جیلوں میں بے سہارا لوگ

   
اپریل ۲۰۱۰ء

روزنامہ ایکسپریس گوجرانوالہ ۲۱ فروری ۲۰۱۰ء کی خبر کے مطابق گجرات کے ڈی سی او سردار اکرم جاوید نے ڈسٹرکٹ جیل کا دورہ کیا تو انہیں بتایا گیا کہ بعض بے سہارا قیدی صرف اس لیے جیل میں بند ہیں کہ ان کے مقدمات میں ان کی مصالحت دوسرے فریق سے ہو چکی ہے اور دوسرا فریق ان سے قصاص لینے کی بجائے دیت پر راضی ہو چکا ہے مگر ان کے پاس دیت ادا کرنے کے لیے رقم نہیں ہے اور وہ ادائیگی نہ کر سکنے کی وجہ سے برسوں سے جیلوں میں بند پڑے ہیں۔ ضلع گجرات کے ڈی سی او صاحب نے مخیر حضرات سے اپیل کی ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور ایسے بے سہارا قیدیوں کی رہائی کے لیے تعاون کریں تاکہ وہ آزادی حاصل کر سکیں۔

ہم ڈی سی او گجرات کی اس اپیل کی تائید کرتے ہیں کہ صاحب خیر لوگوں کو اس سلسلہ میں تعاون کے لیے آگے بڑھنا چاہیے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی عرض کرنا چاہتے ہیں کہ یہ بات درست ہے کہ اس قسم کے مظلوم اور بے سہارا لوگوں کو قید سے رہائی دلانے کے لیے مدد کرنا بہت بڑی نیکی ہے اور قرآن کریم نے تاوان اور ناگہانی آفت میں پھنسے ہوئے لوگوں کی گردن چھڑانے کو بھی بڑی نیکیوں میں شمار کیا ہے، مگر اس کا اصل حل یہ ہے کہ ملک میں شرعی بنیادوں پر بیت المال قائم کیا جائے اور ملکی معیشت کو بیت المال کی بنیاد پر استوار کیا جائے۔ جس میں ریاست و حکومت کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ تمام شہریوں کو بنیادی ضروریات زندگی فراہم کرے اور مجبور اور بے سہارا لوگوں کی کفالت کرنے کے ساتھ ساتھ تاوان اور مصیبت میں پھنسے ہوئے لوگوں کو اس بوجھ سے نکالے۔

اس سلسلہ میں امام ابو عبید قاسم بن سلام ؒ نے ’’کتاب الاموال‘‘ میں ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے دورِ حکومت میں عراق کے گورنر عبد الحمید نے انہیں خط لکھا کہ صوبے کی سالانہ آمدنی وصول ہو کر اور پورے سال کا بجٹ پورا کر کے کچھ رقم بچ گئی ہے، اس کا کیا کیا جائے؟ انہوں نے جواب دیا کہ صوبے میں ایسے مقروضوں کے قرضے بیت المال سے ادا کیے جائیں جو خود اپنا قرض ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ گورنر نے جواب دیا کہ ایسا کر چکا ہوں۔ امیر المومنین ؒ نے لکھا کہ جو لڑکے اور لڑکیاں شادی کے قابل ہیں اور خرچہ نہ ہونے کی وجہ سے شادیوں سے محروم ہیں ان کی شادیاں بیت المال کے خرچہ سے کرا دی جائیں۔ جواب دیا کہ یہ بھی ہو چکا ہے۔ امیر المؤمنینؒ نے لکھا کہ جو شادی شدہ لوگ اپنا مہر ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ان کے مہر بیت المال سے ادا کر دیے جائیں۔ جواب دیا کہ یہ بھی کیا جا چکا ہے۔ امیر المومنینؒ نے لکھا کہ کاشتکاروں کو زمینوں کی آباد کاری کے لیے قرضے دے دیے جائیں۔

ہمارا خیال ہے کہ اگر بیت المال کا شرعی نظام قائم ہو جائے تو کسی ڈی سی او کو اس قسم کی اپیل کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter