(ہفتہ وار درس)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ کچھ عرصے سے قادیانی مسئلہ پھر سے اعلیٰ سطح پر پریس میں، ایوانوں میں، عدالتوں میں زیر بحث ہے۔ اس کی تازہ صورتحال پر کچھ عرض کرنے سے پہلے اس وقت تک کی جو معروضی صورتحال ہے، ڈیڑھ سو سال کی، اس کا تھوڑا سا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں۔
مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعوی کیا تھا، علماء کرام نے نبوت کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے، مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے ماننے والوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا۔
ختم نبوت ہمارا بنیادی عقیدہ ہے، ختم نبوت سے انکار جس دور میں بھی کیا گیا ہے، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر اب تک جس نے بھی کیا ہے، انہیں مسلمان تسلیم نہیں کیا گیا۔ اس پر قادیانیوں نے قرآن پاک سے، حدیث سے، بزرگوں کے اقوال سے دلائل لیے اور مناظرہ شروع ہو گیا۔ ”ہمارا مطلب یہ ہے“ ہمارا یہ مطلب ہے“ کے ساتھ تقریبا پون صدی مناظرہ چلتا رہا ہے۔ بڑی بڑی کتابیں ہیں بڑے بڑے مناظرے ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ متحدہ ہندوستان کی اعلیٰ ترین علمی شخصیتیں حضرت علامہ محمد انور شاہ کاشمیری، حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی، حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہم اللہ تعالیٰ بھی مناظرے کے میدان میں آئے اور تفصیلی بحث مباحثہ کے بعد لوگوں کے سامنے انہوں نے اپنا موقف ثابت کیا۔
مناظرہ عام لوگوں کے سامنے ہوتا تھا اور فیصلہ لوگوں نے کرنا ہوتا تھا۔ مناظرہ کیا ہوتا ہے؟ دو علماء بحث کر رہے ہیں اور سننے والے لوگ فیصلہ کر رہے ہیں۔ تقریبا تمام مکاتب فکر کے علماء نے مناظرے کے میدان میں خدمات سرانجام دیں۔ تین بڑے نام میں نے لیے ہیں حضرت علامہ انور شاہ کاشمیریؒ، حضرت پیر مہر علی شاہ صاحبؒ، حضرت مولانا ثنا اللہ امرتسریؒ تینوں مکاتب فکر کے چوٹی کے بزرگ ہیں، تینوں مناظرے میں آئے۔ ان مناظروں میں پبلک کے سامنے بات واضح ہو گئی کہ مرزائی مسلمان نہیں ہیں، عمومی فضا بن گئی اور امت مسلمہ کا اتفاق ہو گیا۔
اس کے بعد دوسرا مرحلہ آیا کہ عدالتوں سے یہ فیصلے کروائے جائیں کہ مسلمانوں کا موقف درست ہے اور قادیانی مسلمان نہیں ہیں۔ بہاولپور میں مقدمہ چلا، پنڈی میں مقدمہ چلا۔ بہاولپور میں مقدمہ لڑنے کے لیے دیوبند سے مولانا انور شاہ کشمیریؒ آئے، اور بہاولپور سے مولانا غلام احمد گھوٹویؒ، جو بریلوی مکتب فکر کے اکابر علماء میں سے ہیں انہوں نے پیش ہو کر مناظرہ کیا اور عدالتی جنگ بھی جیتی۔ یہ دوسرا دائرہ تھا عدالتوں میں جانے کا اور عدالتی نظام کے سامنے واضح کرنے کا کہ ہمارا موقف صحیح ہے کہ قادیانی مسلمان نہیں ہے۔
تیسرا مرحلہ آیا پارلیمنٹ کا کیونکہ حتمی فیصلے تو وہ کرتی ہے۔ ۱۹۷۴ء میں جب ملک میں تحریک چلی، پارلیمنٹ میں دو ہفتے مکالمہ ہوا، ایک طرف سے مرزا ناصر احمد تھے قادیانیوں کے امیر اور مولوی صدر الدین صاحب تھے لاہوریوں کے امیر۔ اور سامنے کون تھے؟ حضرت مولانا مفتی محمود صاحبؒ حضرت مولانا شاہ احمد نورانی صاحبؒ حضرت مولانا عبدالحق صاحبؒ پروفیسر غفور احمد صاحبؒ یہ قیادت تھی اور چودہ دن مباحثہ ہوتا رہا، اس مباحثہ کے نتیجے میں پارلیمنٹ نے ہمارا موقف تسلیم کر لیا۔
پہلا مرحلہ تھا پبلک مناظروں کا، دوسرا مرحلہ تھا عدالتی مقدمات کا، تیسرا مرحلہ تھا پارلیمنٹ کا۔ پارلیمنٹ نے بھی موقف تسلیم کر لیا تو اس کے بعد قادیانیوں کو دستوری طور پر غیر مسلم اقلیتوں میں شمار کیا گیا۔ اس فیصلے کو قادیانیوں نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ ہم نہیں مانتے، وہ کبھی بھی نہیں مانے، اب بھی نہیں مانتے، ان کی دس سال کی ضد کے بعد ’’کہ نہیں مانتے‘‘ قانون سازی کرنی پڑی ۱۹۸۴ء میں اور ”امتناعِ قادیانیت‘‘ کا قانون آیا کہ چونکہ یہ مسلمان نہیں ہیں، اس لیے مسلمانوں کی علامتیں استعمال نہیں کر سکتے۔ کلمہ ہماری علامت ہے، مسجد ہماری علامت ہے، قرآن ہماری علامت ہے، رضی اللہ عنہ ہماری اصطلاح ہے، صحابی ہماری اصطلاح ہے۔ ان کے دس سال کے انکار اور ضد کی وجہ سے قانون لانا پڑا کہ یہ اسلامی شعائر استعمال نہیں کر سکتے۔ ۱۹۸۴ء میں یہ فیصلہ ہوا اور قانون نافذ ہو گیا
یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ یہ پابندیاں کیوں لگانی پڑیں؟ اس لیے کہ انہوں نے ۱۹۷۴ء کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا تھا اور ضد شروع کر دی تھی کہ ”ہم یہ بھی کریں گے، یہ بھی کریں گے“ ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ۱۹۸۴ء میں قانون نافذ کرنا پڑا کہ ”تم یہ بھی نہیں کرو گے، یہ بھی نہیں کرو گے، یہ بھی نہیں کرو گے“ اور پابندی لگا دی گئی۔
اس کے بعد یہ یہاں سے لندن چلے گئے، ہیڈ کوارٹر بھی لندن لے گئے اور کیس بھی بین الاقوامی اداروں میں لے گئے۔ اب کیس کا سلسلہ بین الاقوامی اداروں میں منتقل ہو گیا۔ جو بحث مناظروں سے شروع ہوئی تھی، عدالتوں میں آئی تھی، عدالتوں سے چلی تھی پارلیمنٹ میں آئی تھی، پارلیمنٹ کے فیصلوں کے بعد قادیانی اپنا ہیڈ کوارٹر بھی لندن لے گئے اور تنازعہ بھی۔
ہم اقوام متحدہ کے فیصلے مانیں یا نہ مانیں لیکن ہم ممبر تو ہیں، اس کے اداروں کے بھی اصولاً پابند ہیں، ہمیں ان کے فیصلے پسند ہوں یا ناپسند ہوں، جب ہم معاہدوں کے ممبر ہیں تو پابند تو ہیں۔ جنیوا میں اقوام متحدہ کا ادارہ ہیومن رائٹس کمیشن دنیا بھر میں جانچ کرتا ہے کہ انسانی حقوق کے حوالے سے کہاں خلاف ورزی ہو رہی ہے اور کہاں نہیں ہو رہی، جو خلاف ورزی ہو رہی ہے وہاں نوٹس لیتے ہیں۔ تو مرزا طاہر احمد نے، جو قادیانیوں کے سربراہ تھے، وہاں درخواست دائر کر دی کہ ہمارے جو اقوام متحدہ کے تحت مسلمہ شہری حقوق ہیں، ہم پر پابندیاں لگا کر ان شہری حقوق سے ہمیں محروم کر دیا گیا ہے، ہم مسجد نہیں بنا سکتے، عیسائی گرجا بنا سکتے ہیں تو ہم مسجد کیوں نہیں بنا سکتے، سکھ گردوارہ بنا سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں بنا سکتے؟ اسے مسلمہ شہری حقوق کی خلاف ورزی قرار دے کر مرزا طاہر احمد جنیوا ہیومن رائٹس کمیشن میں چلے گئے اور درخواست دائر کر دی۔
بین الاقوامی اداروں کا طریقہ کار کیا ہے؟ درخواست آئی پاکستان کے خلاف کہ پاکستان کی حکومت نے ہمارے شہری حقوق پامال کر دیے ہیں۔ وہاں طریقہ کار یہ ہے کہ جس ملک کے خلاف درخواست ہوتی ہے اس ملک کا سفیر آکر صفائی دیتا ہے۔ جو باضابطہ سفیر ہے اس کو بلاتے ہیں ہاں بھئی تمہارے خلاف یہ الزام ہے، بتاؤ تمہارا موقف کیا ہے۔ وہ سفیر وضاحت کرتا ہے، پھر باقاعدہ کیس ہوتا ہے، بحث ہوتی ہے، پھر فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ زمانہ تھا (وزیر اعظم) جونیجو صاحب کا اور راجہ ظفر الحق صاحب جو ہمارے وزیر مذہبی امور تھے
ہمارے قانون دان دوست ہیں ریاض الحسن گیلانی صاحب جو ڈپٹی اٹارنی جنرل رہے ہیں پاکستان کے۔ حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ اور میں، ہم دونوں کو پتہ چلا کہ کمیشن میں مقدمہ چلا گیا ہے، ساتھ یہ پتہ چلا کہ جنیوا میں پاکستان کے سفیر جو ہیں اس وقت وہ منصور احمد قادیانی ہے۔ یعنی مدعی بھی قادیانی اور مدعا علیہ بھی قادیانی۔
ہم تین آدمی اکٹھے ہوئے، مولانا منظور احمد چنیوٹی، میں اور ریاض گیلانی صاحب، ہم نے مشورہ کیا کہ فیصلہ ہمارے خلاف آجائے گا اور جب فیصلہ ہمارے خلاف آجائے گا تو دنیا میں ہماری بات کون سنے گا؟ اس وقت وزیر مذہبی امور تھے راجہ ظفر الحق صاحب ہمارے دوست ہیں اللہ پاک سلامت رکھے بڑی شخصیت ہیں ملک کی ہم ان کے پاس گئے۔ ہم نے کہا راجہ صاحب یہ کیا ہو رہا ہے مدعی مرزا طاہر احمد ہے اور مدعا علیہ مرزا منصور احمد وہ بھی قادیانی ہے تو یہ فیصلہ کیا ہو گا۔ انہوں نے کہا بات ٹھیک ہے ہم چاروں نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہمیں اپنا وفد بھیجنا چاہیے اور اس کیس کی پیروی منصور احمد کو نہیں کرنی چاہیے ہمیں خود کرنی چاہیے۔ لیکن ہمارے ہاں جس طرح فیصلے ہوتے ہیں کہ فنڈ کی منظوری کون دے گا؟ فائل کون تیار کرے گا؟ بریفنگ کون کرے گا؟ ہمارے ہاں فیصلوں کی رفتار آپ کو پتہ ہے کیا ہوتی ہے؟ مسئلہ پیدا ہوا کہ کون جائے گا، پیسے کون دے گا، ٹکٹ کون لے گا، ان باتوں میں ہمارے دو ہفتے گزر گئے۔ انہوں نے سرسری بات سنی اور فیصلہ دے دیا کہ پاکستان میں فی الواقع قادیانیوں کے شہری حقوق ختم کر دیے گئے ہیں۔ یہ بین الاقوامی فورم کا فیصلہ ہے۔
ہم نے واویلا کیا کہ یہ کیا ہو گیا ہے اس میں انہوں نے تو غلط فیصلہ کیا۔ لیکن غلط فیصلہ ہونے کی ذمہ داری میں ہم بھی شریک ہیں یا نہیں ہیں؟ اگر میرے خلاف ہائی کورٹ میں کیس ہے میں پیش نہیں ہو رہا ہائی کورٹ فیصلہ کرتا ہے صحیح کرتا یا غلط کرے فیصلہ تو ہو گیا ہے۔ چنانچہ دنیا کے تمام ادارے اسی فیصلے کی بنیاد پر قادیانیوں کی حمایت کر رہے ہیں اور ہماری مخالفت کر رہے ہیں۔
یہ ۱۹۸۵ء کا فیصلہ ہے۔ اسی دوران ایک اور مسئلہ بین الاقوامی سطح پر پیش آیا کہ جنوبی افریقہ میں جو غیر مسلموں کا ملک ہے، قادیانیوں کا مسئلہ پیدا ہو گیا کہ یہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہوں گے یا نہیں ہوں گے؟ کیس سپریم کورٹ میں چلا گیا، بحث ہوئی خاصا عرصہ ہوتی رہی، وہاں ہم فریق بنے، حکومت پاکستان بھی فریق بنی، ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب تشریف لے گئے، مولانا محمد تقی عثمانی صاحب تشریف لے گئے، مولانا یوسف لدھیانوی صاحب تشریف لے گئے، پوری ٹیم گئی وہاں ہم نے کیس لڑا اور جیت گئے۔ میں یہ اس دور کی بات کر رہا ہوں کہ جہاں کیس ہم نے لڑا ہے وہاں ہم جیتے ہیں، جہاں کیس لڑنے کے لیے نہیں پہنچے وہاں ہار گئے۔
اس کے بعد سے مسلسل یہ صورتحال چلی آرہی ہے کہ بین الاقوامی اداروں میں، اقوام متحدہ میں، یورپی یونین میں اور جنیوا ہیومن کمیشن میں، یہ چند ادارے ہیں جو فیصلے کرتے ہیں نافذ کرتے ہیں، وہاں ہمارے خلاف بیسیوں درخواستیں آئیں اور قادیانیوں نے اپنا موقف بیان کیا۔ ہم نے اپنا موقف بیان نہیں کیا، اگر ہمارا موقف بیان کیا ہے تو سفیروں نے کیا ہے، اب سفیر ہمارا موقف کیا بیان کرے گا؟ یہ تازہ ترین معاملہ ہوا کہ گزشتہ گورنمنٹ کے دور میں بین الاقوامی این جی اوز نے اقوام متحدہ میں ایک ریزولیشن بھیجا۔ وہاں ان کا طریقہ کار یہ ہے کہ کوئی موقف طے کرنا ہو تو کوئی درخواست دیتا ہے، اس پر کمیٹی بنتی ہے جو اس پر سفارشات مرتب کرتی ہے، وہ سفارشات جنرل اسمبلی میں پیش ہوتی ہیں، جنرل اسمبلی اس پر ریزولیشن کرتی ہے جو اقوام متحدہ کے پالیسیوں کی بنیاد بن جاتا ہے۔
درخواست گئی اقوام متحدہ میں اسی ۱۹۸۵ء میں جنیوا کے فیصلے کی بنیاد پر کہ قادیانیوں پر پاکستان میں ظلم ہو رہا ہے، پاکستان کو روکنا چاہیے۔ اس پر کمیٹی بنی، اب کمیٹی نے رپورٹ دینی تھی اور جنرل اسمبلی نے قرارداد کرنی تھی تو پالیسی طے ہو جانی تھی۔ میری معلومات کے مطابق اب بھی وہ کمیٹی کے زیر غور ہی ہے۔ ہم نے توجہ دلائی حکومت کو بھی اور جماعتوں کو بھی، وزیر مذہبی امور تھے صاحبزادہ نور الحق قادری آپ کو یاد ہوں گے، میں خود وفد لے کر ان سے دفتر میں جا کر ملا اور درخواست دی کہ حضرت یہ معاملہ اپنے سفیروں کے حوالے نہ کریں، اس پر جس طرح سپریم کورٹ جنوبی افریقہ میں ہم نے کیس لڑا ہے، یہاں بھی لڑیں، فیصلہ آپ کے خلاف آگیا تو آپ کے لیے سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ لیکن ہم نہیں کر سکے، درخواست میری ان کے ریکارڈ میں ہو گی۔ ہم وفد لے کے ملے تھے، ہماری گزارش یہ تھی کہ اہل علم کا وفد جنوبی افریقہ میں کیس لڑا ہے اقوام متحدہ میں بھی لڑ لے۔ لیکن ان کیسوں کی طرف بالکل توجہ نہیں کی گئی جس کی وجہ سے کنفیوژن پیدا ہو رہا ہے، بلکہ ہو گیا ہے۔ جب بین الاقوامی ادارے یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں قادیانیوں کے شہری حقوق پامال ہو گئے ہیں۔ اور کسی بین الاقوامی ادارے میں کوئی درخواست آتی ہے تو وہی فیصلہ سامنے لا کر رکھا جاتا ہے۔ یعنی میں اپنے خلاف کیس میں پیش نہیں ہو رہا، باہر شور مچا رہا ہوں تو کون سنے گا؟
