مولانا عبد العزیز کی گرفتاری کے بعد لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا حکومت کے ساتھ تنازع ایک لحاظ سے اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے اور ان کے نائب مولانا عبد الرشید غازی کی طرف سے خود کو حکومت کے حوالے کرنے کی مشروط پیشکش نے حکومت کے ساتھ ان کی مسلح مزاحمت کے باقی ماندہ امکانات کو بھی ختم کر دیا ہے۔ جب ان دونوں بھائیوں نے چند ماہ قبل اپنے بعض مطالبات کے لیے محاذ آرائی کا راستہ اختیار کیا تھا، اس وقت ملک کے سنجیدہ دینی حلقوں اور ان کے خیر خواہوں کی طرف سے انہیں یہ کہہ دیا گیا تھا کہ حکومت کے ساتھ اس طرح کی محاذ آرائی کا طریقہ درست اور قابل عمل نہیں ہے، اس لیے وہ اسے ترک کر دیں اور ملک کی علمی و دینی قیادت پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی مشاورت کے ساتھ اپنے مطالبات منوانے کے لیے جدوجہد کا طریق کار ازسرنو طے کریں، لیکن انہوں نے کوئی بھی معقول بات ماننے کے بجائے خود اپنے طے کردہ طریق کار پر قائم رہنے کا اعلان کر دیا اور اس پر ڈٹے رہے جس کا منطقی نتیجہ یہی ہونا تھا جو سامنے آ چکا ہے کہ دو درجن کے لگ بھگ شہریوں کی ہلاکت اور ملٹری فورسز کے آپریشن کے بعد غازی برادران کی پسپائی کا تماشا پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔
جہاں تک ان مطالبات کا تعلق ہے کہ:
- اسلام آباد میں سرکاری طور پر گرائی جانے والی مساجد کو دوبارہ تعمیر کیا جائے،
- ملک میں اسلامی نظام کا مکمل نفاذ عمل میں لایا جائے،
- فحاشی اور بدکاری کے مبینہ اڈے ختم کیے جائیں،
- اور حدود آرڈیننس میں کی گئی حالیہ غیر شرعی ترامیم واپس لی جائیں،
تو ان میں سے کوئی مطالبہ بھی ایسا نہیں ہے جسے ناجائز کہا جا سکے بلکہ یہ خود دستور پاکستان کے اسلامی و نظریاتی تقاضوں کو پورا کرنے کے مطالبات ہیں۔ لیکن اس کے لیے جو طریق کار اختیار کیا گیا اس سے ملک کے ہر ذی شعور شخص نے اختلاف کیا اور اسے غلط ٹھہرایا، اس لیے کہ ایک مسلم ملک میں مسلمان حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھانا، قانون کو ہاتھ میں لینا، متوازی نظام قائم کرنے کی کوشش کرنا اور عام لوگوں کو از خود سزا دینے کا طریقہ اختیار کرنا کسی طرح بھی جائز عمل نہیں کہلا سکتا۔ لیکن نہ صرف یہ کہ اس پر اصرار کیا گیا بلکہ اسے ’’جہاد‘‘ قرار دیا گیا اور طلبہ و طالبات کی ایک بڑی تعداد کو اس مقصد کے لیے ڈھال بنایا گیا جس سے معاملہ بتدریج سنگین سے سنگین تر صورت اختیار کرتا چلا گیا۔
دوسری طرف حکومت نے لال مسجد کی انتظامیہ کے غلط طریق کار کی آڑ میں ان جائز مطالبات کو مسلسل نظر انداز کیا جن کی ملک کے دینی حلقے حمایت کر رہے ہیں، اور اس مسئلہ کو مذاکرات کے ذریعے سے حل کرنے کے بجائے زیادہ سے زیادہ طول دینے کی کوشش کی، جس سے ملک کے سنجیدہ حلقوں میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ یہ سارا معاملہ خود حکومت کا پیدا کردہ ہے اور حکومت اس سے نہ صرف ملک کے اندر سیاسی فوائد حاصل کر رہی ہے بلکہ اسے دنیا میں دینی مدارس کے بارے میں غلط تاثرات پھیلانے کا ذریعہ بھی بنایا جا رہا ہے۔
دینی مدارس کے بارے میں سالہا سال سے عالمی میڈیا اور ادارے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ان میں اسلحہ کی ٹریننگ دی جاتی ہے اور یہ مبینہ طور پر دہشت گردی کے مراکز ہیں، لیکن دینی مدارس کے وفاقوں کی قیادت نے مسلسل محنت کے ساتھ اس تاثر کو زائل کیا اور عالمی رائے عامہ کو کسی حد تک یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو گئی کہ جنوبی ایشیا کے یہ دینی مدارس صرف تعلیم اور نظریاتی و فکری تربیت تک محدود ہیں، ان میں نہ اسلحہ کی تربیت دی جاتی ہے اور نہ ہی ان میں اسلحہ موجود ہے۔ اس پر پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے بھی، جب وہ وزیر داخلہ تھے، مضبوط اسٹینڈ لیا اور واضح طور پر دنیا کو بتایا کہ پاکستان کے دینی مدارس میں اسلحہ کی موجودگی اور اس کی ٹریننگ کے الزامات بے بنیاد اور خلاف واقعہ ہیں۔ حقیقت حال اب بھی یہی ہے اور جامعہ حفصہ کی طرز کے اکا دکا مدارس کے علاوہ ملک بھر کے ہزاروں دینی مدارس میں کوئی ایک مدرسہ بھی ایسا نہیں ہے جہاں اسلحہ کی ٹریننگ یا اسلحہ کے استعمال کی ترغیب دی جاتی ہو، لیکن جامعہ حفصہ کی صورتحال نے اس تاثر کو الٹ دیا اور لوگوں کو پاکستان کے وفاقی دارالحکومت کے ایک بڑے مدرسے میں نہ صرف طلبہ بلکہ طالبات کے ہاتھوں میں بھی اسلحہ دکھائی دینے لگا ہے۔
ہمارے نزدیک حکومت نے معاملے کو حد سے زیادہ طول دے کر دیگر سیاسی مقاصد کے ساتھ ساتھ اس تاثر کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی حکمت عملی اختیار کی۔ اس پر چودھری شجاعت حسین کے ایک حالیہ بیان کو بطور شہادت پیش کیا جا سکتا ہے کہ ان کی کوششوں سے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے سے معاملات طے ہونے کے قریب پہنچ گئے تھے کہ کسی خفیہ ہاتھ نے معاملات کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔ اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ بعض عناصر یہ منظر بہرصورت دکھانا چاہتے ہیں کہ ایک طرف ملک کی مسلح فورسز ہیں اور دوسری طرف ان کے مقابلے میں ایک دینی مدرسے کے طلبہ اور طالبات ہتھیار اٹھائے مزاحمت کے لیے مورچہ زن ہیں، اور ایسا چاہنے والے عناصر اس مقصد میں بہرحال کامیاب ہو گئے ہیں۔
ہمارے نزدیک اس افسوسناک صورتحال کی ذمہ داری دونوں فریقوں پر عائد ہوتی ہے۔ غازی برادران نے ایک غلط طریق کار پر بے جا اصرار کر کے جہاں ملک بھر کے دینی حلقوں کا اعتماد کھویا اور محاذ آرائی کو تصادم تک پہنچانے کا ذریعہ بنے، تو دوسری طرف حکومت نے معاملات کو حد سے زیادہ طول دے کر اور مذاکرات کے لیے کوئی سنجیدہ صورت اختیار کرنے سے عمدًا گریز کر کے معاملات کو یہاں تک پہنچا دیا۔ اب اس کے بعد کیا ہونے والا ہے؟ اس کے بارے میں مختلف باتیں کہی جا رہی ہیں۔ مجھے گزشتہ روز ایک ذمہ دار عالم دین نے فون پر بتایا کہ اس افسوسناک واقعہ کی آڑ میں حکومت اسلام آباد میں موجود دینی مدارس کے خلاف کارروائی کا پروگرام بنا رہی ہے اور اس مبینہ تجویز کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش ہو سکتی ہے کہ سیکیورٹی کے نام پر ان دینی مدارس کو اسلام آباد کی حدود سے باہر منتقل کر دیا جائے۔ یہ تجویز کچھ عرصہ قبل سامنے آئی تھی جسے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی قیادت نے مسترد کر دیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ اگر خدانخواستہ ایسا کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کی دستوری اور قانونی دائرے میں بھرپور مزاحمت کی جائے گی۔
موجودہ صورتحال میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے افسوسناک واقعات کی آڑ میں ان عالمی حلقوں کا دباؤ بھی بڑھ سکتا ہے جو حکومت پاکستان پر پورے ملک کے دینی مدارس کے جداگانہ تشخص کو ختم کرنے اور اجتماعی دھارے میں شامل کرنے کے نام پر ان کے الگ تعلیمی نظام کو سرکاری کنٹرول میں لینے پر زور دے رہے ہیں۔ آج ہی ایک خبر نظر سے گزری ہے کہ حکومت نے ملک بھر کے دینی مدارس میں اسلحہ کی موجودگی کے بارے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں، حالانکہ ملک کے دینی مدارس کا اس حوالے سے کئی بار سروے کیا جا چکا ہے اور ہر بار اس کی رپورٹ نفی میں آئی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں جب کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے معاملات ملک بھر کے دینی مدارس سے اسلحہ اور محاذ آرائی، دونوں حوالوں سے مختلف ہیں اور کئی ماہ تک دنیا یہ منظر دیکھ چکی ہے کہ اس معاملے میں اسلام آباد اور ملک کے دیگر حصوں کے دینی مدارس لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے ساتھ شریک اور معاون نہیں ہیں، اس کے باوجود اگر اس کی آڑ میں اسلام آباد کے دینی مدارس یا ملک بھر کے دینی مدارس کے بارے میں کوئی منفی طرز عمل اختیار کیا گیا تو یہ بعض حلقوں کے اس تاثر کو حقیقی ثابت کرنے کی کارروائی سمجھی جائے گی کہ یہ سب کچھ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت ہوا ہے جس کے ایک حصے میں کامیابی سے عملدرآمد کے بعد اب اس ایجنڈے کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