فرائضِ شرعیہ اور لاہور ہائی کورٹ

   
اکتوبر ۲۰۰۲ء

روزنامہ پاکستان لاہور ۲۱ ستمبر ۲۰۰۲ء کی خبر کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے ممتاز قانون دان ایم ڈی طاہر کی یہ درخواست، کہ تعلیمی اداروں میں جہاد کی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے، یہ کہہ کر نمٹا دی ہے کہ جہاد شرعی فرائض میں سے ہے اس لیے اس کی ترغیب کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مسٹر ایم ڈی طاہر نے درخواست میں لکھا ہے کہ جہاد دینی فریضہ ہے اور پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے، اس لیے اس کے تعلیمی اداروں میں جہاد کی تعلیم کو لازمی قرار دیا جانا چاہیے، اور ہائی کورٹ اس سلسلہ میں حکومت کو ہدایات جاری کرے۔ جس کے جواب میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ بلاشبہ جہاد دینی فریضہ ہے لیکن یہ ہر مسلمان کو معلوم ہے اور دینی فرائض پر عمل کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے اس لیے اس کی ترغیب کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

چند ماہ قبل بھی اس قسم کی ایک درخواست لاہور ہائی کورٹ میں آئی تھی جس میں عدالتِ عالیہ سے استدعا کی گئی تھی کہ ملک میں اسلامی قوانین و احکام کے عملی نفاذ کے لیے ہدایات جاری کی جائیں۔ اس کے جواب میں بھی عدالتِ عالیہ نے یہ کہا تھا کہ ملک میں کسی اسلامی حکم پر عمل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، اور تمام شہری قرآن و سنت کے احکام و ضوابط پر عمل کرنے میں پوری طرح آزاد ہیں، اس لیے اس قسم کی ہدایات جاری کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

ہمارے خیال میں عدالتِ عالیہ کے فاضل جج صاحبان کا یہ نقطۂ نظر اسلامی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا بلکہ سیکولر سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ کیونکہ اسلام میں فرائضِ شرعیہ کی بجا آوری کے لیے حکومتی ذمہ داریوں کا واضح طور پر ایک نظام طے کیا گیا ہے۔ اور اسلامی حکومت کی بنیادی ذمہ داری قرآن کریم نے یہ قرار دی ہے کہ وہ نماز قائم کرے، زکوٰۃ کے نظام کا اہتمام کرے، نیکی کی تلقین کرے اور برائی سے روکے۔ جبکہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین نے صرف شرعی احکام و فرائض عوام تک پہنچانے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان پر عملداری کی نگرانی کی ہے، اور عمل نہ کرنے والوں کو سزائیں دی ہیں، جس پر احادیث کے ذخیرہ سے سینکڑوں شواہد پیش کیے جا سکتے ہیں۔

دین کے فرائض میں نماز سب سے بڑا فرض ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز کی عادت ڈالنے کا حکم دیا ہے، اور دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر بچوں کو تادیب کے لیے مارنے کی ہدایت فرمائی ہے، جبکہ بالغ ہونے کے بعد نماز نہ پڑھنے والے مسلمانوں کے لیے اہلِ سنت کے چاروں ائمہ حضرت امام ابوحنیفہؒ، حضرت امام مالکؒ، حضرت امام شافعیؒ اور حضرت امام احمد بن حنبلؒ نے تعزیری سزائیں تجویز کی ہیں۔ جن میں سب سے ہلکی سزا وہ ہے جو حضرت امام ابوحنیفہؒ نے بیان فرمائی ہے کہ عادی بے نمازی کو جیل میں ڈال دیا جائے اور اس وقت تک محبوس رکھا جائے جب تک وہ توبہ کر کے نماز کی ادائیگی شروع نہ کر دے۔

اس لیے یہ کہنا کہ دینی فرائض چونکہ ہر مسلمان کی ذمہ داری میں شامل ہیں، اس لیے ان کی ادائیگی کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کی ضرورت نہیں ہے، اسلامی اصولوں کے قطعی منافی بات ہے۔ اور یہ خالصتاً سیکولر سوچ ہے کہ مذہب ہر شخص کا انفرادی معاملہ اور ذاتی ذمہ داری ہے جس میں حکومت کو کسی قسم کی مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اور اس کے دستور میں اسلامی معاشرہ کے قیام اور قرآن و سنت کے احکام و قوانین کے نفاذ کو حکومت کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے اسلامی احکام و قوانین کی عام سطح پر تعلیم دینا اور ان پر عملدرآمد کی ہر سطح پر نگرانی اور اہتمام کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری قرار پاتا ہے۔

لہٰذا ہم عدالتِ عالیہ کے فاضل جج صاحبان سے گزارش کریں گے کہ وہ اس بات میں فرق کریں کہ انہوں نے جس قانونی نظام کے تحت تعلیم و تربیت حاصل کی ہے وہ بلاشبہ سیکولر ہے، لیکن جس دستور کے تحت انہوں نے عدالتی فرائض کی بجا آوری کا حلف اٹھایا ہے وہ سیکولر نہیں بلکہ اسلامی بنیادوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس لیے وہ اپنی تعلیم و تربیت کے مخصوص ماحول کے خول میں بند رہنے اور اس پس منظر میں فیصلے صادر کرنے کی بجائے قرآن و سنت کا مطالعہ کریں، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدینؓ کے فیصلوں سے واقفیت حاصل کریں، اور فقہائے اسلام بالخصوص حضرت امام ابوحنیفہؒ کے فقہی اصول و احکام کو اسٹڈی کریں، تاکہ وہ اپنے حلف کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی اسلامی دفعات اور تحفظات کے مطابق مقدمات کے صحیح فیصلے کر سکیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter