روزنامہ جنگ لاہور ۱۵ جنوری ۲۰۰۵ء کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے محترم جسٹس چوہدری مزمل احمد خان نے گوجرانوالہ میں ینگ لائرز ایسوسی ایشن کے عہدہ داروں کی حلف برداری کی تقریب سے خطاب کے موقع پر روزنامہ جنگ کے نمائندہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو لڑکی بالغ ہو، اس کا کوئی شناختی کارڈ بنا ہو اور اس نے اپنی آزاد مرضی سے عدالت میں یا کسی مسجد میں نکاح کیا ہو، اس کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ماتحت عدالتوں کو چاہیے کہ ایسی صورتحال میں دونوں میاں بیوی کو رہا کرتے ہوئے مقدمہ خارج کرنے کی ہدایات جاری کریں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کو بھی چاہیے کہ وہ مقدمہ درج کرنے سے قبل تمام پہلوؤں کا مکمل جائزہ لے کر مقدمہ درج کرے۔
جہاں تک عاقل و بالغ لڑکی کے نکاح کے بارے میں اختیار کا تعلق ہے ہمیں اس بات سے اتفاق ہے کہ اسے اپنی مرضی کے مطابق نکاح کرنے کا حق حاصل ہے اور اگر اس کے شرعی نکاح کا ثبوت عدالت میں پیش ہوجائے تو اس کے خلاف حدود آرڈیننس کے تحت درج مقدمہ کو باقی رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے، لیکن معروضی حالات میں معاملہ صرف اس قدر نہیں ہے اور دیگر بہت سے امور بھی اس معاملہ سے متعلق ہوگئے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔اس لئے ہماری اعلیٰ عدالتیں اس حوالہ سے جو فیصلے مسلسل صادر کرتی جا رہی ہیں ہم ان کے بارے میں تحفظات کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک عاقل بالغ لڑکی کو اپنی مرضی کے ساتھ نکاح کرنے کا حق حاصل ہے لیکن یہ عام حالات میں ہے۔ جبکہ آج کل ہزاروں این جی اوز اور مغربی ملکوں کے سرمائے پر اور مغربی ثقافت کے فروغ کے لیے جس طرح عورتوں کو ورغلانے اور ہمارے خاندانی نظام میں دراڑیں ڈالنے کے لیے سرگرم عمل ہیں ان کے پیش نظر اس حق کے اس طرح آزادانہ طور پر استعمال کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کا مطلب ان لابیوں اور این جی اوز کو اس مہم میں کھلی چھٹی فراہم کرنے کے مترادف ہے جس کے نتائج پر ہماری عدالتوں اور علمی و دینی مراکز کو ضرور غور کرنا چاہیے۔
دوسری بات یہ کہ اس قسم کے مقدمات میں بات صرف نکاح کی نہیں ہوتی بلکہ اور بھی بہت سے مراحل پیش آتے ہیں۔ مثلاً ایسے بعض کیس ہمارے علم میں ہیں کہ ایک لڑکی گھر سے بھاگ کر کسی لڑکے کے ساتھ چلی گئی ہے، ہفتوں اس کے ساتھ گھومتی پھرتی رہی ہے اور پھر آخر میں انہوں نے نکاح کر لیا ہے جس پر عدالت نے ان کے خلاف درج مقدمہ کو خارج کرکے انہیں آزادانہ طور پر جانے کی اجازت دے دی ہے۔ ہمارا سوال اس صورت میں یہ ہے کہ ان کے نکاح کو تسلیم کرنا اور حدود کا مقدمہ ان کے خلاف خارج کرنا درست سہی لیکن اس نکاح سے قبل لڑکی کا گھر سے بھاگنا، ماں باپ کو معاشرے میں رسوا کرنا اور غیر محرم لڑکے کے ساتھ کئی روز تک گھومنا پھرنا شریعت اور قانون کی نظر میں کیا حیثیت رکھتا ہے ؟ ہماری اعلیٰ عدالتیں اس کا کیا نوٹس لے رہی ہیں اور اس کے سدباب کے لیے کیا تدابیر اختیار کر رہی ہیں؟
ہم اعلیٰ عدالتوں کے ساتھ ساتھ ملک کے علمی و دینی مراکز سے بھی گزارش کریں گے کہ وہ اس صورتحال کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیں، بالغ لڑکی کے نکاح کے آزادانہ حق کا ضرور تحفظ کریں لیکن اس کے ساتھ عورتوں کو ورغلانے کے لیے این جی اوز کی مہم اور ملک میں مغربی ثقافت کے فروغ کی منظم اور مربوط کوششوں کو بھی سامنے رکھیں، اس لیے کہ بالغ عورت کے نکاح کے حق کے ساتھ ساتھ خاندانی نظام اور اسلامی اقدار و روایات کا تحفظ بھی ہماری ذمہ داری ہے۔