شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن دیوبندی قدس اللہ سرہ العزیز برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش کو فرنگی استعمار سے آزادی دلانے کی جدوجہد میں گرفتار ہو کر مالٹا جزیرے میں تقریباً ساڑھے تین سال نظر بند رہے اور رہائی کے بعد جب دیوبند واپس پہنچے تو انہوں نے اپنے زندگی بھر کے تجربات اور جدوجہد کا نچوڑ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے نزدیک مسلمانوں کے ادبار و زوال کے دو بڑے اسباب ہیں۔ ایک قرآن پاک سے دوری اور دوسرا باہمی اختلافات و تنازعات، اس لیے امت مسلمہ کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کو عام کیا جائے اور مسلمانوں میں باہمی اتحاد و مفاہمت کو فروغ دینے کے لیے محنت کی جائے۔
حضرت شیخ الہندؒ کا یہ بڑھاپے اور ضعف کا زمانہ تھا اور اس کے بعد جلد ہی وہ دنیا سے رخصت ہو گئے مگر ان کے تلامذہ اور خوشہ چینوں نے اس نصیحت کو پلے باندھا اور قرآن کریم کی تعلیمات کو عام مسلمانوں تک پہنچانے کے لیے نئے جذبہ و لگن کے ساتھ مصروف عمل ہو گئے۔ اس سے قبل حکیم الامت حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ اور ان کے عظیم المرتبت فرزندوں حضرت شاہ عبد العزیزؒ ، حضرت شاہ عبد القادرؒ اور حضرت شاہ رفیع الدینؒ نے قرآن کریم کے فارسی اور اردو میں تراجم اور تفسیریں لکھ کر اس خطہ کے مسلمانوں کو توجہ دلائی تھی کہ ان کا قرآن کریم کے ساتھ فہم و شعور کا تعلق قائم ہونا ضروری ہے اور اس کے بغیر وہ کفر و ضلالت کے حملوں اور گمراہ کن افکار و نظریات کی یلغار سے خود کو محفوظ نہیں رکھ سکتے جبکہ حضرت شیخ الہندؒ کے تلامذہ اور خوشہ چینوں کی یہ جدوجہد بھی اسی کا تسلسل تھی۔ بالخصوص پنجاب میں بدعات و اوہام کے سراب کے پیچھے بھاگتے چلے جانے والے ضعیف العقیدہ مسلمانوں کو خرافات و رسوم کی دلدل سے نکال کر قرآن و سنت کی تعلیمات سے براہ راست روشناس کرانا بڑا کٹھن مرحلہ تھا لیکن اس کے لیے جن ارباب عزیمت نے عزم و ہمت سے کام لیا اور کسی مخالفت اور طعن و تشنیع کی پروا کیے بغیر قرآن کریم کو عام لوگوں کی زبان میں ترجمہ و تفسیر کے ساتھ پیش کرنے کا سلسلہ شروع کیا، ان میں امام الموحدین حضرت مولانا حسین علی قدس اللہ سرہ العزیز آف واں بھچراں ضلع میانوالی، شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری قدس اللہ سرہ العزیز اور حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی نور اللہ مرقدہ کے اسماء گرامی سرفہرست ہیں جنہوں نے اس دور میں علاقائی زبانوں میں قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر سے عام مسلمانوں کو روشناس کرانے کی مہم شروع کی جب عام سطح پر اس کا تصور بھی موجود نہیں تھا مگر ان ارباب ہمت کے عزم و استقلال کا ثمرہ ہے کہ آج پنجاب کے طول و عرض میں قرآن کریم کے دروس کی محافل کو شمار کرنا بھی مشکل معلوم ہوتا ہے۔
اسی سلسلۃ الذہب کی ایک کڑی شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کی ذات گرامی بھی ہے جنہوں نے ۱۹۴۳ء میں گکھڑ کی جامع مسجد بوہڑ والی میں صبح نماز کے بعد روزانہ درس قرآن کریم کا آغاز کیا اور جب تک صحت نے اجازت دی، کم و بیش پچپن برس تک اس سلسلہ کو پوری پابندی کے ساتھ جاری رکھا۔ انہیں حدیث میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی سے اور ترجمہ و تفسیر میں امام الموحدین حضرت مولانا حسین علی سے شرف تلمذ و اجازت حاصل ہے اور انہی کے اسلوب و طرز پر انہوں نے زندگی بھر اپنے تلامذہ اور خوشہ چینوں کو قرآن و حدیث کے علوم و تعلیمات سے بہرہ ور کرنے کی مسلسل محنت کی ہے۔
حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کے درس قرآن کریم کے چار الگ الگ حلقے رہے ہیں۔ ایک درس بالکل عوامی سطح کا تھا جو صبح نماز فجر کے بعد مسجد میں ٹھیٹھ پنجابی زبان میں ہوتا تھا۔ دوسرا حلقہ گورنمنٹ نارمل سکول گکھڑ میں جدید تعلیم یافتہ حضرات کے لیے تھا جو سالہا سال جاری رہا۔ تیسرا حلقہ مدرسہ نصرت العلوم گوجرانوالہ میں متوسط اور منتہی درجہ کے طلبہ کے لیے ہوتا تھا اور دو سال میں مکمل ہوتا تھا۔ اور چوتھا مدرسہ نصرۃ العلوم میں ۷۶ء کے بعد شعبان اور رمضان کی تعطیلات کے دوران دورۂ تفسیر کی طرز پر تھا جو پچیس برس تک پابندی سے ہوتا رہا اور اس کا دورانیہ تقریباً ڈیڑھ ماہ ہوتا تھا۔ ان چاروں حلقہ ہائے دروس کا اپنا اپنا رنگ تھا اور ہر درس میں مخاطبین کی ذہنی سطح اور فہم کے لحاظ سے قرآنی علوم و معارف کے موتی ان کے دامن قلب و ذہن میں منتقل ہوتے چلے جاتے تھے۔ ان چاروں حلقہ ہائے درس میں جن علماء کرام، طلبہ، جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں اور عام مسلمانوں نے حضرت شیخ الحدیث مدظلہ سے براہ راست استفادہ کیا ہے، ان کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق چالیس ہزار سے زائد بنتی ہے۔ وذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء۔
ان میں عام لوگوں کے استفادہ کے لیے جامع مسجد گکھڑ والا درس قرآن کریم زیادہ تفصیلی اور عام فہم ہوتا تھا جس کے بارے میں متعدد حضرات نے خواہش کا اظہار کیا اور بعض مرتبہ عملی کوشش کا آغاز بھی ہوا کہ اسے قلم بند کر کے شائع کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے مستفید ہو سکیں لیکن اس میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ درس خالص پنجابی میں ہوتا تھا جو اگرچہ پورے کا پورا ٹیپ ریکارڈر کی مدد سے محفوظ ہو چکا ہے مگر اسے پنجابی سے اردو میں منتقل کرنا سب سے کٹھن مرحلہ ہے اس لیے بہت سی خواہشیں بلکہ کوششیں اس مرحلہ پر آکر دم توڑ گئیں۔
البتہ ہر کام کا قدرت کی طرف سے ایک وقت مقرر ہوتا ہے اور اس کی سعادت بھی قدرت خداوندی کی طرف سے طے شدہ ہوتی ہے اس لیے تاخیر در تاخیر کے بعد یہ صورت سامنے آئی کہ اب مولانا محمد نواز بلوچ فاضل مدرسہ نصرۃ العلوم اور برادرم محمد لقمان میر صاحب نے اس کام کا بیڑا اٹھایا ہے اور تمام تر مشکلات کے باوجود اس کا آغاز بھی کر دیا ہے جس پر دونوں حضرات اور ان کے دیگر سب رفقاء نہ صرف حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کے تلامذہ اور خوشہ چینوں بلکہ ہمارے پورے خاندان کی طرف سے بھی ہدیہ تشکر و تبریک کے مستحق ہیں۔ خدا کرے کہ وہ اس فرض کفایہ کی سعادت کو تکمیل تک پہنچا سکیں اور ان کی یہ مبارک سعی، قرآنی تعلیمات کے فروغ، حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کے افادات کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے اور ان گنت لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بنے اور بارگاہ ایزدی میں قبولیت سے سرفراز ہو۔
یہاں ایک امر کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ چونکہ یہ دروس کی کاپیاں ہیں اور درس و خطاب کا انداز تحریر سے مختلف ہوتا ہے اس لیے بعض جگہ تکرار نظر آئے گا جو درس و بیان کے لوازم میں سے ہے لہٰذا قارئین سے گزارش ہے کہ اس کو ملحوظ رکھا جائے۔ اس کے ساتھ ہی ان دروس کو ریکارڈنگ کے ذریعے سے محفوظ کرنے میں محمد اقبال آف دوبئی اور محمد سرور منہاس آف گکھڑ کی مسلسل محنت کا تذکرہ بھی ضروری ہے جنہوں نے اس عظیم علمی ذخیرہ کو ریکارڈ کرنے کے لیے سالہا سال تک پابندی کے ساتھ خدمت سرانجام دی۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر سے نوازے۔ آمین یا رب العالمین۔