ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی وفات کی خبر اس قدر اچانک ملی کہ اس پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ میں اس روز مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا قاری جمیل الرحمان اختر اور حافظ زبیر جمیل کے ہمراہ ڈیرہ اسماعیل خان میں تھا۔ ہم سابق سینیٹر مولانا قاضی عبد اللطیفؒ کی وفات پر تعزیت کے لیے کلاچی گئے تھے اور مولانا نور محمد ؒآف وانا کی تعزیت کے لیے وانا جانے کی خواہش تھی، مگر حالات کی نامساعدت نے اس کی اجازت نہ دی۔ ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں ہم نے جمعیۃ علماء اسلام کے سابق مرکزی قائد خواجہ محمد زاہد شہیدؒ اور شیخ محمد ایازؒ کے اہل خاندان سے تعزیت کی اور بعض مدارس میں حاضری دی۔
ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں موبائل فون کی سروس ایک عرصہ سے بند ہے اس لیے جب دوپہر کے وقت وہاں سے سرگودھا کے لیے روانہ ہوئے تو شہر سے باہر نکلتے ہی موبائل فون پر گوجرانوالہ سے حافظ محمد یحیٰی میر نے بتایا کہ آپ کے اسلام آباد والے دوست ڈاکٹر غازی صاحب انتقال کر گئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ دل دھک سے رہ گیا، ان سے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتہ چلا، تو بتایا کہ ٹی وی چینل پر پٹی چل رہی ہے۔ یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی مگر پھر بھی احتیاطاً دو تین جگہ فون کر ہی دیا، ہر طرف سے یہی خبر تھی کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کا انتقال ہو گیا ہے اور جنازہ دو بجے ہے۔ گھڑی پر نظر ڈالی تو ڈیڑھ بج رہا تھا اور ہم ڈیرہ اسماعیل خان سے میانوالی جانے والی شاہراہ پر تھے، اس لیے اپنے اس محترم دوست کی وفات پر غم کے ساتھ ساتھ جنازے میں شریک نہ ہو سکنے کی حسرت بھی شامل ہو گئی۔
ڈاکٹر صاحب موصوف نے ۳ اکتوبر اتوار کو ہمارے ہاں گوجرانوالہ تشریف آوری کا پروگرام طے کر رکھا تھا۔الشریعہ اکادمی میں ’’دینی مدارس میں تدریس قرآن کریم، اہمیت اور تقاضے‘‘ کے موضوع پر ایک سیمینار کا پروگرام تھا جس کے مہمان خصوصی ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ تھے اور تاریخ انہی کے مشورہ سے طے ہوئی تھی۔ ہم اس سیمینار کی تیاری کر رہے تھے اور ڈاکٹر صاحب کی تشریف آوری سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے کچھ مزید چھوٹے چھوٹے پروگرام بھی ترتیب دے رہے تھے کہ اچانک انہیں مالک حقیقی کی طرف سے بلاوا آ گیا اور وہ سارے پروگرام چھوڑ کر داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئے۔
ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کا تعلق برصغیر کے نامور علمی خاندان سے تھا۔ حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانویؒ اور حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ دونوں سے ان کی عزیزداری تھی۔ انہوں نے جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی اور جامعہ اشرفیہ لاہور کے ماحول میں دینی تعلیم حاصل کی، جبکہ دورۂ حدیث دارالعلوم تعلیم القرآن راجہ بازار راولپنڈی میں خیبر پختون خوا کے معروف محدث حضرت مولانا عبد الرحمان المینویؒ سے کیا۔ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری علوم میں پیشرفت کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچے کہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے صدر کے منصب پر فائز ہوئے۔ مگر ان کا اصل تعارف ان کی ڈگریوں کے حوالے سے نہیں بلکہ ان کے علمی مقام اور دینی و علمی خدمات کے حوالے سے ہے، جس نے انہیں دینی و عصری علوم کے ماہرین میں ایک متفق علیہ شخصیت اور معتمد رہنما کے مقام پر فائز کر دیا تھا۔
ڈاکٹر صاحب محترم کے ساتھ میرے تعلقات اور روابط کا دورانیہ کم و بیش دو عشروں پر محیط ہے اور اس دوران دینی، علمی، تعلیمی اور فکری مسائل پر ہماری مسلسل مشاورت اور رفاقت رہی ہے۔ لندن میں مولانا محمد عیسٰی منصوری کے ساتھ مل کر ہم نے ورلڈ اسلامک فورم قائم کیا اور اس کے لیے ایک اعلٰی سطحی مشاورتی حلقہ بنایا تو اس میں ڈاکٹر سید سلمان ندوی آف ڈربن، مولانا سید سلمان الحسینی آف لکھنو، مولانا مجاہد الاسلام قاسمیؒ آف انڈیا اور مولانا محمد عبد اللہ پٹیل آف بھارت کے ساتھ ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ بھی ہمارے شریک کار تھے۔
