’’اسلام، جمہوریت اور پاکستان‘‘

   
۷ اکتوبر ۲۰۱۳ء

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ تبارک و تعالی ونصلی ونسلم علی رسولہ الکریم و علی آلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین۔

۱۹۶۲ء کی بات ہے جب صدر محمد ایوب خان مرحوم نے مارشل لاء ختم کرتے وقت نئے دستور کی تشکیل و ترتیب کے کام کا آغاز کیا تھا اور پاکستان کے نام سے ’’اسلامی‘‘ کا لفظ حذف کر کے اسے صرف ’’جمہوریہ پاکستان‘‘ قرار دینے کی تجویز سامنے آئی تھی، تو دینی و عوامی حلقوں نے اس پر شدید احتجاج کرتے ہوئے حکومت کو یہ تجویز واپس لینے پر مجبور کر دیا تھا۔ میری عمر اس وقت چودہ برس تھی اور میں نے بھی بحمد اللہ تعالیٰ اس جدوجہد میں اس طور پر حصہ لیا تھا کہ اپنے آبائی قصبہ گکھڑ میں ’’نظام العلماء پاکستان‘‘ کی دستوری تجاویز پر لوگوں سے دستخط کرائے تھے اور اس مہم میں شریک ہوا تھا۔ اس دوران اس حوالے سے ہونے والے عوامی جلسوں میں سعید علی ضیاء مرحوم کی ایک نظم بہت مقبول ہوئی تھی جس کا ایک شعر مجھے اب تک یاد ہے کہ ؎

ملک سے نام اسلام کا غائب، مرکز ہے اسلام آباد
پاک حکمران زندہ باد، پاک حکمران زندہ باد

تب سے اب تک ملک میں نفاذ اسلام کی جدوجہد کا کارکن چلا آ رہا ہوں۔ ہر تحریک میں کسی نہ کسی سطح پر شریک رہا ہوں اور اب بھی حسبِ موقع اور حتی الوسع اس کا حصہ ہوں۔ اس جدوجہد میں مجھے جن اکابر کی رفاقت کا شرف حاصل ہوا ہے ان میں مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ، مولانا مفتی محمودؒ، مولانا عبید اللہ انورؒ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ، مولانا عبد الحقؒ آف اکوڑہ خٹک، مولانا پیر محسن الدین احمدؒ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ، مولانا عبد الستار خان نیازیؒ، مولانا مفتی ظفر علی نعمانیؒ، مولانا معین الدین لکھویؒ، قاضی حسین احمدؒ اور والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ عوامی جلسوں، جلوسوں، قید و بند کے مراحل اور احتجاجی مظاہروں میں شرکت کے ساتھ ساتھ قلم و قرطاس کا میدان بھی میری جولان گاہ رہا ہے اور نفاذ اسلام کی جدوجہد کے بیسیوں پہلوؤں پر اخبارات و جرائد میں سیکڑوں مضامین لکھنے کی سعادت مجھے حاصل ہوئی ہے۔

عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ نے موجودہ حالات کے تناظر میں میری ان تحریری گزارشات کا ایک جامع انتخاب مرتب کیا ہے جو نفاذ اسلام کی جدوجہد کے معروضی تقاضوں کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ نفاذ اسلام کی جدوجہد میں میرا کوئی الگ فکری یا علمی تعارف نہیں ہے اور میں اس کے کم و بیش تمام پہلوؤں میں انہی بزرگوں اور جمہور علماء کی نمائندگی کرتا ہوں جن میں سے چند بزرگوں کا میں نے سطور بالا میں تذکرہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات جنت الفردوس میں بلند سے بلند فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

کسی دینی جدوجہد کے نتائج و ثمرات تک پہنچنا ہر کارکن کے لیے ضروری نہیں ہوتا، البتہ صحیح رخ پر محنت کرتے رہنا اس کی تگ و دو کا محور ضرور رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ مرتے دم تک اس جادۂ مستقیم پر قائم رہنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

اس کتابچہ کی اشاعت پر میں پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے ان طالب علمانہ گزارشات کو لوگوں تک پہنچانے کو مناسب خیال کیا، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter