۵ اپریل کو جامعہ عثمان بن عفانؓ ڈیرہ غازی خان میں علماء کرام کی ایک نشست میں گفتگو کا موقع ملا، اس کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے:
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میرے لیے خوشی کی بات ہے کہ علماء کرام کے اپنے ماحول میں مجھے کچھ گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا ہے، اس لیے کہ اپنی برادری میں اور اپنے ماحول میں بات چیت کرتے ہوئے یہ آسانی رہتی ہے کہ کھلے دل سے بعض باتیں کہی جا سکتی ہیں۔ جبکہ عمومی جلسہ اور عوامی ماحول میں بہت سی باتیں کہنا مناسب نہیں ہوتا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علماء کرام کی یاد دہانی کے لیے یہ بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے اکابر کا ہمیشہ سے یہ معمول رہا ہے کہ وہ حالات کے تغیر اور اس سے پیدا شدہ صورت حال پر مسلسل نظر رکھتے ہیں اور اس حوالہ سے سامنے آنے والے مسائل اور ضروریات کو نظر انداز کرنے کی بجائے ان کے حل کی صورتیں نکالتے ہیں۔ اس لیے کہ نئے پیدا ہونے والے مسائل کو نظر انداز کر دینا ان کا صحیح حل نہیں ہوتا بلکہ ان کے مناسب حل کی طرف قوم کی راہ نمائی کرنا علماء کرام کی ذمہ داری شمار ہوتا ہے۔
یہ بات تو فطری طور پر طے ہے کہ حالات تبدیل ہوتے رہتے ہیں، قوموں کے عرف و تعامل میں مسلسل تغیر بپا رہتا ہے۔ اور یہ اصول بھی مسلمہ ہے کہ عرف و تعامل کے تغیر سے شریعت کے ان احکام میں بھی ارتقا کا عمل جاری رہتا ہے جو صریح طور پر منصوص نہیں ہیں اور جنہیں اجتہاد کے دائرے میں شمار کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر دو حوالوں سے اس کا جائزہ لے لیں:
پہلا یہ کہ عقائد کے باب میں عقلی مباحث کا صحابہ کرامؓ اور کبار تابعینؒ کے دور میں کوئی وجود نہیں تھا بلکہ انہیں ناپسند کیا جاتا تھا۔ اس دور میں عقائد کے حوالہ سے عقلی مباحث کو ’’کلام‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور چاروں ائمہ کرام یعنی حضرت امام ابوحنیفہؒ ، حضرت امام مالکؒ ، حضرت امام شافعیؒ اور حضرت امام احمد بن حنبلؒ سے ان کی مذمت منقول ہے۔ حتیٰ کہ حضرت امام ابو یوسفؒ سے یہ فتویٰ بھی منقول ہے کہ متکلم کے پیچھے نماز جائز نہیں ہے۔ لیکن جب یونانی فلسفہ کے فروغ سے معتزلہ کا طبقہ سامنے آیا اور انہوں نے عقائد میں عقلی شکوک و شبہات کا بازار گرم کیا تو اسلامی عقائد کے تحفظ و دفاع کے لیے اسی علم کلام کو ہمارے بہت سے اکابر نے اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ اور امام ابوالحسن اشعریؒ ، امام ابو منصوری ماتریدیؒ ، امام غزالیؒ ، شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ ، اور دیگر علماء امت نے یونانی فلسفہ کے پیدا کردہ شکوک و شبہات کو اسی کے ہتھیاروں سے سبوتاژ کر کے رکھ دیا۔ حتیٰ کہ اب ہمارے دینی مدارس کے نصاب میں عقائد کا شعبہ ’’علم کلام‘‘ کے عنوان سے ہی پڑھا جاتا ہے۔
اسی طرح فقہ و شریعت کے شعبہ میں ’’فقہ فرضی‘‘ یا ’’فقہ تقدیری‘‘ یعنی کوئی واقعہ پیش آئے بغیر محض مسئلہ کی صورت فرض کر کے اس کا حکم بیان کرنے کو صحابہ کرامؓ کے دور میں پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ اور غالباً حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے ایک روایت میں منقول ہے کہ ان سے کسی شخص نے مسئلہ پوچھا تو انہوں نے سوال کیا کہ کیا ایسا ہوا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ہوا تو نہیں لیکن اگر ہو جائے تو کیا حکم ہوگا؟ انہوں نے فرمایا کہ ’’اگر‘‘ سے بات نہ کرو، جب ہوگا تب مسئلہ بھی پوچھ لینا۔ لیکن بعد میں اس کی نہ صرف ضرورت محسوس کی گئی بلکہ ہزاروں صورتیں فرضی طور پر طے کر کے ان کے احکام بیان کرنے کا سلسلہ چل پڑا۔ حتیٰ کہ امام اعظم ابو حنیفہؒ نے باقاعدہ علمی مجلس قائم کر کے ۸۰ ہزار کے لگ بھگ مسائل کا اسی صورت میں حل پیش کیا جو فقہ حنفی کا شاندار اور قابل فخر ذخیرہ ہے۔ جبکہ باقی ائمہ عظامؒ کی فقہی کاوشوں کا بھی زیادہ تر حصہ ’’فقہ تقدیری‘‘ کے اسی دائرے میں شامل ہے اور یہ سلسلہ اہل علم میں اب تک جاری و ساری ہے۔
اس کے ساتھ ایک اور پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ ہمارے اپنے دائرہ میں یعنی احناف کے ماحول میں حالات کے تغیر کے ساتھ ساتھ احکام کے ارتقا کا سلسلہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ جیسا کہ بہت سے مسائل میں متقدمین احناف اور متاخرین احناف کے فتاویٰ میں واضح فرق کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔ ایک دور وہ تھا جب فتویٰ کے لیے حضرت امام محمدؒ اور حضرت امام ابو یوسفؒ کی کتابیں اولین مرجع ہوتی تھیں۔ پھر امام طحاویؒ ، فقیہ ابو اللیث سمرقندیؒ ، اور صاحب ہدایہؒ کی کتابوں نے یہ مقام حاصل کیا۔ زمانہ آگے بڑھا تو یہ حیثیت فتاویٰ عالمگیری کو حاصل ہوگئی اور آگے چل کر علامہ شامیؒ کے فتاویٰ ہمارے ہاں فتویٰ کا پہلا ماخذ قرار پائے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ حالات کی تبدیلی اور عرف و تعامل کا تغیر تھا جس کے باعث ہمارے فقہی ذخیرہ میں بھی ارتقا کا عمل جاری رہا۔
اسی وجہ سے میں یہ عرض کرتا رہتا ہوں کہ علامہ شامیؒ کا انتقال ۱۲۵۲ھ میں ہوا تھا، ان کے بعد ڈیڑھ صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور حالات و زمانہ کے ساتھ ساتھ عرف و تعامل میں تبدیلی کے حوالہ سے یہ سب سے تیز رفتار دور ہے۔ جتنی تبدیلیاں عالمی، علاقائی اور مقامی حوالوں سے اس دور میں ہوئی ہیں، شاید پچھلی کئی صدیوں میں نہ ہوئی ہوں۔ اس لیے آج کے دور میں کسی نئے فتاویٰ عالمگیری اور علامہ شامیؒ کی ضرورت شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ اگرچہ ہمارے علمی اداروں میں اس حوالہ سے بہت کام ہو رہا ہے اور بہت سی علمی شخصیات قابل قدر خدمات سر انجام دے رہی ہیں لیکن میری طالب علمانہ رائے میں اس کے لیے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے دور اور اسلوب کی طرف واپسی ضروری ہے کہ انفرادی کوششوں کے ساتھ ساتھ مشاورتی اجتہاد کا راستہ بھی اختیار کیا جائے۔ اور مختلف علمی اسالیب اور صلاحیتوں کو یک جا کر کے اجتماعی فقہی و فکری کاوشوں کا اہتمام کیا جائے۔
اس پس منظر میں علماء کرام بالخصوص مفتیان عظام اور دینی مدارس کے اساتذہ سے گزارش ہے کہ وہ زمانے کی ضروریات اور حالات کے تغیر و تبدل کو نظر انداز کرنے کی بجائے ان کا سامنا کریں اور اپنے مطالعہ و تحقیق کے ذوق کو ترقی دیتے ہوئے علمی و فقہی معلومات کے دائرہ میں وسعت پیدا کر کے اس حوالہ سے خود کو امت مسلمہ کی راہ نمائی کے لیے تیار کریں۔