ایک بار ورلڈ اسلامک فورم کی دعوت پر ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ، ڈاکٹر سید سلمان ندوی اور جناب محمد صلاح الدینؒ مدیر تکبیر نے برطانیہ کا دورہ کیا اور مختلف شہروں میں علمی تقریبات اور سیمیناروں میں شرکت کی، جس کی یاد آج بھی وہاں کے علمائے کرام اور دینی کارکنوں کے ذہنوں میں تازہ ہے۔ ورلڈ اسلامک فورم نے برطانیہ میں ’’اسلامک ہوم اسٹڈی کورس‘‘ کے عنوان سے خط و کتابت کا اسلامی کورس شروع کیا تو اس میں عملی رہنمائی ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ نے فرمائی۔ وہ اس وقت اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کی دعوہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر تھے، ہم نے دعوہ اکیڈمی کا کورس ڈاکٹر صاحب مرحوم کی اجازت سے ان کے ساتھ باقاعدہ معاہدے کی صورت شروع کیا جو سالہا سال تک چلتا رہا اور ڈاکٹر صاحب مسلسل اس کی سرپرستی کرتے رہے۔
ڈاکٹر صاحب مرحوم دینی اور عصری علوم پر یکساں دسترس رکھتے تھے، عربی اور انگریزی سمیت نصف درجن کے لگ بھگ زبانوں پر قادر الکلام تھے اور تحریر و تقریر پر ان کی مکمل دسترس تھی۔ بے پناہ مطالعہ اور تجزیہ و تنقیح کی اعلٰی صلاحیت سے بہرہ ور تھے، مشکل سے مشکل مسئلہ کی گہرائی تک اترتے اور اس کا قابل عمل حل نکالتے تھے۔ نامساعد حالات میں بھی اعتماد اور خوش اسلوبی کے ساتھ کام کرنے اور اپنا کام کر گزرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے۔ وہ جنرل (ر) پرویز مشرف کی کابینہ میں شامل ہوئے اور جنرل موصوف کی نیشنل سکیورٹی کونسل کا حصہ بنے تو بہت سے دوستوں کو تشویش ہوئی اور بعض مخلصین نے حد درجہ اضطراب کا اظہار کیا۔ مگر میں ان کی افتاد طبع اور صلاحیتوں سے آگاہ تھا اس لیے مجھے کوئی تشویش نہ تھی اور میں خاموشی کے ساتھ ان کی ’’اپنا کام کر گزرنے‘‘ کی صلاحیت کا مشاہدہ کرتا رہا۔ جب وہ وزارت سے فارغ ہوئے تو میں اسلام آباد کے بعض علمائے کرام کے ہمراہ ان سے ملنے کے لیے گیا اور مبارکباد دینے کے ساتھ ساتھ ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ دوستوں کو تعجب ہوا کہ میں شکریہ کس بات کا ادا کر رہا ہوں؟ میں نے عرض کیا کہ دینی مدارس کے خلاف جنرل (ر) پرویز مشرف کی پرجوش پالیسی کی شدت کو جس حکمت عملی کے ساتھ ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ نے کم کیا ہے اور اس پالیسی پر عملدرآمد کو ٹالنے کے لیے جو داؤ پیچ ڈاکٹر غازی صاحبؒ نے کھیلے ہیں، یہ انہی کا کام تھا اور میں کافی فاصلے سے ان کے اس داؤ پیچ کو دیکھتے ہوئے بھی مسلسل محظوظ ہوتا رہا ہوں۔
میرے خیال میں ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ نے حکمران حلقوں کو دینی مدارس کی اہمیت و افادیت کے بارے میں سمجھانے کے ساتھ ساتھ یہ حکمت عملی اختیار کر رکھی تھی کہ پیپر ورک، فائل ورک اور مسلمان ممالک کے تعلیمی نظاموں کا جائزہ لینے کے حوالوں سے سرکاری وفود کے دوروں کا سلسلہ دراز کیا جائے، چنانچہ یہ سب کچھ ہوتا رہا، اس دوران دینی مدارس کے وفاقوں کو باہمی رابطوں اور رائے عامہ کو ہموار کرنے کا موقع مل گیا اور انہوں نے ایک مشترکہ موقف طے کر کے حکومتی پالیسی کی مضبوط مزاحمت کا راستہ اختیار کر کے اس پالیسی کو ناکام بنا دیا۔ چنانچہ اس ملاقات میں جب دوستوں کے سامنے میں نے اس بات کا اظہار کیا تو ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور کہنے لگے کہ آپ واحد شخص ہیں جو میری اس حکمت عملی کو سمجھے ہیں، ورنہ اسلام آباد کے اکثر علماء تو مجھے اس پر برا بھلا ہی کہہ رہے ہیں۔
بین الاقوامی کانفرنسوں میں اسلام کی نمائندگی اور جمہور اہل علم کے موقف کی ترجمانی کے لیے پوری دنیائے اسلام میں گنتی کے جن چند حضرات کا نام اعتماد کے ساتھ لیا جا سکتا تھا ان میں ایک نمایاں نام ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کا بھی تھا۔ کسی سطح کی کانفرنس ہو اور کوئی بھی موضوع ہو وہ پورے اعتماد، حوصلہ اور جرأت کے ساتھ اسلام کی ترجمانی کرتے تھے۔ اور مکالمہ اور گفتگو کے عصری اسلوب پر ان کی گرفت اس قدر مضبوط تھی کہ فکر و دانش کی کوئی بھی سطح اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی تھی۔ یہ رسم و محاورہ کی بات نہیں بلکہ امر واقعہ ہے کہ ہم اپنے دور کی ایک بڑی علمی شخصیت اور معتمد رہنما سے محروم ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالٰی انہیں جوارِ رحمت میں جگہ دیں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں۔