۲۳ مارچ کو یومِ قراردادِ پاکستان کے موقع پر خوشاب کی جامع مسجد سیدنا ابوبکر صدیقؓ میں بعد نمازِ ظہر ’’نظریۂ پاکستان اور تحفظِ مدارسِ دینیہ‘‘ کے عنوان سے کانفرنس تھی، مجھے اس میں معروضات پیش کرنے کا موقع ملا، ان کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے:
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج یومِ پاکستان ہے جو اس تاریخی قرارداد کی یاد میں منایا جاتا ہے جو آج سے سات عشرے قبل لاہور کے اس میدان میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں منظور کی گئی، جہاں اس قرارداد کی یادگار کے طور پر مینارِ پاکستان تعمیر کیا گیا ہے۔ اس قرارداد میں کہا گیا کہ مسلمان ایک مستقل قوم کی حیثیت رکھتے ہیں اور دین و مذہب کے ساتھ ساتھ اپنی الگ تہذیب و ثقافت کا امتیاز انہیں حاصل ہے، اس لیے وہ یہ حق رکھتے ہیں کہ جن علاقوں میں وہ اکثریت میں ہیں انہیں ایک الگ مسلم ریاست قرار دیا جائے، تاکہ وہ اپنے دین و مذہب اور تہذیب و ثقافت پر آزادی کے ساتھ عمل کر سکیں، اور اپنی مرضی کے مطابق اپنا نظام تشکیل دے سکیں۔ اسے ’’نظریۂ پاکستان‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے، جو اختیار تو کر لیا گیا تھا، اس کے مطابق ایک الگ ملک کے قیام کے لیے جدوجہد بھی کی گئی تھی، اور ملک بھی ’’پاکستان کے نام سے وجود میں آ گیا تھا، لیکن ایک اسلامی ریاست کی تشکیل اور اسلامی احکام و قوانین کے نفاذ کا خواب ابھی ادھورا ہے۔
یہ عجیب اتفاق کی بات ہے کہ ترکی نے خلافت ِعثمانیہ کے عنوان سے صدیوں اسلامی ریاست و خلافت کا پرچم دنیا میں بلند رکھنے کے بعد ۱۹۲۴ء میں ریاست کے اسلامی تشخص، شرعی قوانین، اور خلافت کے ٹائٹل سے دستبرداری اختیار کر لی تھی، مگر اس کے صرف ربع صدی کے بعد نیا کے نقشے پر اسلامی تشخص کے ساتھ پاکستان کے نام سے ایک نئی اسلامی ریاست وجود میں آ چکی تھی۔ اس کا اسلامی تشخص تب سے عالمی سیکولر لابیوں کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے، لیکن یہ ریاست اپنی رولنگ کلاس کی تمام تر منافقت اور بے عملی کے باوجود آج بھی اپنے اسلامی تشخص اور تہذیبی شناخت کے ساتھ وابستہ ہے، اور اسے اس کے تہذیبی پس منظر اور نظریاتی شناخت سے محروم کرنے کی کوئی کوشش کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی، فالحمد للہ علیٰ ذٰلک۔
لیکن میں آج اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے اس حسنِ اتفاق سے فائدہ اٹھانا چاہوں گا کہ جس مسجد میں ہم آج کا یہ اجتماع کر رہے ہیں اس کا نام ’’مسجد ابوبکر صدیقؓ‘‘ ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جب خلافت کا نظام قائم ہوا تو اس کا سنگِ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ تھے، اور انہی سے اسلامی ریاست میں خلافت کے اس نظام کا آغاز ہوا تھا جو اسلام کا سیاسی نظام کہلاتا ہے، اور جس کا تسلسل کسی نہ کسی طرح مختلف مراحل سے گزرتا ہوا قیامِ پاکستان سے ربع صدی قبل خلافتِ عثمانیہ کی صورت میں جاری رہا۔ اس لیے میں اس مناسبت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آج کی محفل میں عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمیں اس امر کا جائزہ لینا چاہیے کہ خلافتِ اسلامیہ کی بنیاد کن امور پر تھی، تاکہ ہم ایک اسلامی ریاست کی تشکیل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد قائم ہونے والی پہلی اسلامی ریاست سے راہنمائی حاصل کر سکیں۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اسلامی ریاست کے دستوری ڈھانچے کے خدوخال واضح نہیں ہیں، لیکن مجھے اس بات سے اختلاف ہے، اور تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میری گزارش ہے کہ خلیفۂ اول حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا پہلا خطبہ جو انہوں نے خلافت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد مسجد نبویؐ میں ارشاد فرمایا تھا، اور خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا پہلا اور شہادت سے پہلے آخری خطبہ۔ یہ تینوں خطبے جمع کر لیے جائیں تو ہمیں ایک اسلامی ریاست کے دستوری ڈھانچے اور قانونی و معاشرتی نظام کی تشکیل کے لیے کسی اور طرف دیکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ میں زیادہ تفصیل میں جائے بغیر حضرت صدیق اکبرؓ کے پہلے خطبہ اور ابتدائی اقدامات کی چند باتوں کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ اسلامی ریاست کی دستوری بنیادیں کیا ہیں اور اس کی معاشرتی تشکیل کے اصول و اخلاقیات کیا ہیں؟
- پہلی بات یہ ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے اقتدار، نہ خاندانی استحقاق کی بنیاد پر حاصل کیا تھا، اور نہ ہی قوت و طاقت کے زور پر اقتدار پر قبضہ کیا تھا، بلکہ انہیں امت کی اجتماعی صوابدید اور رائے عامہ کے اعتماد کی بنیاد پر حکمران چنا گیا تھا، اور یہی ایک اسلامی ریاست کی حقیقی سیاسی بنیاد ہے۔
- دوسری بات یہ کہ سیدنا حضرت صدیق اکبرؓ نے اپنے پہلے خطبہ میں دوٹوک اعلان کیا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے نہیں بلکہ قرآن و سنت کے احکام کے مطابق نظام چلائیں گے۔ اور یہ بھی فرما دیا تھا کہ اگر وہ قرآن و سنت کے مطابق چلیں تو ان کی اطاعت لوگوں پر فرض ہے، اور قرآن و سنت سے انحراف کی صورت میں لوگ ان کی اطاعت کے پابند نہیں ہوں گے۔ یہ دستور کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کا اعلان تھا، جس کی حضرت ابوبکرؓ نے اپنے اڑھائی سالہ دورِ حکومت میں پوری طرح پاسداری کی۔
- تیسری بات یہ کہ اسی خطبہ میں حضرت صدیق اکبرؓ نے اپنی ریاست کے شہریوں کو یہ حق دینے کا واضح اعلان کیا تھا کہ قرآن و سنت اور دستور و قانون کے مطابق چلنے کی صورت میں وہ ان کا ساتھ دیں، لیکن اگر وہ ٹیڑھا چلنے لگیں تو لوگ انہیں پکڑ کر سیدھا کر دیں۔ یہاں انہوں نے یہ نہیں فرمایا مجھے میری غلطی سے آگاہ کر دینا، بلکہ یہ فرمایا مجھے سیدھا کر دینا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ عوام کا حقِ احتساب ہے جس کا حضرت صدیق اکبرؓ نے اعلان کیا کہ شہریوں کا یہ حق ہے کہ وہ حکمران کی غلطیوں پر نہ صرف ٹوکیں بلکہ اپنے دور کے حالات کے مطابق انہیں راہِ راست پر لانے کے ذرائع بھی اختیار کریں۔
- چوتھی بات یہ ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کا ذاتی کاروبار یہ تھا کہ وہ بازار میں پھیری لگا کر کپڑا بیچا کرتے تھے، جو خلافت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد مشکل ہو گیا۔ اس پر خلافت کی مجلسِ شوریٰ نے اس مسئلہ کا جائزہ لینے کے بعد پہلا فیصلہ یہ کیا کہ انہیں بیت المال سے وظیفہ دیا جائے، اور اس کا معیار یہ طے کیا کہ مدینہ منورہ کے ایک عام شہری جسے ’’مین آف اسٹریٹ‘‘ کہا جاتا ہے، کے معیار پر زندگی گزار سکیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکمرانوں کا معیارِ زندگی اور طرز زندگی عام شہریوں سے مختلف نہیں ہونا چاہیے اور انہیں عام لوگوں کے درمیان زندگی گزارنی چاہیے۔
- جبکہ پانچویں بات یہ عرض کروں گا کہ جب بیت المال سے لوگوں کے وظیفے مقرر کرنے کے لیے اصول قائم کرنے کا مرحلہ آیا تو حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے درمیان اختلاف ہو گیا۔ حضرت عمرؓ کی رائے یہ تھی کہ لوگوں کی دینی حیثیت اور فضیلت کی بنیاد پر درجہ بندی کر کے اس کے مطابق وظیفوں کا تعین کیا جانا چاہیے۔ مگر حضرت ابوبکرؓ نے اس رائے سے اتفاق نہیں فرمایا، اور کہا کہ دینی مرتبہ اور فضیلت و حیثیت کا تعلق آخرت سے ہے، جبکہ وظیفہ کی تقسیم معاشی حقوق کا معاملہ ہے اور اس میں برابری کا اصول ترجیح کے اصول سے بہتر ہے۔ چنانچہ انہوں نے بیت المال سے سب لوگوں کو یکساں وظیفے جاری کیے اور کسی قسم کی درجہ بندی سے انکار کر دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت صدیق اکبرؓ کے نزدیک معیشت کے ریاستی وسائل کی تقسیم میں یکسانیت اور مساوات ضروری ہے۔ یعنی ذاتی محنت سے آدمی جتنا چاہے کما لے یا جمع کر لے، لیکن ریاستی وسائل کی تقسیم میں سب شہریوں کا حق برابر ہے اور اس میں کوئی ترجیح اور درجہ بندی قائم کرنا درست نہیں ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ایک اسلامی ریاست کی یہی اصولی بنیادیں ہیں، میرے نزدیک یہی نظریۂ پاکستان ہے۔ اگر ہم پاکستان کو اس نظریہ کے مطابق ایک مثالی اور اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بیان کردہ انہی اصولوں کو اختیار کرنا ہو گا۔