بیت المقدس پر اہلِ اسلام کا استحقاق

   
۲۴ نومبر ۲۰۲۳ء

(جمعۃ المبارک ۲۴ جمادی الاول ۱۴۴۵ھ کے اجتماع سے خطاب)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ کچھ عرصہ سے فلسطین اور بیت المقدس کے حوالے سے گفتگو چل رہی ہے، آج میں اس کے ایک پہلو پر چند گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔ وہ یہ کہ بیت المقدس پر استحقاق کس کا ہے؟ دعویدار تو یہودی، عیسائی اور مسلمان تینوں ہیں مگر تاریخی حوالے سے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جب تک یہود اہلِ حق تھے اور ’’انی فضلتکم علی العالمین‘‘ کا اعزاز ان کے پاس تھا، بیت المقدس ان کا قبلہ تھا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک ہزاروں پیغمبر آئے ہیں جن کا قبلہ بیت المقدس تھا اور وہی اس دور کے اہلِ حق تھے۔ مگر جب حضرت عیسٰی علیہ السلام تشریف لائے اور انہوں نے اپنی نبوت و رسالت کا اعلان کیا تو بنی اسرائیل کے اکثر لوگ ایمان نہیں لائے اور وہ یہودی رہے، جبکہ حضرت عیسٰیؑ پر ایمان لانے والے عیسائی اور مسیحی کہلائے اور اس کے ساتھ ہی اہلِ حق کا ٹائٹل یہودیوں سے عیسائیوں کی طرف منتقل ہو گیا۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تک اہلِ حق کا یہ اعزاز عیسائیوں کے پاس رہا، پھر آپؐ تشریف لائے تو اہلِ حق کا منصب آپؐ پر ایمان لانے والوں کی طرف منتقل ہو گیا جو قیامت تک انہی کے پاس رہے گا۔ اور یہ سب کچھ تکوینی طور پر ہوا جس پر میں ایک تاریخی شہادت کا حوالہ دوں گا۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دوسرے ممالک کے حکمرانوں کو خطوط لکھے تو اس وقت کی سب سے بڑی مسیحی سلطنت روما کے بادشاہ قیصر کو بھی دعوتِ اسلام کا خط لکھا۔ یہ خط وصول کرتے وقت قیصرِ روم بیت المقدس میں تھا کہ فلسطین اس وقت سلطنتِ روم کا حصہ تھا، اور اس نے خط وصول کرتے ہی پیشگوئی کر دی تھی کہ اب بیت المقدس ان کو منتقل ہو جائے گا۔ اس زمانے میں یہودی، مسیحی اور دیگر مذاہب کے اہل علم کے ساتھ ساتھ قیصرِ روم بھی نبی آخر الزمان کی آمد کا منتظر تھا اور انتظار کے اس ماحول میں جب قیصرِ روم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب گرامی ملا تو اس نے اس کے ساتھ رسمی معاملہ نہیں کیا بلکہ مکہ مکرمہ کے لوگوں کو تلاش کر کے آپؐ کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ضروری سمجھا۔ حسنِ اتفاق سے مکہ مکرمہ سے حضرت ابو سفیانؓ جو اس وقت مسلمان نہیں تھے، وہ بھی ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ اس علاقہ میں آئے ہوئے تھے جنہیں تلاش کر کے قیصرِ روم کے کارندوں نے اس کے دربار میں پہنچا دیا۔ اس موقع پر قیصرِ روم کے ساتھ حضرت ابو سفیانؓ کا جو مکالمہ ہوا وہ انہوں نے خود بیان فرمایا ہے جو بخاری شریف کی ایک تفصیلی روایت میں مذکور ہے۔ جبکہ مکالمہ کے موقع پر وہ عرب دنیا میں جناب نبی اکرمؐ کے حریف اور مدمقابل تھے۔

