علم کی ضروریات اور ذمہ داریاں

   
۲۰ اکتوبر ۲۰۱۳ء

(اس سال تبلیغی جماعت کے سہ روزہ کے لیے چالیس کے لگ بھگ علماء کرام کی تشکیل منڈی بہاؤ الدین کی مرکزی جامع مسجد میں ہوئی جہاں ۲۰ اکتوبر کو صبح ۱۰ بجے علماء کرام کے اجتماع سے مولانا کا خطاب پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ نصرۃ العلوم)

بعد الحمد والصلوٰۃ ۔ حضرات علماء کرام ! امام غزالیؒ نے علم کے حوالہ سے لوگوں کے چار مختلف درجات بیان فرمائے ہیں، وہ کہتے ہیں:

  1. ’’رجل یدری و یدری انہ یدری فھو عالم فاتبعوہ‘‘۔ ایک شخص وہ ہے جو علم رکھتا ہے اور یہ بات جانتا ہے کہ وہ علم رکھتا ہے، یعنی اپنے عالم ہونے کا اسے احساس ہے اور وہ اس حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتا ہے، وہ عالم ہے، اس کی پیروی کرو۔
  2. ’’و رجل یدری و لا یدری انہ یدری فھو نائم فایقظوہ‘‘۔ ایک شخص وہ ہے جو علم تو رکھتا ہے لیکن اسے اپنے علم کی ذمہ داری کا ادراک و احساس نہیں ہے، وہ سویا ہوا ہے، اس کو بیدار کرو۔
  3. ’’و رجل لایدری و یدری انہ لایدری فھو مسترشد فعلّموہ‘‘۔ ایک شخص وہ ہے جو علم نہیں رکھتا اور اسے اس بات کا بھی علم اور احساس ہے کہ وہ علم سے بہرہ ور نہیں ہے، ایسا شخص راہنمائی اور علم کا طلبگار ہے، اسے سکھاؤ۔
  4. ’’و رجل لایدری انہ لا یدری فھو جاھل فاحذروہ‘‘۔ مگر ایک شخص وہ ہے جو علم نہیں رکھتا اور اسے اپنے بے علم ہونے کا احساس بھی نہیں ہے، وہ جاہل ہے، اس سے بچو۔

ہم آج اس محفل میں جو لوگ بیٹھے ہوئے ہیں ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو علماء کہلاتے ہیں، لوگ ہمیں علماء کے طبقے میں شما ر کرتے ہیں اور علماء سمجھتے ہیں۔ خدا کرے کہ ہم اس قابل ہو جائیں مگر لوگ بہر حال یہی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں۔ اس لیے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ امام غزالیؒ نے جتنے درجات بیان کیے ہیں مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم ان میں سے دوسرے درجے میں زیادہ فٹ بیٹھتے ہیں۔ یعنی وہ لوگ جو دین کے کسی نہ کسی شعبہ میں اور کسی نہ کسی درجے میں کچھ نہ کچھ علم تو رکھتے ہیں لیکن ہمیں اس حیثیت سے اپنی ضروریات اور ذمہ داریوں کا احساس نہیں ہے اور ہم انہیں پورا کرنے کی طرف متوجہ نہیں ہو رہے۔ اس لیے میں اسی حوالہ سے کچھ گزارشات آپ حضرات کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔

علماء کہلاتے ہوئے کچھ چیزیں تو ہماری ضروریات ہیں اور کچھ باتیں ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہیں۔ میں ان کا الگ الگ ذکر کرنا چاہوں گا۔

علم کی ضروریات

جہاں تک ضروریات کا تعلق ہے، ہماری سب لوگوں کی پہلی ضرورت یہ ہے کہ جو علم ہم نے حاصل کیا ہے اور آٹھ دس سال اس پر صرف کیے ہیں وہ ہمارے پاس موجود اور محفوظ رہے۔ اس لیے کہ آٹھ دس یا بارہ سال کی محنت سے ایک چیز ہم نے حاصل کی ہے او رپھر دو تین سال کی غفلت سے اسے ضائع کر دیا ہے تو یہ بہت خسارے کا سودا ہے۔ اور یہ تجربہ کی بات ہے کہ علم حاصل کرنے میں جتنا وقت صرف کرنا پڑتا ہے، اسے ضائع کرنے میں اس سے بہت تھوڑا وقت درکار ہوتا ہے۔ آپ نے ایک علم تک رسائی کے لیے دس سال صرف کر دیے ہیں مگر اسے کھو دینے میں سال دو سال کی بے پرواہی بھی کافی ہوتی ہے۔ اس لیے ہماری سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ یہ علم ہمارے پاس موجود او ر محفوظ رہے ورنہ ساری محنت بے کار جائے گی۔ میں اس تفصیل میں نہیں جاتا کہ حاصل کردہ علم کو محفوظ رکھنے کے لیے ہمیں کیا کچھ کرنا پڑے گا۔ یہ ایک مستقل موضوع ہے لیکن صرف اتنی بات کا خود اپنے آپ کو اور آپ حضرات کو احساس دلانا چاہتا ہوں کہ علم حاصل کرنے کے بعد اسے اپنے پاس موجود و محفوظ رکھنے کے لیے محنت کرنا بھی ہماری ضرورت ہے۔

اس سلسلہ میں ہماری دوسری ضرورت یہ ہے کہ ہمیں اس علم کے صحیح استعمال کا سلیقہ آتا ہو۔ اس لیے کہ ایک چیز موجود ہے مگر اسے استعمال کا سلیقہ نہیں ہے تو اس کا موجود ہونا یا نہ ہونا برابر ہوجاتا ہے۔ علم اپنے استعمال کا سلیقہ چاہتا ہے، اگر بے تدبیری اور بغیر حکمت و سلیقہ کے علم کو کیف ما اتفق استعمال کیا جائے تو یہ نقصان کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ ایک ڈاکٹر ایم بی بی ایس کا کورس کر لیتا ہے تو اسے باقاعدہ منصب پر فائز کرنے سے پہلے ’’ہاؤس جاب‘‘ کے مرحلہ سے گزارا جاتا ہے تا کہ جو کچھ اس نے نصاب میں پڑھا ہے عملی زندگی میں اس کے استعمال کرنے کا اسے تجربہ حاصل ہو جائے۔ اسی طرح ایک وکیل ایل ایل بی کا کورس کر لیتا ہے تو اسے عدالت میں پیش ہونے کی اہلیت کا سرٹیفکیٹ بار سے حاصل کرنا پڑتا ہے جس کے لیے شرط ہوتی ہے کہ وہ کسی سینئر وکیل کی نگرانی میں سال دو سال کام کرے تا کہ اسے کام کا طریقہ آجائے۔ لیکن ہمارے ہاں عام طور پر یہ خلاء پایا جاتا ہے کیونکہ ہم سند فراغت حاصل کرنے کے بعد دین کے جس شعبہ میں جاتے ہیں وہاں ’’ڈائریکٹ بھرتی‘‘ ہو جاتے ہیں۔ اور اس کے نقصانات بیانات کرنے کی آپ حضرات کے سامنے مجھے ضرورت نہیں ہے۔

اس لیے میں فارغ التحصیل ہونے والے علماء کرام کو یہ مشورہ دیا کرتا ہوں کہ عملی زندگی میں داخل ہونے سے پہلے کسی مربی شیخ کی خدمت میں وقت گزاریں یا کم از کم جماعت کے ساتھ وقت لگائیں۔ اس سے اور نہیں تو دو فائدے ضرور حاصل ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہر طرح کے لوگوں کے ساتھ ملنے اور گفتگو کرنے سے لوگوں کی نفسیات کچھ نہ کچھ سمجھ میں آتی ہیں اور مختلف سطح کے لوگوں سے بات چیت کا سلیقہ حاصل ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ شب و روز کے معمولات کی ترتیب قائم ہو جاتی ہے ورنہ ہم عام طور پر بے ترتیب لوگ ہوتے ہیں کہ کون سا کام کس وقت کرنا ہے اور کس وقت کو کون سے کام کے لیے استعمال میں لانا ہے۔ یہ ترتیب بھی ہمارے ضروریات میں سے ہے اور کسی کامل شیخ کے ساتھ یا جماعت کے ساتھ وقت گزارنے سے یہ ضرورت کسی نہ کسی درجے میں پوری ہوجاتی ہے۔

ہماری تیسری ضرورت یہ ہے کہ جو کچھ ہم نے پڑھا ہے اسے پہلے اپنی ذات پر لاگو کریں اور خود اس پر عمل کر کے نمونہ بنیں۔ ورنہ صرف تھیوری رہ جائے گی جو کہ پریکٹیکل کے بیکار چیز ہوتی ہے۔ جس طرح دنیاوی علوم میں کلاس میں تھیوری پڑھائی جاتی ہے اور لیبارٹری میں اس پر عمل کرنا سکھایا جاتا ہے اسی طرح ہماری بھی یہ ضرورت ہے کہ جو کچھ کلاس میں پڑھا ہے اس پر خود ہماری پریکٹس ہو۔ اور ہم اس پر عمل کر کے اس کے فوائد و ثمرات سے خود استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی اسے اجاگر کریں۔ مجھے مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی کی یہ بات بہت پسند آئی ہے اور میں اسے مختلف مواقع پر دہراتا رہتا ہوں کہ ’’ہم دینی مدارس میں پڑھاتے ہیں مگر سکھاتے نہیں‘‘۔ اس لیے مجھے اور آپ کو اسے اپنی ضروریات میں شمار کرنا چاہیے کہ ہم جو علم حاصل کرتے ہیں اس پر ہماری پریکٹس بھی ہو اور ہم لوگوں کو صرف نظریہ اور تھیوری نہ پڑھائیں بلکہ اس پر عمل کر کے اس کا نمونہ بھی ان کے سامنے پیش کریں۔

جبکہ ضروریات میں چوتھے نمبر پر اس بات کا ذکر کروں گا کہ جو کچھ ہم نے پڑھا ہے اسے اپنی ذات تک محدود رکھنے کی بجائے دوسروں تک پہنچانا بھی ہماری ضرورت ہے۔ میں نے اسے ذمہ داریوں کی بجائے جان بوجھ کر ضروریات کے دائرے میں بیان کیا ہے کہ علم کو دوسروں تک منتقل کرنا ہماری اپنی ضرورت ہے تا کہ ہم بخیل نہ شمار ہوں اور کتمان علم کے مرتکب نہ ہوں۔ ضرورت کے وقت علم کی متعلقہ بات چھپانے پر قرآن کریم نے سخت وعید بیان فرمائی ہے اور اس وعید سے بچنے کے لیے ہماری یہ ضرورت ہے کہ ہم حسبِ ضرورت علم کی بات دوسروں تک پہنچا کر علم کو نفع بخش بنائیں۔

علم کی ذمہ داریاں

علم کے حوالہ سے ہماری ذمہ داریوں کا دائرہ بہت وسیع ہے اور اس کے بیسیوں پہلو ہیں جن کی تفصیل کا وقت نہیں ہے مگر ان میں سے صرف ایک بات کا آج کی محفل میں تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم لوگوں کی نظر میں ایک عالم ہونے کی حیثیت سے جہاں بھی ڈیرہ لگائیں، اردگرد کے لوگوں کو تعلیم دینا اور ان کی دینی راہ نمائی ہماری ذمہ داری بن جاتا ہے، اس کے دو الگ الگ دائرے ہیں۔

ایک دائرہ یہ ہے کہ جو لوگ ہمارے پاس مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے خود آجاتے ہیں یا مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے طلب لے کر خود آتے ہیں، انہیں تو ہم کسی نہ کسی درجہ میں تعلیم اور راہنمائی فراہم کر دیتے ہیں اگرچہ جو کچھ ہونا چاہیے وہ نہیں ہوتا۔ جس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ ایک خطیب صاحب یا امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھنے والوں کو کم از کم نماز صحیح طریقہ سے پڑھنے کی تعلیم دینا اور نماز کے مسائل و احکام سے آگاہ کرنا بہرحال اس خطیب اور امام ہی کی ذمہ داری بنتی ہے۔ مگر ہم عام طور پر ایسا نہیں کرتے اور ہمارے اردگرد کے لوگ بنیادی ضروریات دین سے بھی بے بہرہ ہوتے ہیں ۔

دوسرا دائرہ تو اس سے بھی زیادہ قابل توجہ ہے کہ جو لوگ مسجد میں نہیں آتے یا جن میں دین کی تعلیم کی طلب موجود نہیں ہے، ان کی دینی و تعلیمی ضروریات کس نے پوری کرنی ہیں؟ یہ مسجد و مدرسہ میں آنے والے لوگوں کا تناسب نہ آنے والوں سے بہت ہی کم ہے۔ آنے والوں کی بہ نسبت نہ آنے والے بہت زیادہ ہیں لیکن ان کے ساتھ ہمارا سرے سے کوئی رابطہ نہیں ہوتا۔ اس تناظر میں جو لوگ دعوت و تبلیغ کے اس عمل کے ذریعہ مسجد میں نہ آنے والوں کو گھیر گھار کر مسجد میں لے آتے ہیں اور ہمارے پیچھے صف میں کھڑا کر دیتے ہیں۔ ہمیں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے اور انہیں اپنا معاون سمجھنا چاہیے کہ جن لوگوں کو مسجد تک لانا ہمارے دائرہ کار میں شامل نہیں ہے، انہیں سمجھا بجھا کر مسجد میں لانے والے یہ لوگ موجود ہیں اور کام کر رہے ہیں۔

پھر اس سے اگلی بات عرض کروں گا کہ عام مسلمانوں کے کلمے صحیح کرانا، انہیں عقائد و اعمال کی ضروریات سے روشناس کرانا ،اور ضروریات دین کی تعلیم دینا بھی اصل میں علماء کرام کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ لیکن یہ کام بھی کچھ اور لوگ کر رہے ہیں کہ تین دن، دس دن، چالیس دن کے مختلف کورسز کرا کے یہ لوگ عام مسلمانوں کو ضروریات دین کی تعلیم دینے کا کام کسی حد تک جاری رکھے ہوئے ہیں، اس لیے ہمیں ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ جبکہ ان لوگوں کو بھی خود کو علماء کرام کی راہ نمائی سے مستغنی نہیں سمجھ لینا چاہیے اور علماء کرام کی سر پرستی اور راہ نمائی کے دائرے سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔

میں کچھ عرصہ سے دیکھ رہا ہوں کہ بعض مقامات پر علماء کرام اور دعوت و تبلیغ کا کام کرنے والوں کے درمیان مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ جب کوئی کام وسعت پکڑتا ہے تو اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور طرح طرح کی الجھنیں کھڑی ہو جاتی ہیں۔ ان مسائل کو محسوس کرنا اور ان الجھنوں کے بر وقت حل نکالنا ہی دانش مندی کا تقاضہ ہو تا ہے۔ یہ لوگ مسجد کی آبادی اور عام لوگوں کو دین کے ساتھ جوڑنے کے کام میں ہمارے معاون ہیں اور علماء کرام ان کے سر پرست ہیں۔ ان حضرات کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہم لوگوں کو دین کے قریب لانے کی محنت کر رہے ہیں تا کہ مساجد آباد ہوں اور لوگ علماء کرام سے دین حاصل کریں۔ جبکہ علماء کرام کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ لوگ اس کارِ خیر میں ہمارے معاون اور دست و بازو ہیں۔ اگر دونوں طرف سے یہ جذبہ ہو گا تو اس کام کے مثبت فوائد و نتائج حاصل ہوں گے اور کام دن بدن مزید ترقی کرے گا۔ لیکن اگر ہم ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھتے رہیں گے تو اصل کام میں نقصان ہو گا اور خرابیاں پیدا ہوں گی۔ اس لیے آج کی اس محفل میں سب دوستوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دین کا کام کرنے والے سب لوگوں کو ایک دوسرے کا معاون بننا چاہیے اور ایک دوسرے کی کمزوریوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ایک دوسرے کی خوبیوں سے استفادہ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter