مغربی ممالک میں مسلمانوں کا مذہبی تشخص

   
جولائی ۲۰۱۶ء

روزنامہ انصاف لاہور ۲۳ جولائی ۲۰۱۶ء کی ایک خبر کے مطابق یورپی ریاست سلواکیہ کے وزیر اعظم رابرٹ فیکو نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ سلواکیہ میں اسلام کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، مسلمانوں کی یورپ میں آمد خطے کے لیے نقصان دہ ہے، اور وہ سلواکیہ میں ایک بھی مسلمان کو برداشت نہیں کر سکتے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ دیگر مغربی ممالک کی طرح مسلمان پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں جگہ دینا ان کی مجبوری نہیں ہے۔

رابرٹ فیکو کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ یکم جولائی سے یورپی یونین کے صدر کا منصب سنبھالنے والے ہیں، اس لیے ایسے موقع پر ان کا مسلمانوں کے بارے میں ان خیالات کا اظہار یورپی یونین کے آئندہ عزائم اور پالیسیوں کی بھی غمازی کرتا ہے جو پورے عالم اسلام کے لیے لمحۂ فکریہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ رابرٹ فیکو اس قسم کے جذبات کا اظہار کرنے والے پہلے یورپی یا مغربی حکمران نہیں ہیں بلکہ ان کے علاوہ بھی کئی مغربی سیاستدان اور حکمران وقتاً فوقتاً ایسے خیالات و جذبات کا اظہار کر چکے ہیں۔ اس کی ایک مثال امریکہ میں اگلے صدارتی الیکشن کے لیے ری پبلکن پارٹی کے متوقع امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے وہ بیانات بھی ہیں جو امریکہ میں مسلمانوں کا داخلہ روکنے کے بارے میں وہ مختلف مواقع پر دے چکے ہیں، جبکہ حال ہی میں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کا سب سے بڑا ہدف انتہا پسند اسلام کو روکنا ہے۔

وزیراعظم پاکستان کے مشیر امور خارجہ جناب سرتاج عزیز نے چند روز قبل یہ بتایا تھا کہ ’’نائن الیون کے بعد چند مغربی ممالک نے اسلامی عقائد و نظریات کے خلاف اتحاد قائم کر لیا تھا‘‘۔ ہمارے خیال میں وہی اتحاد اب دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا ہے اور بے نقاب بھی ہوتا جا رہا ہے۔ اور ایسے الفاظ جو کبھی کبھی انتہا پسند مغربی سیاستدانوں کے بیانات کا حصہ بنتے ہیں ان جذبات و احساسات کی ایک ہلکی سی جھلک ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغربی دنیا میں پالیسی کے تحت مسلسل پروان چڑھائے جا رہے ہیں۔ ’’وما تخفی صدورھم اکبر‘‘۔

اسلام مخالف جذبات کی اس تازہ لہر کا سبب شام سے بے گھر ہونے والے مہاجرین کی وہ کھیپ ہے جو اپنے ملک کی ہولناک خانہ جنگی کے باعث ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں اور انہیں مغربی ممالک میں پناہ دینے کے بارے میں یورپی حکومتیں تذبذب کا شکار ہیں۔ بعض حکومتیں موجودہ عالمی قوانین کے تحت انہیں پناہ دینے کے حق میں ہیں اور اس کا اہتمام بھی کر رہی ہیں۔ جبکہ بعض حکمران خود مغرب کے بنائے ہوئے عالمی قوانین کا لحاظ رکھنے کی بجائے مسلمانوں کی آمد کو اپنے مذہب اور کلچر کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے ان کا ہر قیمت پر راستہ روکنا چاہتے ہیں۔

امریکہ اور یورپ کی اس وقت صورت حال یہ ہے کہ گزشتہ صدی کے دوران دنیا کے مختلف ممالک سے روزگار کی تلاش کے لیے یا اپنی حکومتوں کے جبر سے تنگ آکر جو مسلمان ان دو براعظموں میں آباد ہوئے ہیں وہ بعض ممالک کی آبادی کا اہم حصہ بن گئے ہیں اور وہاں کی سیاست میں بھی اس حد تک دخیل ہیں کہ قومی معاملات میں انہیں نظر انداز کرنا وہاں کی حکومتوں کے لیے مشکل ہوگیا ہے۔ لیکن مغربی دانشوروں کے لیے اس سے زیادہ تشویش و اضطراب کی بات یہ ہے کہ یہ مسلمان اپنے عقائد و روایات سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہوئے اور اپنا جداگانہ تہذیبی و مذہبی تشخص بدستور برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اور چونکہ اپنے مذہب و ثقافت اور شناخت کا تحفظ خود مغربی ممالک کی سربراہی میں تشکیل پانے والے عالمی قوانین اور مبینہ انسانی حقوق کے تحت ہر فرد اور طبقہ و قوم کا حق ہے اس لیے ان مسلمانوں کو اپنے مذہبی عقائد اور تہذیبی روایات کے ساتھ وابستہ رہنے سے روکا نہیں جا سکا اور نہ ہی اب انہیں اس سے روکنا موجودہ عالمی قوانین کے فریم ورک میں ممکن ہے۔ اس لیے دہشت گردی اور انتہا پسندی کی روک تھام کے نعرے کے ساتھ وہاں کی مسلم سوسائٹیوں کو خوف اور دباؤ کا ہر وقت شکار رکھنا اور اسلامی تشخص کے مزید فروغ کو روکنے کے لیے الٹی سیدھی حرکتیں کرتے رہنا مغربی دانشوروں اور حکومتوں کی ایک طرح سے مجبوری بن کر رہ گیا ہے جس کا مظاہرہ وقتاً فوقتاً مختلف صورتوں میں ہوتا رہتا ہے۔

مغربی دانشوروں اور حکمرانوں کی ایک مجبوری یہ بھی ہے کہ وہ خود تو مذہب کے معاشرتی کردار سے دستبردار ہو چکے ہیں اور سیاست و معیشت کے ساتھ ساتھ خاندانی نظام سے بھی مذہبی احکام و قوانین کو انہوں نے رخصت کر دیا ہے جس کے تلخ نتائج فیملی سسٹم کے بکھر جانے کی صورت میں ان کے گلے کا ہار بن کر رہ گئے ہیں، جبکہ مسلمانوں کو اس کے لیے تیار نہیں کیا جا سکا۔ مغرب کی مسلم سوسائٹیوں میں مساجد کی تعداد بڑھ رہی ہے جن میں پانچ وقت کی نماز کے اہتمام کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کی تعلیم اور دعوت و تبلیغ کا عمل جاری ہے جو مسلسل بڑھ رہا ہے۔ مسلمانوں نے اپنے خاندانی نظام میں قرآن و سنت کے احکام و قوانین کی پابندی کو وہاں بھی لازم رکھا ہوا ہے، جبکہ حلال و حرام کا فرق بھی وہاں کے مسلمانوں میں عمومی طور پر موجود ہے۔ اس لیے یہ کہا جا رہا ہے کہ مسلمان مغربی ممالک میں آکر اپنے مذہب و ثقافت کے فروغ کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ اور یہ کوئی خلاف واقعہ بات نہیں بلکہ اسلام کی حقانیت اور اس کے زندہ مذہب ہونے کا واضح اظہار ہے جس نے اسلام مخالف عناصر اور لابیوں کو اضطراب سے دوچار کر رکھا ہے اور اسی کا اظہار ڈونلڈ ٹرمپ اور رابرٹ فیکو کے مذکورہ بیانات کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔

ہمارے خیال میں اس منفی روش میں مزید اضافہ ہوگا اور مسلمانوں کے خلاف مختلف نوعیت کی کاروائیاں مسلسل جاری رہیں گی۔ لیکن کیا مسلمانوں کو اس کے جواب میں جذباتیت اور شدت پسندانہ ردعمل کا اظہار کرنا چاہیے؟ ہمارے نزدیک یہ طریقہ درست نہیں ہوگا بلکہ خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگا۔ امریکہ اور یورپ کے مختلف معاشروں میں مسلمانوں کی گزشتہ صدی کے دوران مذہبی اور تہذیبی پیشرفت کو اگر جاری بلکہ باقی رکھنا ہے تو کسی بھی قسم کی جذباتیت اور ردعمل سے مکمل گریز کرتے ہوئے اس پیشرفت کو خاموشی، برداشت اور حوصلہ کے ساتھ جاری رکھنا ہی درست، کامیاب اور نتیجہ خیز حکمت عملی ہوگی۔ ہماری رائے میں اگر ہم اس پیشرفت کو جذباتیت اور سطحیت سے بچاتے ہوئے اب بھی جاری رکھ سکیں تو مسلمانوں کو بہت سے مغربی ممالک میں فیصلہ کن حیثیت حاصل کرنے میں مزید دو عشروں سے زیادہ وقت درکار نہیں ہوگا۔ اور شاید وہیں سے دنیا میں مسلمانوں کی حقیقی نشاۃ ثانیہ کا آغاز بھی ہو جائے، اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter