تحریک ختم نبوت کی معروضی صورتحال اور اہم تقاضے

   
۱۷ ستمبر ۲۰۲۴ء

(۱۷ ستمبر ۲۰۲۴ء کو ختمِ نبوت کانفرنس جامع مسجد احرار چناب نگر سے خطاب)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میرے لیے سعادت کی بات ہے کہ اس سالانہ کانفرنس میں جو مجلس احرارِ اسلام کے زیر اہتمام سالہا سال سے اس مرکز میں منعقد ہو رہی ہے، شرکت کی سعادت حاصل ہوئی ہے، علماء کرام اور بزرگان دین کی زیارت کی ہے اور احرار قافلے میں تھوڑی دیر وقت گزارنے کا موقع ملا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے ان بزرگوں کے مشن کو اور اس کام کو تکمیل سے نوازیں اور ہمیں ان ہمیشہ ساتھ دیتے رہنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین۔

میں تھوڑا سا ذرا دھیمے انداز میں یہ تبصرہ کرنا چاہوں گا کہ ہم کہاں سے چلے تھے، آج کہاں کھڑے ہیں اور آئندہ ہمیں کیا خطرات اور مراحل درپیش ہیں؟

مرزا غلام احمد قادیانی نے جب نبوت کا دعویٰ کیا تو سب سے پہلے اس کا سامنا علماء کرام نے کیا تھا، علمائے لدھیانہ اور دیگر علماء کرام نے کیا تھا کہ مرزا قادیانی نبوت کے دعوے کے بعد دائرہ اسلام سے خارج ہے اور اس کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس تحریک کا پہلا دور علماء کرام کی تقاریر کا تھا، مناظروں کا تھا اور لوگوں کو سمجھانے کا تھا کہ عقیدۂ ختم نبوت کیا ہے، قادیانی کفر کیا ہے اور قادیانیوں کو کافر کہنے کے وجوہ کیا ہیں؟ اس میں پہلا راؤنڈ علماء کرام کا تھا، جس میں ہمارے اکابر حضرت علامہ انور شاہ کاشمیری، حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی اور حضرت مولانا ثنا اللہ امرتسری رحمہم اللہ تعالیٰ کی راہ نمائی میں علماء امت نے نے ایک طویل دور گزارا۔انہوں نے علماء امت کو منظم کر کے عوام کو یہ بات سمجھائی کہ مرزا غلام احمد قادیانی سمیت جو بھی نبوت کا دعویٰ کرے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے اور اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ان اکابر کے ساتھ نئی نسل کو مسئلہ قادیانیت سمجھانے میں بہت بڑا کردار علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کا بھی ہے۔ انہوں نے اپنے انداز میں سمجھایا جبکہ ہمارے اکابر نے اپنے انداز میں سمجھایا۔ الغرض ایک دور مناظرے اور بحث و مباحثے کا تھا، جس کے ذریعے ان حضرات نے پورے ملک میں عوام کو آگاہ کیا، بیدار کیا اور لوگوں کو سمجھایا۔

اس کے بعد دوسرا دور عدالتوں کا چلا۔ ۱۹۱۹ء میں جنوبی افریقہ کی عدالت میں یہ مسئلہ زیر بحث آیا اور جنوبی افریقہ کی عدالت نے دلائل سن کر یہ فیصلہ دیا تھا کہ قادیانیوں کا اسلام کے ساتھ اور مسلمانوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ پھر بہاولپور کی عدالت کا فیصلہ اور راولپنڈی کے سیشن کورٹ کا فیصلہ آیا اور عدالتی ماحول میں یہ مسئلہ واضح ہو گیا۔

تیسرا دور پارلیمنٹ کا تھا۔ منتخب نمائندوں اور منتخب پارلیمنٹ میں سب سے پہلے آزاد کشمیر نے دو ٹوک فیصلہ دیا۔ وہاں سے بات شروع ہوئی اور ۱۹۷۴ء میں پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے دستوری پراسیس کے ساتھ قادیانیوں کے سربراہوں کو بھی بلا کر دو ہفتے بحث کر کے اور تمام تقاضے پورے کر کے یہ متفقہ فیصلہ دیا کہ قادیانی مسلمانوں کا حصہ نہیں ہیں، کافر ہیں، دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور پاکستان میں بطور مسلمان، اسلام کے نام کے ساتھ اور اسلام کی علامات کے ساتھ ان کو کام کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔

میں یہ اس موقع پر بات ذہن میں تازہ کرنا چاہوں گا کہ ۱۹۷۴ء کا فیصلہ صرف مذہبی جماعتوں کا فیصلہ نہیں تھا، بلکہ پارلیمنٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی بھی تھی، پاکستان مسلم لیگ بھی تھی، جمعیت علماء اسلام بھی تھی، جماعت اسلامی بھی تھی، جمعیت علماء پاکستان بھی تھی اور نیشنل عوامی پارٹی بھی تھی۔ تمام قوم پرست حلقے، تمام پولیٹیکل پارٹیاں، تمام مذہبی اور سیاسی جماعتیں، جناب ذوالفقار علی بھٹو سمیت، جناب میاں ممتاز دولتانہ اور جناب ولی خان سمیت تمام قائدین نے متفقہ فیصلہ کیا۔ جبکہ باہر میدان میں بھی صرف علماء نہیں تھے، بلکہ بار ایسوسی ایشن بھی تھی، ہر شہر میں وکلاء بھی تھے، تاجر بھی تھے، ہر شہر کی تاجر برادری بھی تھی، اور اساتذہ اور طلبہ بھی سڑکوں پر تھے۔ ان کے موقف کو عوام کی منتخب پارلیمنٹ نے متفقہ فیصلے کے ذریعے ملک کے دستور کا حصہ بنا دیا اور دستور پاکستان میں ترمیم کر کے قادیانی گروہ کو غیر مسلم اقلیت کا درجہ دے دیا۔ اس لیے میں یہ بات دہرانا چاہوں گا کہ یہ فیصلہ ہمارا تو تھا ہی، لیکن یہ قومی فیصلہ تھا، یہ فیصلہ صرف مذہبی جماعتوں کا نہیں، بلکہ پوری قوم کا متفقہ فیصلہ تھا کہ قادیانیوں کا اسلام کے ساتھ اور مسلمانوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

لیکن قادیانیوں نے ۱۹۷۴ء میں پارلیمنٹ کے اس متفقہ دستوری فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا اور اس سے مسلسل منحرف رہے تو ان کے انکار اور ضد کی وجہ سے ۱۹۸۴ء کا قانون آیا۔ جب انہوں نے انکار کر دیا کہ ہم تو مسلمان کہلائیں گے، مسلمانوں والے کام کریں گے، مسلمانوں کی اصطلاحات استعمال کریں گے اور ہم اس ٹائٹل سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں تو ان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ۱۹۸۴ء کا امتناع قادیانیت آرڈیننس نافذ کرنا پڑا، اور اس کے بعد پھر ایک نیا دور شروع ہوا۔ میں اس پر تھوڑی سی بات کرنا چاہوں گا۔

۱۹۸۴ء تک ہمارے سارے معاملات پبلک میں تھے، عدالتوں میں تھے اور اسمبلیوں میں تھے لیکن اس کے بعد یہ سارے معاملات بین الاقوامی ماحول میں منتقل ہو گئے۔ اقوام متحدہ، جنیوا ہیومن رائٹس کمیشن، یورپی یونین اور انٹرنیشنل ایمنسٹی سب اس میں ملوث ہوئے، یہ بات بین الاقوامی فورموں پر چلی گئی اور بین الاقوامی فورموں نے قادیانیوں کی پشت پناہی شروع کر دی۔ اس کے بعد سے اب تک قادیانی جو کچھ کر رہے ہیں وہ بین الاقوامی اداروں اور فورموں کی پشت پناہی کی بنیاد پر کر رہے ہیں۔ ۱۹۸۴ء کے بعد جب بین الاقوامی فورمز نے قادیانیوں کی براہ راست سرپرستی شروع کی تو اس میں ہم نے کیا کردار ادا کیا؟ اس پر الگ بحث کی ضرورت ہے، اس وقت میں صرف اتنا عرض کر رہا ہوں کہ اس وقت ہم اس مرحلے میں ہیں کہ بین الاقوامی اداروں میں بحث ہو رہی ہے، قراردادیں ہو رہی ہیں، معاہدات ہو رہے ہیں، فیصلے ہو رہے ہیں اور مستقل دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ ہم اس وقت اس مرحلے سے گزر رہے ہیں۔

پہلا دور عوام میں دلائل کے ساتھ سمجھانے کا تھا، دوسرا دور عدالتوں میں اس کو ثابت کرنے کا اور منوانے کا تھا، تیسرا دور پارلیمنٹ کے ذریعے اس کو نافذ کروانے کا تھا اور چوتھا دور جو بین الاقوامی اداروں کی سرپرستی میں ان کی مداخلت سے اور بین الاقوامی اداروں کی دخل اندازی سے اب تک جاری ہے اور اب اس کو بڑھایا جا رہا ہے، یہ ابہام پیدا کرنے کا دور ہے۔

میں اس چوتھے دور کو دو حوالوں سے تعبیر کرتا ہوں۔ ۱۹۸۴ء میں جب قادیانی ہیڈ کوارٹر لندن منتقل ہوا تو اس کے بعد دو کام ہوئے ہیں:

پاکستان میں چار پانچ مواقع ایسے آئے ہیں جب ان فیصلوں کو ناکام بنانے کے لیے، غیر مؤثر بنانے کے لیے پارلیمنٹ کے ذریعے اور قانون سازی کے ذریعے کوشش کی گئی گئی، لیکن الحمد للہ انہیں اس میں ناکامی ہوئی۔ میں ان مرحلوں سے نہ صرف یہ کہ بخوبی واقف ہوں بلکہ اس میں کردار بھی ادا کرتا رہا ہوں۔ آج کا دور ان فیصلوں کے بارے میں ابہام پیدا کرنے کا دور ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں یہ ہے، اس کا نتیجہ یہ نہیں یہ ہے۔ اس کا جو مطلب علماء لے رہے ہیں، وہ نہیں ہے، وغیرہ۔ فیصلوں کے بارے میں ابہام پیدا کر کے نئی نسل کو کنفیوژ کرنے کے لیے عدالتوں کے ذریعے کوشش کی جا رہی ہے۔ عدالتوں میں کیا ہو رہا ہے، ابھی سپریم کورٹ میں کیا ہوا ہے، باقی عدالتوں میں کیا ہوا ہے، ابہام پیدا کرنے کی کوشش ہے۔

میں یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ ابہام کا ماحول پید اکرنے کے اس دور میں الحمد للہ ثم الحمد للہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں اللہ رب العزت نے ہمیں سرخروئی نصیب فرمائی ہے۔ سپریم کورٹ کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنا پڑی اور ابہام کو واضح کرنا پڑا، یہ قوم کی فتح ہے اور تحریک ختم نبوت کی فتح ہے۔ اس کے بعد سات ستمبر کو پورے ملک میں اور مینار پاکستان لاہور میں پوری قوم نے جمع ہو کر ایک دفعہ پھر ریفرنڈم کی صورت میں بتا دیا کہ قوم جہاں ۱۹۷۴ء میں کھڑی تھی، ۲۰۲۴ء میں بھی وہیں کھڑی ہے۔ ان سارے مراحل میں اللہ تعالیٰ نے سرخروئی نصیب فرمائی ہے، الحمد للہ۔

لیکن میں یہ بات کہنا چاہوں گا کہ یہ معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا، ابھی مزید شرارتیں ہوں گی، پہلے سے زیادہ ہوں گی، ابہام پیدا کرنے کی اور فیصلوں کو ناکام بنانے کی کوششیں ہوں گی، اس لیے یہ بات مجھے اور آپ کو یاد رکھنی چاہیے کہ پہلے بھی فیصلوں کو ناکام بنانے کی سازشوں کو عوام نے، علماء نے اور دینی قوتوں نے متحد ہو کر اور بیدار ہو کر ناکام بنایا ہے، تو اب ہمیں پہلے سے ذرا چوکنا ہونا ہوگا، پہلے سے زیادہ نظر رکھنا ہوگی، پہلے سے زیادہ متحد ہونا ہوگا اور اپنی اجتماعی قوت کے ساتھ اور اپنی بیداری کے ساتھ اس ابہام پیدا کرنے کے دور میں کردار ادا کرنا ہو گا۔

ایک بات اور شامل کروں گا کہ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت چلی تھی تو تقریباً دو نسلیں سنبھل گئی تھیں۔ ۱۹۸۴ء کی تحریک چلی تو پھر ایک نسل نے بیداری حاصل کی۔ اب کافی عرصہ سے ماحول نہیں بن رہا تھا، اس لیے آج کی نئی نسل باخبر نہیں ہے۔ میں یہ بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ختم نبوت کے تقاضوں سے، قادیانی سازشوں سے اور قادیانی پشت پناہوں کی حرکتوں سے آج کی نئی نسل باخبر نہیں ہے، لہٰذا ہمیں دو کام بہرحال کرنا ہوں گے:

(۱) ایک کام یہ کہ جن بین الاقوامی فورمز پر یہ مباحث زیر بحث ہیں، وہاں تک رسائی حاصل کر کے اپنی بات اور اپنا موقف کہنا ہوگا۔

(۲) اور دوسرا کام یہ ہے کہ ہمیں نئی نسل کو باخبر کرنا ہوگا۔ یہ نہیں کہ مسلمانوں کے بچے ہیں اس لیے ٹھیک ہے بلکہ ہمیں اپنی نئی نسل کو، کالج اور یونیورسٹی کی نسل کو، بچوں اور بچیوں دونوں کو حکمت کے ساتھ، شعور کے ساتھ اور نظم کے ساتھ اپنی تاریخ سے، اپنے عقائد سے، ختم نبوت کی اہمیت سے اور اس کے انکار کے نتائج سے واقف کرانا ہوگا۔

آج ہم اس مقام پر کھڑے ہیں اور خوشی ہے کہ ملک بھر میں دینی حلقے بیدار ہیں۔ سات ستمبر کا لاہور کا اجتماع اور احرار کا یہ اجتماع دلیل ہے کہ قوم بیدار ہے اور علماء سمجھ رہے ہیں، لیکن ہمیں ان دونوں تقاضوں پر توجہ کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔ اللہ رب العزت ہمیں کامیابی اور سرخروئی نصیب فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter