قرآن بورڈ کا قیام اور وزیر اعلیٰ پنجاب کا ایک مستحسن اقدام

   
۲۹ دسمبر ۲۰۰۴ء

چند روز قبل وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ مولانا محمد حنیف جالندھری نے فون پر بتایا کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے ان کی سربراہی میں ’’پنجاب قرآن بورڈ‘‘ قائم کیا ہے جس میں مجھے بھی ممبر نامزد کیا گیا ہے۔ اس بورڈ کے قیام کا مقصد یہ بتایا گیا کہ مختلف علاقوں سے یہ اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ قرآن کریم کی اس حوالہ سے بے حرمتی کے بہت سے واقعات سامنے آئے ہیں کہ قرآن کریم کے پرانے اور بوسیدہ نسخوں کو احترام کے ساتھ تلف کرنے کا کوئی معقول نظام نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اپنے اپنے طریقے سے ایسے نسخوں اور اوراق کو ٹھکانے لگاتے ہیں جو اگرچہ قرآن کریم کے احترام کی خاطر ہوتا ہے، لیکن اس میں بعض دفعہ احترام کی بجائے بے حرمتی کا پہلو زیادہ نمایاں ہو جاتا ہے اور بعض جگہوں پر اس کا عوامی رد عمل بھی ہوتا ہے۔

مولانا جالندھری نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا میں اس بورڈ کے رکن کے طور پر کام کرنے کے لیے تیار ہوں؟ میں نے گزارش کی کہ میں عام طور پر سرکاری کمیٹیوں میں شامل ہونے کا مزاج نہیں رکھتا، لیکن اتحاد بین المسلمین یا قرآن کریم کی خدمت کے تحفظ جیسا کوئی دینی اور ملی مسئلہ ہو تو اس سے انکار کا حوصلہ بھی نہیں پاتا۔ اس لیے عملاً کچھ کر سکوں یا نہ کر سکوں، قرآن کریم کے حوالہ سے خدمت کے کسی بھی کام میں شرکت کو اپنے لیے باعث سعادت سمجھتا ہوں۔

اس سے ایک دو روز بعد محکمہ مذہبی امور و اوقاف حکومت پنجاب کی طرف سے پنجاب قرآن بورڈ کے قیام کے باقاعدہ نوٹیفکیشن کی کاپی بھی بذریعہ ڈاک موصول ہو گئی، جس کے مطابق اس بورڈ کی ہیئت ترکیبی اور دائرہ کار کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے۔

اس بورڈ کے سرپرست اعلیٰ وزیر اعلیٰ پنجاب اور سرپرست صوبائی وزیر مذہبی امور و اوقاف ہوں گے، جبکہ چیئرمین مولانا محمد حنیف جالندھری اور منتظم سیکرٹری مذہبی امور پنجاب کو بنایا گیا ہے۔ سرکاری ارکان کے طور پر ڈائریکٹر مذہبی امور و اوقاف پنجاب کے علاوہ دونوں صوبائی خطیب علامہ مقصود احمد قادری اور مولانا قاری عبد السلام اس میں شامل ہیں اور غیر سرکاری ارکان میں مولانا محمد خان قادری، مولانا فضل الرحیم، مولانا محمد حسین اکبر، مولانا حق نواز قمر، مولانا میاں نعیم الرحمٰن، جناب ناظم الدین، جناب محمد اسلم قصوری، جناب ظفر اقبال اور صوفی مقبول احمد کے علاوہ راقم الحروف کا نام بھی شامل ہے۔ جبکہ بورڈ کے سیکرٹری کی حیثیت سے ذمہ داری ڈپٹی سیکرٹری محکمہ مذہبی امور و اوقاف پنجاب کو سونپی گئی ہے۔

’’پنجاب قرآن بورڈ‘‘ کے اغراض و مقاصد میں مندرجہ ذیل امور کو شامل کیا گیا ہے:

  1. قرآن کریم کی معیاری طباعت کے لیے اقدامات کرنا،
  2. صوبے کے تمام شہروں کے مرکزی مقامات اور اہم مسجدوں میں قرآن کریم کے مقدس اوراق اور شہید نسخہ جات کو محفوظ بنانے کے لیے ڈبے فراہم کرنا،
  3. تحصیل کی سطح پر قرآن محل کا قیام،
  4. مقدس اوراق اور شہید نسخہ جات کے مسئلہ کے مستقل حل کے لیے عملی اقدامات کرنا،
  5. حکومت پنجاب کی طرف سے باترجمہ قرآن کریم کی مناسب تعداد میں طباعت اور مستحق افراد اور اداروں میں بلا معاوضہ تقسیم،
  6. قرآن میوزیم کا قیام اور
  7. قرآن لائبریری کا قیام۔

جہاں تک اغراض و مقاصد کا تعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب مقاصد انتہائی اچھے ہیں اور قرآن کریم کے حوالہ سے ہماری بہت سی دینی ذمہ داریوں کے تقاضوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ بات بھی درست ہے کہ کوئی معقول نظام نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق اور نسخوں کو تلف کرنے کے لیے ایسے طریقے اختیار کرتے ہیں، جو ان کے خیال میں تو احترام کی غرض سے ہوتے ہیں، لیکن بعض دیکھنے والے غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں اور بات بہت دور تک چلی جاتی ہے۔

گوجرانوالہ میں چند سال قبل ایک حافظ قرآن کو قرآن کریم کے اوراق نذر آتش کرنے پر عوام کے مشتعل ہجوم نے جس طرح قتل کیا، اس کی صدائے باز گشت عالمی پریس میں بہت دیر تک سنی جاتی رہی، جبکہ اس کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ وہ ان اوراق کو بے ادبی سے بچانے کے لیے جلا رہا تھا۔

اس کے بعد بھی گوجرانوالہ شہر میں دو مقامات پر اس نوعیت کا مسئلہ سامنے آیا کہ قرآن کریم کے اوراق کو نذر آتش کرنے والے افراد کے خلاف لوگ مشتعل ہو گئے۔ بات مقدمات تک پہنچی، جبکہ نذر آتش کرنے والوں کا کہنا تھا کہ وہ قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق کو بے حرمتی سے بچانے کے لیے نذر آتش کر رہے تھے۔ متعلقہ حکام نے اس سلسلہ میں راقم الحروف سے بھی دریافت کیا، جس پر میں نے گزارش کی کہ بہت سے فقہاء نے بے حرمتی سے بچانے کے لیے قرآن کریم کے شہید ہو جانے والے نسخوں اور بوسیدہ اوراق کو جلانے کی اجازت دی ہے۔ اس لیے اگر کسی کے بارے میں یہ تسلی ہو جائے کہ وہ یہ کارروائی فی الواقع قرآن کریم کی حرمت کی خاطر کر رہا تھا تو اسے توہین قرآن کریم کا مجرم قرار دینا درست نہیں ہو گا۔

قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق اور شہید نسخوں کو بعض جگہ نہر میں بہا دیا جاتا ہے، بعض مقامات پر قبرستان میں دفن کر دیا جاتا ہے اور مختلف علاقوں کے لوگ انہیں ویران کنوؤں میں بھی ڈال دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کہ دیگر کتابوں اور اخبارات کی ردی کی طرح قرآن کریم کے یہ مقدس اوراق بے حرمتی کا شکار نہ ہوں۔ بلکہ یہ مسئلہ مختلف ایسے جرائد، اخبارات اور کتابوں کی ردی کے حوالہ سے بھی پیش آتا ہے جن میں قرآنی آیات درج ہوتی ہیں، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ہوتے ہیں یا کم از کم مقدس شخصیات کے اسماء گرامی سے تو بہت کم اخبارات و جرائد اور کتب و رسائل خالی ہوتے ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں ردی کاغذوں کا سب سے بڑا مصرف اب تک یہ رہا ہے کہ ان میں لپیٹ کر مختلف اشیا بیچی جاتی ہیں اور اس استعمال کے بعد وہ گلیوں، نالیوں میں اور گندگی کے ڈھیروں میں پاؤں کے نیچے پامال ہوتے رہتے ہیں۔

بعض مقامات پر کچھ نیک دل لوگ اپنے طور پر ایسے اوراق کی حفاظت کے لیے پبلک مقامات پر ڈبوں کا انتظام کر دیتے ہیں، تاکہ ان میں اس قسم کے مقدس اوراق ڈال دیے جائیں اور مختلف علاقوں میں مقامی سماجی تنظیمیں اس میں دلچسپی لے کر لوگوں کو اس طرف توجہ دلاتی رہتی ہیں، لیکن مجموعی ضرورت کے حوالہ سے یہ محدود کام بہت کم ہے جو بعض اہل خیر کے دینی جذبات اور قرآن کریم کے ساتھ ان کی محبت و عقیدت کا اظہار ہوتا ہے، لیکن اس کا دائرہ انتہائی محدود ہونے کی وجہ سے اس مسئلہ کی سنگینی میں کوئی معتد بہ کمی واقع نہیں ہوتی۔

اس پس منظر میں پنجاب قرآن بورڈ کا قیام ایک مستحسن اقدام ہے، جو قرآن کریم کے تقدس و حرمت کے حوالہ سے وقت کی ایک اہم ضرورت کو پورا کرتا ہے اور اس پر پنجاب کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی بجا طور پر مبارک باد اور شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس طرف توجہ کی اور قرآن کریم کی حرمت و تقدس کے تحفظ کے ایک اہم تقاضے کو پورا کرنے کے لیے پیشرفت کی۔

اس موقع پر ایک خوشگوار پیشرفت یہ بھی ہوئی ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے بورڈ کے افتتاحی اجلاس میں لاہور کے متعدد ناشران قرآن کریم کو بلایا اور ان پر واضح کیا کہ ملک میں پہلے سے موجود ایک قانون کی رو سے نیوز پیپر پر قرآن کریم کی اشاعت ممنوع ہے اور قانونی طور پر قرآن کریم کی طباعت کے لیے کاغذ کا کم از کم جو معیار (غالباً ۵۵ گرام) مقرر کیا گیا ہے اس سے کم معیار کے کاغذ کی طباعت پر حکومت پنجاب نوٹس لے گی اور قانونی تقاضے پورے کیے جائیں گے۔ اس پر قرآن کریم کے لاہور سے تعلق رکھنے والے ناشرین نے خوشی کا اظہار کیا ہے اور بورڈ کے ارکان کے نام اپنے مشترکہ خط میں یقین دلایا ہے کہ اگر قانونی طور پر طے کردہ معیار پر کاغذ کی فراہمی کو یقینی بنا دیا جائے تو وہ خود بھی نہیں پسند کریں گے کہ قرآن کریم کو نیوز پیپر یا مقررہ معیار سے کم معیار کے کاغذ پر طبع کیا جائے اور وہ اس سلسلہ میں حکومت سے بھرپور تعاون کریں گے۔

میں ابھی ”پنجاب قرآن بورڈ“ کے کسی اجلاس میں شریک نہیں ہو سکا، اس لیے مزید تفصیلات اجلاس میں شرکت اور بورڈ کے مختلف ارکان کی طرف سے سامنے آنے والی تجاویز اور اجلاس کے فیصلوں کے بعد ہی قارئین کی خدمت میں پیش کر سکوں گا۔ تاہم ابتدائی طور پر یہ بات خوشی کا باعث بنی ہے اور امید کی جا سکتی ہے کہ اگر بورڈ کے ارکان اور متعلقہ سرکاری افسران نے نوٹیفکیشن میں بیان کردہ اغراض و مقاصد کے حصول کے لیے سنجیدگی کے ساتھ پیشرفت کی، تو نہ صرف یہ کہ پنجاب میں ایک باعث خیر اور باعث برکت کام کا آغاز ہو جائے گا، بلکہ دوسرے صوبوں کے لیے بھی یہ بات ایک لائقِ تقلید نمونہ ثابت ہوگی۔

   
2016ء سے
Flag Counter