زیر نظر مضمون میں شریعت بل کی مخالفت کرنے والے حلقوں اور ان کی مخالفت کی وجوہ کا ایک سرسری جائزہ پیش کیا جا رہا ہے تاکہ قارئین کے لیے ان بھانت بھانت کی بولیوں کے پس منظر کو سمجھنا آسان رہے جو شریعت بل کی مخالفت میں ایک آواز ہو گئی ہیں۔
حکومتی حلقے
شریعت بل کی مخالفت میں سب سے پیش پیش حکومتی حلقے ہیں۔ جس روز سینٹ میں ’’شریعت بل‘‘ پیش کیا گیا اس وقت کے وزیر قانون اقبال احمد خان نے اسے بحث کے لیے منظور کرنے کی مخالفت کی، لیکن ووٹنگ میں اس وقت تک غیر جماعتی ایوان ہونے کی وجہ سے تین ووٹوں کی اکثریت سے شریعت بل کو بحث کے لیے منظور کر لیا گیا۔ اس کے بعد سے اب تک وزیر اعظم سمیت کم و بیش سبھی وزراء شریعت بل کی مخالفت میں پیش پیش ہیں۔
صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے ایک مرحلے پر عوام سے اپیل کی کہ وہ شریعت بل کی منظوری کے لیے ارکانِ اسمبلی پر دباؤ ڈالیں۔ لیکن یہ اپیل بھی ایک چال تھی جس کا مقصد شریعت بل کے حق میں اپنا نام نہاد حمایت کا تاثر دے کر ملک کے سیاسی حلقوں کو شریعت بل سے دور کرنا اور شکوک و شبہات کی فضا پیدا کرنا تھا اور اس چال میں وہ پوری طرح کامیاب رہے ہیں۔ ورنہ اگر وہ شریعت بل کی منظوری میں مخلص ہوتے تو عوام سے دباؤ ڈالنے کی اپیل کی بجائے خود اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے اسے اس طرح منظور کراتے جس طرح انہوں نے آئین میں ترامیم کا آٹھواں بل منظور کرایا تھا۔
اس وقت وزیر قانون جناب وسیم سجاد اور وزیر مذہبی امور حاجی سیف اللہ خان شریعت بل کی مخالفت میں سب سے آگے ہیں۔ حاجی سیف اللہ خان ابتدا میں شریعت بل کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی مدظلہ العالی کے مکتوب کے جواب میں انہوں نے شریعت بل کی حمایت میں جو خط تحریر کیا وہ اس ’’شریعت بل نمبر‘‘ میں شامل کیا جا رہا ہے۔ اسلام آباد میں متحدہ شریعت محاذ کے عظیم الشان عوامی مظاہرہ کے موقع پر حاجی سیف اللہ خان نے شریعت بل کی حمایت میں خطاب بھی کیا، مگر اب وزیر بننے کے بعد وہ اپنے موقف پر قائم رہنے کی بجائے سرکاری پالیسیوں کے مناد بن گئے ہیں۔
حکومتی حلقوں کی طرف سے شریعت بل کی مخالفت میں دو باتیں اصرار کے ساتھ کہی جا رہی ہیں:
ایک یہ کہ یہ بل ایک فرقہ کو مسلط کرنے کا باعث بنے گا۔ لیکن نہ تو آج تک کسی وزیر نے مسلط ہونے والے فرقے کی نشاندہی کی ہے، اور نہ ہی شریعت بل کی اس دفعہ کا حوالہ دیا ہے جس سے انہیں یہ خطرہ نظر آ رہا ہے۔
دوسری طرف یہ بات کہی جا رہی ہے کہ شریعت بل کی دفعات پر عملدرآمد کے لیے آئین میں ترامیم ضروری ہیں۔ لیکن اس بات کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے کہ جب حکومت اپنے مفادات اور ضروریات کے لیے آٹھویں اور دسویں ترمیمی بل کی صورت میں آئین میں ترامیم کرا لی ہیں تو نفاذِ شریعت کے لیے آئین میں ضروری ترامیم سے آخر اسے انکار اور جھجھک کیوں ہے؟
پیر صاحب پگارا شریف
پیر صاحب آف پگارا شریف بھی حکومتی حلقوں کا ہی ایک حصہ ہیں لیکن ان کی مخالفت کا الگ سے ذکر اس لیے ضروری ہے کہ انہوں نے اپنی مخالفت کی وجہ کچھ الگ ذکر کی ہیں۔ شریعت کی بل کی مخالفت میں ان کے بیانات ایک عرصے سے شائع ہو رہے ہیں۔
ایک مرحلہ پر انہوں نے علماء کے ۲۲ دستوری نکات کو شریعت بل کی مخالفت کی بنیاد بنایا، مگر جب ان کی خدمت میں ۲۲ نکات کا مسودہ بھجوا کر یہ عرض کیا گیا کہ وہ ان ۲۲ نکات اور شریعت بل میں کسی تضاد کی نشاندہی کر دیں ہم وہ تضاد دور کر دیں گے، تو انہوں نے ۲۲ نکات کا ذکر چھوڑ دیا۔
اور اب روزنامہ نوائے وقت راولپنڈی ۲۵ اپریل ۱۹۸۷ء کے مطابق سینٹ کے کیفے ٹیریا میں اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے دل کی بات یہ کہہ کر ظاہر کر دی کہ ’’شرعی قوانین کی بات چھوڑو، شریعت کی سزائیں تو بہت سخت ہیں۔‘‘
شیعہ حضرات
شریعت بل کی مخالفت میں شیعہ تنظیمیں بھی بہت زیادہ متحرک ہیں۔ ان کے اختلاف کی وجہ معلوم کرنے کے لیے ۱۵ شیعہ تنظیموں پر مشتمل آل پارٹیز شیعہ فیڈریشن کے راہنماؤں کی مشترکہ پریس کانفرنس پر نظر ڈال لیجئے جس کی کارروائی روزنامہ جنگ لاہور ۶ اپریل ۱۹۸۶ء میں شائع ہوئی ہے۔ ان راہنماؤں نے کہا ہے کہ شریعت بل کی دفعہ ۲ کی شق ج اور د اہل تشیع کے لیے قطعی ناقابل قبول ہیں۔
بل کی دفعہ ۲ میں شریعت کی قانونی تعریف کی گئی ہے اور اس کی شق ج اور د یہ ہیں:
ج: اجماعِ امت کو قرآن و سنت نے حجت قرار دیا ہے۔ اس لیے جو قانون اجماع سے ثابت اور ماخوذ ہو وہ بھی شریعت کا قانون ہے۔
د: جو احکام امت کے معتمد اور مستند مجتہدین نے قرآن و سنت اور اجماع کے قواعد اور ۔۔ معینہ کے مطابق مستنبط کر کے مدون کرائے ہیں وہ بھی شریعت ہی کے قوانین ہیں۔ اس لیے کہ قیاس اور اجتہاد کو، بشرطیکہ وہ قرآن و سنت اور اجماع کے خلاف نہ ہو، قرآن اور سنت نے حجت قرار دیا ہے۔
ان شقوں کی مخالفت کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کی منظوری کی صورت میں فقہ جعفریہ کو ملک میں متوازن قانون کی صورت میں نافذ کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی جس کا مطالبہ اہلِ تشیع ایک عرصہ سے کر رہے ہیں۔ اور ملک کے عمومی قانون میں فقہ جعفریہ کے متوازی نفاذ کا مطالبہ قطعی غیر اصولی ہے جسے کسی صورت میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔
شریعت بل کی یہی ایک دفعہ ہے جسے سرکاری حلقے فرقہ واریت کے طعنے کا بہانہ بنا رہے ہیں، لیکن کھل کر یہ کہنے کی جرأت بھی نہیں کر رہے کہ وہ اس حوالہ سے شریعت بل کو فرقہ وارانہ قرار دے کر دراصل فقہ جعفریہ کے نفاذ کے مطالبہ کی حمایت کرنا چاہتے ہیں۔
مذکورہ بالا پریس کانفرنس میں شیعہ راہنماؤں نے شریعت بل کی دفعہ ۱۲، ۱۴ اور ۱۵ کو بھی قابلِ اعتراض قرار دیا ہے۔ یہ دفعات بالترتیب درج ذیل ہیں:
۱۲۔ قران و سنت کی وہی تعبیر معتبر ہو گی جو اہلِ بیت عظامؓ، صحابہ کرامؓ اور مستند مجتہدین کے علمِ اصولِ تفسیر اور علمِ اصولِ حدیث کے مسلّمہ قواعد کے مطابق ہو۔
۱۴۔ تمام ذرائع ابلاغ کو خلافِ شریعت پروگراموں، فواحش اور منکرات سے پاک کیا جائے۔
۱۵ حرام طریقوں اور خلافِ شریعت کاروبار کے ذریعے دولت کمانے پر پابندی ہو گی۔
ان دفعات کو پڑھ کر قارئین خود اندازہ کر لیں کہ شیعہ تنظیموں کی طرف سے ان شقوں کو قابلِ اعتراض قرار دینے کی وجوہ آخر کیا ہو سکتی ہیں؟
اہلحدیث حضرات
اہل حدیث مکتبِ فکر کی تین بڑی تنظیمیں مرکزی جمعیۃ اہلِ حدیث پاکستان (امیر مولانا معین الدین لکھوی)، جماعت اہلحدیث پاکستان (امیر مولانا حافظ عبد القادر روپڑی) اور جماعت غربائے اہلحدیث پاکستان (امیر مولانا عبد الرحمٰن سلفی) متحدہ شریعت محاذ کے ساتھ ہیں اور شریعت بل کی منظوری کی جدوجہد میں شریک ہیں۔
البتہ ایک اہم جماعت جمعیۃ اہلحدیث پاکستان (امیر مولانا محمد عبد اللہ) اس کی مخالفت کر رہی ہے۔ جمعیۃ اہلحدیث کے ناظم اعلیٰ علامہ احسان الٰہی ظہیر مرحوم نے ابتدا میں شریعت بل کی حمایت کی تھی، حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی کے مکتوب کے جواب میں علامہ ظہیر مرحوم کا خط اسی اشاعت میں شامل کیا جا رہا ہے۔ لیکن بعد میں انہوں نے شد و مد کے ساتھ اس کی مخالفت شروع کر دی۔
روزنامہ نوائے وقت لاہور ۵ ستمبر ۱۹۸۶ء میں علامہ احسان الٰہی ظہیر مرحوم کا ایک مفصل مضمون چھپا ہے جس میں انہوں نے شریعت بل کے ساتھ اپنے اختلاف کی وضاحت کرتے ہوئے شریعت بل کی دفعہ ۲ کی اس شق ج اور د کو قابلِ اعتراض قرار دیا جن کا اوپر ذکر ہو چکا ہے۔ اور انہوں نے جمعیۃ اہلحدیث پاکستان کی قرارداد کے حوالہ سے لکھا کہ اگر ان شقوں کو بدل دیا جائے تو شریعت بل کو اہلحدیث حضرات کی حمایت حاصل ہو سکتی ہے۔
ان شقوں کے اندر متحدہ شریعت محاذ کے اندر مولانا معین الدین لکھوی اور مولانا حافظ عبد القادر روپڑی نے بھی اعتراض کیا لیکن مخالفت کا عنوان بنانے کی بجائے برادرانہ افہام و تفہیم کے ساتھ ان میں ردوبدل پر زور دیا۔ چنانچہ ان شقوں کو متحدہ شریعت محاذ کی متفقہ ترامیم میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور ان ترامیم کو سینٹ میں داخل بھی کر دیا گیا ہے۔
علامہ ازیں علامہ احسان الٰہی ظہیر مرحوم اپنی شہادت سے چند روز قبل ’’جنگ فورم‘‘ میں واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ شریعت بل کے نہیں بلکہ موجودہ حکمرانوں سے اس کا مطالبہ کرنے کے مخالف ہیں۔ اور انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ متحدہ شریعت محاذ نے حکومت کے خلاف تحریک چلائی تو وہ اس تحریک میں سب سے آگے ہوں گے۔ (بحوالہ روزنامہ جنگ لاہور ۲۰ مارچ ۱۹۸۷ء)
اس لیے امید ہے کہ ان کے حلقے کی طرف سے مخالفت کی اب سابقہ صورت باقی نہیں رہے گی اور نہ ہی اس کا کوئی اصولی جواز باقی رہ گیا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن
شریعت بل کی مخالفت میں مولانا فضل الرحمٰن کے بیانات بھی بڑے تند و تیز لہجے میں آ رہے ہیں، حالانکہ خود ان کی جماعت کے امیر حضرت مولانا سید حامد میاں صاحب مدظلہ اپنے تحریری بیان میں فرما چکے ہیں کہ
صدر ضیاء اگر اپنے اشارۂ ابرو پر چلنے والے ارکان سے ذرا کچھ کہہ دیتے تو اس بل کو، جس کا نام ہی قابلِ احترام ہے، اس طرح نہ رگیدا جاتا، اسے بلا تامل قبول کر لیا جاتا۔ اس کی بے حرمتی کے گناہ میں وہ بھی شریک ہیں، انہیں توبہ و استغفار کر کے بلاتامل اسے پاس کرانا چاہیے۔ یہ ان کا مذہبی فریضہ ہے، وہ خدا کے یہاں اس کے لیے جوابدہ ہوں گے۔‘‘
اور ان کی جماعت کے سرپرست اعلیٰ حضرت مولانا خان محمد صاحب مدظلہ العالی نے بھی شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحق صاحب مدظلہ کے نام اپنے مکتوب گرامی میں شریعت بل کی واضح حمایت کی ہے۔ ان دونوں بزرگوں کے مکتوب ترجمان اسلام کی اسی اشاعت میں شائع کیے جا رہے ہیں۔ لیکن اس سے قطع نظر مولانا فضل الرحمٰن کا موقف یہ ہے کہ چونکہ موجودہ اسمبلیاں غیر جماعتی بنیادوں پر منتخب ہوئی ہیں، ان کی دستوری حیثیت متنازعہ ہے، اس لیے وہ ان متنازعہ اسمبلیوں اور غیر آئینی حکومت کے سامنے شریعت کے نفاذ کے مطالبہ کے حق میں نہیں ہیں اور اس لیے شریعت بل کی مخالفت کر رہے ہیں۔
مگر تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن صاحب شریعت بل کے نفاذ کے لیے تو موجودہ اسمبلیوں اور حکومت کی آئینی حیثیت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں لیکن اسی حکومت کے وزیر اعظم کے ساتھ کراچی کے انٹرنیشنل ہوٹل میں رات کے وقت خفیہ ملاقات اور عبدل خیل میں اپنی رہائش گاہ پر وزیر اعظم کے خیر مقدم اور ان کے ساتھ مذاکرات میں آئین کا یہ تقدس ان کی نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ پھر جب (۱۶ فروری ۱۹۸۶ء) وزیر اعظم جونیجو کے ساتھ تحریک ختم نبوت کے مذاکرات میں مجلس عمل کے وفد کی قیادت مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت ہی کے سرپرست اعلیٰ حضرت مولانا خان محمد مدظلہ فرماتے ہیں اور وفد میں ان کے علاوہ مولانا موصوف کی جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ کے ایک اہم رکن مولانا محمد عبد اللہ آف بھکر بھی شریک ہوتے ہیں تو حکومت اور اسمبلیوں کی غیر نمائندہ اور متنازعہ حیثیت کا کوئی سوال نہیں رہتا۔ اور شریعت بل کے نفاذ کا مسئلہ آتا ہے تو مولانا فضل الرحمٰن صاحب اسمبلیوں اور حکومت کے لیے غیر نمائندہ، غیر دستوری، متنازعہ، غیر اخلاقی، غیر قانونی اور ناجائز حکومت کی گردان شروع کر دیتے ہیں۔ اس سے قارئین بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ شریعت بل کی مخالفت میں مولانا موصوف کے تند و تیز بیانات کی حقیقت کیا ہے۔
بریلوی مکتب فکر
بریلوی مکتبِ فکر کی سرکردہ علمی شخصیات (۱) مولانا مفتی محمد حسین نعیمی، مہتمم جامعہ نعیمیہ لاہور (۲) مولانا مفتی عبد القیوم ہزاروی، ناظم اعلیٰ تنظیم المدارس پاکستان (۳) مولانا مفتی عبد القیوم خان، شیخ الحدیث حزب الاحناف لاہور (۴) مولانا مفتی عبد اللطیف، شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ لاہور، اپنے دیگر رفقاء سمیت متحدہ شریعت محاذ میں شامل ہیں اور شریعت بل کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔
بریلوی مکتب فکر کی بڑی مذہبی تنظیم جماعت اہلسنت پاکستان کے صدر مولانا مفتی مختار احمد نعیمی بھی ابتدا میں متحدہ شریعت محاذ کی جدوجہد کی حمایت کر چکے ہیں، ان کا مکتوب گرامی الگ شائع کیا جا رہا ہے۔
پروفیسر محمد طاہر القادر اور مولانا غلام علی اوکاڑوی نے بھی اپنے بیانات میں اس کی حمایت کی ہے۔
۱۹ مارچ ۱۹۸۷ء کو جنگ فورم میں مولانا عبد الستار خان نیازی نے بھی یہ فرمایا ہے کہ شریعت بل کی کوئی دفعہ اسلام کے خلاف نہیں ہے، البتہ بعض دفعات اصلاح طلب ہیں۔
مگر سرکردہ شخصیات کی طرف سے مخالفت بھی سامنے آ رہی ہے۔ مولانا شاہ احمد نورانی کی مخالفت کی وجوہ بھی مولانا فضل الرحمٰن کی طرح سیاسی ہیں، اس لیے ان کے الگ ذکر کی ضرورت نہیں۔
البتہ صاحبزادہ فضل کریم صاحب اپنے بیانات میں اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ چونکہ شریعت بل میں فقہ حنفی کی صراحت نہیں ہے اس لیے وہ اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ (۱) قرارداد مقاصد (۲) علماء کے ۲۲ نکات (۳) ۱۹۷۳ء کا دستور اور (۴) ۱۹۷۷ء میں قومی اتحاد کا نظام مصطفیٰ پر مبنی انتخابی منشور، ان میں سے کسی میں بھی فقہ حنفی کی صراحت نہیں ہے، مگر صاحبزادہ فضل کریم اور ان کے ہمنواؤں کو ان میں سے کسی پر اعتراض نہیں ہے، اور وہ ان متفقہ دستاویزات کو نہ صرف قبول کر رہے ہیں بلکہ ان کو شریعت بل کی مخالفت کی بنیاد بھی بنا رہے ہیں۔ لیکن شریعت بل کی مخالفت کے لیے فقہ حنفی کو انہوں نے آڑ بنا لیا ہے، حالانکہ شریعت بل بھی ان متفقہ دستاویزات کے تسلسل کا ایک حصہ ہے اور اس کی ترتیب و تدوین میں بھی اسی اصول کو اپنایا گیا ہے جو اصول مذکورہ بالا دستاویزات مرتب کرنے کرنے والے اکابرین کے پیش نظر تھا۔
یہ وہ حلقے ہیں جو اپنی سیاست کی بنیاد اسلام کو قرار دیتے ہیں اور اسلام کے حوالے سے قوم کے سامنے آتے ہیں۔ باقی رہے وہ حلقے جو اسلام کو ایک اجتماعی نظام کے طور پر تسلیم ہی نہیں کرتے بلکہ اسے صرف ذاتی مذہب کا درجہ دے کر اجتماعی نظام میں مغربی جمہوریت، سیکولرازم، سوشلزم کے نفاذ اور فروغ کے لیے مصروفِ عمل ہیں، ان کی طرف سے شریعت بل کی مخالفت ناقابلِ فہم نہیں ہے۔ اسلامی نظام کی مخالفت تو ان کا مشن اور مقصد ہے، انہیں قوم اچھی طرح پہچانتی ہے اور ان کی طرف سے شریعت بل کی مخالفت کی وجوہ بھی سب پر واضح اور عیاں ہیں۔