روزنامہ نوائے وقت لاہور ۱۶ ستمبر ۲۰۰۴ء کی رپورٹ کے مطابق معروف قانون دان ایم ڈی طاہر نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک رٹ دائر کی ہے جس میں عدالتِ عالیہ سے درخواست کی گئی ہے کہ پسند کی شادی پر پابندی عائد کی جائے اور گھروں سے بھاگ کر والدین کی مرضی کے خلاف شادی کرنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کے لیے قانون سازی کی جائے تاکہ متعلقہ لڑکیوں کے والدین معاشرے میں رسوائی سے بچ سکیں۔
اسلام بالغ لڑکی کی شادی میں رائے کا حق دیتا ہے اور والدین کو پابند بناتا ہے کہ وہ بالغ لڑکی کی رائے اور مرضی کے خلاف اس کی شادی نہ کریں۔ لیکن اس کی آڑ میں کچھ عرصہ سے گھروں سے بھاگنے والی لڑکیوں کی من پسند شادیوں کو جس طرح قانونی تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے اور ہماری عدالتیں مسلسل فیصلے کرتی جا رہی ہیں، اس کا بہرحال جائزہ لینے کی ضرورت ہے، کیونکہ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو مغرب کی طرح ہمارا خاندانی نظام بھی انارکی کا شکار ہو جائے گا۔
ہم بالغ لڑکی کو اس کی شادی میں رائے اور پسند کے حق سے محروم کرنے کی حمایت تو نہیں کر سکتے، مگر اس کی آڑ میں گھروں سے لڑکیوں کے بھاگ جانے، غیر محرم لڑکوں کے ساتھ گھومنے پھرنے، اور پھر والدین کو اعتماد میں لیے بغیر شادی رچا لینے کی حمایت بھی نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے عدالتِ عالیہ کو اس رٹ کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیتے ہوئے اسلامی اقدار کی روشنی میں کوئی متوازن فیصلہ ضرور کرنا چاہیے۔