نبی اکرمؐ کو اختیار نہیں ہے تو پھر کسی اور کے لیے یہ حق تسلیم نہیں کیا جا سکتا خواہ وہ کوئی بھی ہو۔

دوسرے مذاہب کے ساتھ جناب نبی اکرمؐ کے مکالموں کا بھی روایات میں تذکرہ موجود ہے لیکن میں نے ان میں سے دو کا حوالہ دیا ہے جن کا ذکر قرآن کریم نے بھی کیا ہے اور ان کی روشنی میں آج کی دنیا میں ’’مکالمہ بین المذاہب‘‘ کے حوالے سے ہونے والی گفتگو اور معاملات میں ہم واضح راستہ متعین کر سکتے ہیں۔

حضرات محترم! یہ ہے انٹرفیتھ ڈائیلاگ کے بارے میں معروضی صورتحال اور اس کے بارے میں قرآن و سنت کی ہدایات کا ایک منظر جو میں نے آپ کے سامنے مختصرًا پیش کیا ہے۔ ہمیں اس مکالمے میں شرکت سے انکار نہیں ہے لیکن اگر اس کا مقصد اسلام کو اس کے واحد حق ہونے کے ٹائٹل سے محروم کرنا اور مسلمانوں کو اس بات پر آمادہ کرنا ہے کہ وہ رواداری، برداشت اور مفاہمت کے نام پر دوسرے مذاہب کے لیے بھی حق مذہب ہونے کا ٹائٹل تسیلم کر لیں تو ہم اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔

(روزنامہ پاکستان، لاہور ۔ ۲۱ مئی ۲۰۰۷ء)
2016ء سے
Flag Counter