میں اس کی مثال دیا کرتا ہوں خدا نخواستہ سیشن کورٹ میں کوئی کیس ہے میرے خلاف ہے اور وہاں میں جا نہیں رہا، اجتماعات میں تقریریں کر رہا ہوں اس فیصلے کے خلاف تو میرے خطابات کیا کریں گے؟ کیس تو مجھے عدالت میں لڑنا ہے میں دس نہیں بیس لیکچرز دے دوں، کیا فرق پڑے گا؟ کیس پر اس وقت صورتحال یہ ہے اور اب بھی مسئلہ یہ ہے بین الاقوامی اداروں میں نہ حکومت جا رہی ہے اور نہ مذہبی پارٹیاں جا رہی ہیں۔ حکومت تو نہیں جائے گی بلکہ اسٹیبلشمنٹ نے تو بین الاقوامی دباؤ کے تحت قادیانی مسئلے پر قوم کے موقف کو کمزور کرنے کی کوشش کتنی بار کی ہے، اب بھی کر رہے ہیں، آئندہ بھی کریں گے۔ اب اس کے بعد کس کی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنا موقف تو پیش کریں، جہاں کیس ہو رہا ہے وہاں بات تو کریں۔ یہاں بات پھنسی ہوئی ہے، حکومت پر اُدھر سے بین الاقوامی اداروں کا دباؤ ہے۔
میرا تجربہ یہ ہے میں پچاس سال سے انہی کاموں میں مصروف ہوں، میں امریکہ بھی گیا ہوں، کینیڈا بھی گیا ہوں، ہانگ کانگ بھی گیا ہوں، برطانیہ تو بہت دفعہ گیا ہوں، میرا تجربہ یہ ہے کہ جہاں بھی سمجھداری کے ساتھ ہم نے بریفنگ دی ہے، انصاف پسند لوگوں نے ہماری بات مانی ہے۔ پرسوں میں اسلام آباد میں تھا، وہاں کے علماء سے بھی درخواست کی۔ آج ہمارے شہر کی علماء کی میٹنگ تھی یہاں بھی میں نے درخواست کی کہ حکومت سے ہاتھ جوڑ کر درخواست کی جائے کہ یہ بین الاقوامی اداروں میں مقدمات جو ہوتے ہیں، یہ پاکستان کو خود لڑنے چاہئیں۔ تین قسم کے مقدمے ہیں اس وقت جو بیسیوں بین الاقوامی فورموں میں زیر بحث ہیں۔ اقوام متحدہ میں زیر بحث ہیں، یورپی یونین میں زیر بحث ہیں، جنیوا ہیومن کمیشن، بین الاقوامی فارموں میں زیربحث ہیں، تین حوالوں سے:
(۱) ختم نبوت کے حوالے سے، وہ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان قادیانیوں سے زیادتی کر رہا ہے۔
(۲) دوسرا مسئلہ ناموسِ رسالت کے تحفظ کے قانون کے حوالے سے، وہ کہتے ہیں کہ یہ آزادی رائے کے خلاف ہے۔
(۳) تیسری بات شریعت کے قوانین کے حوالے سے ہے، وہ کہتے ہیں کہ یہ ہیومن رائٹس کے خلاف ہیں۔ مثلاً قصاص کا قانون نافذ ہے، اقوام متحدہ کا باقاعدہ موقف ہے کہ قصاص نہیں ہونا چاہیے۔ مختلف فورموں پر متعدد شرعی قوانین کے حوالے سے پاکستان کا موقف اور پالیسی زیربحث ہے۔
ہماری گزارش ہے کہ بین الاقوامی اداروں میں ختم نبوت کے حوالے سے، ناموسِ رسالت کے حوالے سے، یا کسی شرعی قانون کے حوالے سے مسئلہ زیر بحث ہو تو ہمیں وہاں فریق بن کے بات کرنی چاہیے۔ اول تو حکومت کو کرنی چاہیے کہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنا دفاع کرے، جیسے جنوبی افریقہ میں کیا تھا۔ ورنہ مذہبی جماعتوں کو تو ضرور جانا چاہیے۔ دعا کریں کہ ہم کوئی صحیح رخ اختیار کریں، ہماری تقریریں اور بیانات تو بہت ہیں، ان کا ثواب ہو گا ہمیں لیکن نتیجہ کوئی نہیں نکلے گا، نتیجہ تبھی آئے گا کہ ہم متعلقہ فورموں پر جائیں گے، وہاں اپنی بات کر کے کیس لڑیں گے اور اپنا موقف پیش کر کے اپنا موقف منوائیں گے، جیسے اب تک منواتے چلے آرہے ہیں اس کے بغیر بات نہیں بنے گی، اللہ پاک ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔ و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