حضرت ابو سفیانؓ سے بھرے دربار میں قیصرِ روم نے نبی اکرمؐ کے بارے میں بہت سے سوالات کیے جن کے انہوں نے جوابات دیے۔ اس سوال و جواب کے بعد قیصرِ روم نے دوسری باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا کہ میر ےسوالوں کے جواب میں آپ نے جو کچھ کہا ہے اگر وہ درست ہے تو وہ نبی ہے اور میں بھی اس نبی آخر الزمان کا انتظار کر رہا ہوں، مگر یہ گمان نہیں تھا کہ وہ تم عربوں میں آجائے گا۔ اس کے ساتھ ہی قیصر نے کہا کہ جہاں اس وقت میں بیٹھا ہوں اس نبی کی حکومت یہاں تک آئے گی یعنی فلسطین اور بیت المقدس پر اس کی حکمرانی قائم ہو گی۔ جو کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں قائم ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قیصرِ روم کو بھی اس بات کا یقین تھا کہ آخر الزمان پیغمبر کے آنے کے بعد بیت المقدس اس کے پیروکاروں کو منتقل ہو جائے گا اور ویسا ہی ہوا۔

چنانچہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب یہود اہلِ حق تھے تو بیت المقدس ان کے پاس تھا، جب عیسائیوں نے اہلِ حق کا تعارف حاصل کیا تو بیت المقدس ان کے تصرف میں چلا گیا اور مسیحی بادشاہ طیطس کے قبضہ کے بعد کم و بیش پانچ صدیاں انہی کے پاس رہا، اور پھر جب اہلِ حق ہونے کا اعزاز مسلمانوں کے پاس آیا تو بیت المقدس انہیں منتقل ہو گیا۔ یہ بات میں نے اس لیے عرض کی ہے کہ مسلمانوں نے جب بیت المقدس سنبھالا تو یہ محض اتفاقی بات نہیں تھی اور نہ ہی پاور پالیٹکس کا مظہر تھی بلکہ اہلِ حق ہونے کے حوالے سے یہ ان کا استحقاق تھا جس کا ذکر خود رومی بادشاہ قیصر نے مذکورہ بالا مکالمہ میں کیا ہے۔

اس کے بعد میں فلسطین کی موجودہ صورتحال کے بارے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ فلسطینی مجاہدین نے سات اکتوبر کے حملہ کے بعد اب تک جو پیشرفت کی ہے میں اسے ان کی چار کامیابیوں سے تعبیر کرتا ہوں:

  1. انہوں نے اسرائیل کو بعض اہم مسلمان ملکوں سے تسلیم کرانے کی وہ کاروائی روک دی جس کے لیے چھ اکتوبر تک باہمی مذاکرات کا سلسلہ جاری تھا اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کے وعدے کیے جا رہے تھے۔
  2. انہوں نے اسرائیلی قوت و طاقت کا یہ طلسم توڑ دیا کہ اس سے کوئی لڑ نہیں سکتا۔ فلسطینی مجاہدین ابھی تک میدان میں ہیں اور انہوں نے یہ بتا دیا ہے کہ افغان مجاہدین امریکہ سے لڑ سکتے ہیں تو فلسطینی بھی اسرائیل سے لڑ سکتے ہیں اور یہ جنگ بھی جیتی جا سکتی ہے۔
  3. انہوں نے بہت سی دنیا کا یہ مغالطہ دور کر دیا ہے کہ غزہ کا معرکہ محض ایک علاقائی تنازعہ ہے، کیونکہ امت مسلمہ نے دنیا بھر میں ان کے ساتھ یکجہتی کا مسلسل اظہار کر کے یہ واضح کر دیا ہے کہ یہ پوری امتِ مسلمہ کا اجتماعی مسئلہ ہے۔
  4. انہوں نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ ہم فیصلے خود کریں گے اور اپنے حق کو کسی کے ہاتھوں پامال نہیں ہونے دیں گے۔

ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ان کی کامیابی اور سرخروئی کے لیے دعاگو ہیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter