واشنگٹن کے ایئر پورٹ پر ون مین پی ٹی شو

   
مئی ۲۰۰۳ء

۲۴ مئی کو واشنگٹن سے واپسی کا پروگرام تھا۔ ڈیلس ایئر پورٹ سے لندن ہیتھرو کے لیے یونائیٹڈ ایئر لائن کی پرواز تھی۔ سفر میں میرا ذاتی سامان دو تین جوڑے کپڑے، کچھ کاغذات اور رسائل ہوتا ہے۔ مگر عزیزوں اور دوستوں کے تحائف اور مختلف حضرات تک پہنچانے کے لیے امانتیں اچھا خاصا مسئلہ پیدا کر دیتی ہیں، جس کا اس سفر میں بھی سامنا کرنا پڑا۔ واشنگٹن کے علاقہ ڈمغریز میں میرے ہم زلف رہتے ہیں جو میرے میزبان بھی تھے۔ مجھ سے بڑے ہیں اس کے باوجود مجھے بڑوں جیسا احترام دیتے ہیں اور ان کے بچے بھی محبت اور احترام کا ایک دوسرے سے بڑھ کر اظہار کرتے ہیں۔ انہوں نے ایک بڑے بیگ میں اچھا خاصا سامان پیک کر رکھا تھا، جسے دیکھ کر دل میں کھٹکا تو ہوا، مگر توکل بر خدا میں نے خاموشی اختیار کر لی۔ ایک ہی بڑا بیگ تھا جو اگرچہ بہت وزنی تھا، مگر خیال تھا کہ امریکی ایئر لائنیں دو بیگ ساتھ لے جانے کی اجازت دے دیتی ہیں، اس لیے اس ایک کو ہی دو کے قائم مقام تصور کر لیا۔ مگر ایئر پورٹ پر جب ایئر لائن کے کاؤنٹر پر سامان تولا گیا تو اس کا وزن ایک سو دس پونڈ نکلا۔ مجھے بتایا گیا کہ ایک بیگ میں ستر پونڈ تک وزن آپ لے جا سکتے ہیں، اس سے زائد کا آپ کو کرایہ ادا کرنا پڑے گا۔ اس کی مقدار پوچھی تو بتایا گیا کہ چار سو ڈالر سے زیادہ ہو گا۔ میرے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے کہ اتنا کرایہ ادا کرنے کے بعد تو خالی جیب ہیتھرو ایئر پورٹ پر اترنا پڑے گا۔ مجھے رخصت کرنے کے لیے ایئرپورٹ آنے والے دو جوان ابھی موجود تھے۔ انہیں بلایا اور انہوں نے کاؤنٹر پر بات کی تو پتہ چلا کہ اصل جرم صرف یہ ہے کہ سامان ایک بیگ میں ہے، ورنہ یہی سامان اگر دو بیگوں میں ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ ایئر پورٹ سے ہی ساٹھ ڈالر میں ایک اور بیگ خرید کر سامان دو بیگوں میں تقسیم کیا گیا۔ اب کاؤنٹر پر گئے تو سامان پاس ہو گیا، مگر آرڈر ہوا کہ سکریننگ کے لیے الگ بنے ہوئے کاؤنٹر پر اسے چیک کرانے کے بعد آگے بھیجا جائے گا۔ وہ چیک بھی ہم نے خود کرنا تھا۔

اس کے ساتھ ایک بات اور یہ ہو گئی کہ کاؤنٹر پر متعین لیڈی صاحبہ نے میرے ٹکٹ پر یہ تو دیکھ لیا کہ میں نے ہیتھرو سے آگے لاہور تک بھی سفر کرنا ہے، مگر یہ نہ دیکھ پائیں کہ ہیتھرو اتر کر مجھے تین روز تک لندن میں قیام بھی کرنا ہے۔ اس لیے انہوں نے مجھے لاہور کا براہ راست مسافر سمجھ کر پورا سامان لاہور تک کے لیے بک کر دیا۔ اب ہم سکریننگ کے کاؤنٹر پر گئے تو انہوں نے ایک بیگ تو کھلوائے بغیر آگے بھجوا دیا، مگر دوسرا بیگ کھولنے کے لیے کہا۔ اس دوران میری نظر ان ٹیگوں پر پڑی جو ان دو بیگوں کی رسید کے طور پر مجھے دیے گئے تھے تو دیکھا کہ ٹیگ لاہور کے لگے ہوئے ہیں اور ان پر ۲۵ مئی کو ہیتھرو سے لاہور کے لیے پی آئی اے کی پرواز کا نمبر لکھا ہوا ہے، جبکہ میری آگے کی پرواز ۲۸ مئی کی تھی۔ میں نے متعلقہ عملے سے بات کی تو انہوں نے سامنے والے بیگ کا ٹیگ تو تبدیل کر دیا اور لاہور کا ٹیگ اتار کر مجھے اس کا ہیتھرو کا ٹیگ دے دیا۔ مگر دوسرا بیگ دوسرے سامان کے ساتھ تھا۔ عملہ کی ایک خاتون نے اسے واپس منگوا کر تبدیل کرنے کی خاصی کوشش کی اور وہ اس کے لیے خاصی پریشان ہوئی، مگر تلاش بسیار کے باوجود وہ بیگ واپس نہ آسکا۔ اس لیے مجھے کہا گیا کہ اب تو یہ بیگ آپ کو لاہور میں ہی ملے گا۔ میں نے دل ہی دل میں کہا کہ لاہور پہنچنے تک وہ صحیح سلامت موجود رہا اور میرے مقدر میں ہوا تو ان شاء اللہ تعالیٰ ضرور مل جائے گا ورنہ ۔۔۔

اب دوسرے بیگ کی داستان سنیے، جسے چیکنگ کے لیے کھلوایا گیا۔ اس میں کچھ کپڑے اور کھلونے تھے جو میرے پوتے اور نواسوں کے لیے ان کی خالہ اور نانی نے دیے تھے۔ میں نے بین الاقوامی روٹس پر بیسیوں سفر کیے ہیں اور تلاشی کے مختلف مراحل سے گزرا ہوں، مگر ایسی تلاشی اور چیکنگ سے زندگی میں اس سے قبل کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا۔ معلوم نہیں یہ کرشمہ پاکستانی پاسپورٹ کا تھا یا میری سفید لمبی داڑھی کا کہ پورا بیگ خالی کر کے ایک ایک چیز کو مختلف آلات کے ذریعے چیک کیا گیا۔ چیک کرنے والا شخص ایک ایک چیز کو الگ کر کے چیک کرتا اور ساتھ ہی ہماری طرف دیکھتا، شاید چہروں کے تاثرات معلوم کرنا چاہتا ہو۔ خدا خدا کر کے اس کا کام مکمل ہوا اور اس نے تالا لگا کر چابی میرے حوالے کر دی۔

اب مجھے روانگی کے لاؤنج کی طرف جانا تھا اس لیے میں نے اپنے دونوں عزیزوں کو رخصت کر دیا۔ روانگی کا لاؤنج فاصلے پر تھا اور اس کے لیے ایئر پورٹ کی بس پر جانا تھا۔ وہاں پہنچا تو حسب معمول دستی سامان کو سکریننگ سے گزارا گیا اور میں بھی اس مقصد کے لیے بنے ہوئے گیٹ سے گزرا۔ اس کے بعد مجھے ایک کرسی پر بٹھا دیا گیا اور ایک نوجوان نے مجھے ایک طرف کرسی پر بیٹھنے کے لیے کہا۔ اس شخص کو اور اس کے انداز کو دیکھ کر مجھے اپنے ہاں کی جیلوں کے وارڈن یاد آگئے کہ کافی عرصہ کے بعد ان جیسے سلوک سے سابقہ پیش آیا تھا۔ کرسی پر بٹھانے کے بعد اس نے مجھے دائیں ٹانگ اٹھانے کے لیے کہا اور ٹانگ کے گرد چاروں طرف چیکنگ کا آلہ گھمایا، پھر بائیں ٹانگ اٹھانے کو کہا اور یہی عمل دہرایا۔ پھر جوتے اتارنے کے لیے کہا گیا اور اس کے بعد کہا کہ کھڑے ہو جاؤ۔ میں کھڑا ہوا تو حکم ہوا کہ دایاں بازو پھیلاؤ۔ وہ پھیلایا، پھر بائیں بازو کے بارے میں آرڈر ہوا۔ پھر حکم ہوا کہ دونوں بازو ایک ساتھ پھیلاؤں۔ اس کے بعد اشارہ کیا کہ دایاں بازو آگے کی طرف اور بایاں پیچھے کی طرف پھیلاؤں۔ پھر اس کے برعکس کرنے کی تلقین ہوئی۔ بازوؤں کی مشق ختم ہوئی تو کھڑے کھڑے اسی ترتیب کے ساتھ ٹانگوں کو پھیلانے اور آگے پیچھے کرنے کی مشق شروع ہو گئی اور اس دوران وہ صاحب چیکنگ کے آلے کو جسم کے چاروں طرف گھمانے اور کم و بیش ہر عضو کے ساتھ لگا کر چیک کرنے میں مصروف رہے اور اس طرح واشنگٹن کے ڈیلس ایئر پورٹ پر میرا اچھا خاصا پی ٹی شو کرا دیا گیا۔

ان مراحل سے گزر کر ہوائی جہاز تک پہنچے۔ اس کی روانگی کا وقت چھ بجے کے لگ بھگ تھا اور اس وقت واشنگٹن میں ۲۴ مئی کا سورج غروب ہونے میں تقریباً دو گھنٹے باقی تھے، جبکہ لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ پر ہم صبح ساڑھے چھ بجے اترے، جہاں ۲۵ مئی کا سورج طلوع ہوئے ڈیڑھ گھنٹہ گزر گیا تھا۔ مگر ساڑھے تین گھنٹے کی مختصر رات بحر اوقیانوس کی فضاؤں میں پرواز کرتے ہوئے گزاری۔ شام کو سورج ڈوبتے وقت فضا میں اندھیرا چھانے کا منظر بھی دیکھا اور صرف تین گھنٹے کے بعد دوسری جانب سورج طلوع ہونے سے قبل افق پر روشنی کے نمودار ہونے کے خوبصورت منظر کا بھی مشاہدہ کیا۔ یہ قانون فطرت ہے کہ سورج ایک طرف ڈوبتے ہوئے اندھیروں کو آگے بڑھنے کا موقع دیتا ہے تو دوسری طرف اندھیروں کو دیکھتے ہوئے روشنی پھیلانے کی ڈیوٹی میں بھی مصروف رہتا ہے۔

اس قسم کے جذبات اور تاثرات کے ساتھ ۲۵ مئی کی صبح کو ہیتھرو ایئرپورٹ پر اترا۔ برطانیہ کے لیے میرا ملٹی پل ویزا ۲۸ مئی کو ختم ہو رہا تھا اور برطانیہ کے نئے امیگریشن طریق کار میں اب ملٹی پل ویزے پر انٹری کی مہر نہیں لگائی جاتی۔ ویزے کی آخری تاریخ ہی انٹری کی آخری تاریخ ہوتی ہے، اس لیے کاؤنٹر پر ایک ہی سوال ہوا کہ آپ کا ویزا تو ختم ہو رہا ہے، مگر جب یہ کہا کہ میں صرف تین روز کے لیے رکنا چاہ رہا ہوں اور ۲۸ مئی کو میری لاہور واپسی کے لیے سیٹ کنفرم ہے تو کاؤنٹر پر متعین افسر نے مجھے لندن میں داخل ہونے کی اجازت دے دی۔

یہاں اس دفعہ میرا قیام ٹرسٹ کے بنائے ہوئے نئے سکول میں ہے جو ابراہیم انسٹیٹیوٹ کے نام سے وائٹ چیپل کے علاقہ میں بڑی مسجد کی عقب والی گلی میں ہے اور وہیں بیٹھا یہ تاثرات قلمبند کر رہا ہوں۔ ٹرسٹ بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے نوجوان علمائے کرام نے قائم کیا ہے اور مسلم بچوں کے لیے ایک ایسا سکول قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں عصری تعلیم کے ساتھ دینی ماحول اور ضروری تعلیم کا بھی اہتمام ہو گا۔ ان میں مولانا شفق اور مولانا شمس الضحیٰ پیش پیش ہیں۔ گزشتہ سال ان دونوں نے میری حاضری پر ایک ہفتے کا پروگرام رکھا تھا، جس میں نوجوان علماء کی ایک ٹیم شریک تھی اور ان سے ’’موجودہ عالمی صورتحال میں دینی حلقوں کی ذمہ داریوں‘‘ کے حوالے سے مسلسل ایک ہفتہ گفتگو ہوتی رہی۔

میری روانگی کے بعد ندوۃ العلماء لکھنؤ سے مولانا سید سلمان ندوی تشریف لا رہے ہیں اور یہ حضرات ان کے مختلف پروگراموں کی ترتیب میں مصروف ہیں۔ ان نوجوان علماء کا کام دیکھ کر خوشی ہوتی ہے اور اطمینان ہوتا ہے کہ وقت کی ضروریات اور مسائل کا احساس بیدار ہو رہا ہے اور طریق کار میں جدید انداز کو اپنانے کی ضرورت دھیرے دھیرے محسوس ہوتی رہی ہے۔ ٹرسٹ نے اس ادارہ میں دارالافتاء قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے مولانا مفتی عبد المنتقم سلہٹی ان کے ساتھ شریک ہو رہے ہیں جو بنگلہ دیش کے نوجوان علماء میں باصلاحیت عالم ہیں اور حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کے خصوصی تربیت یافتہ حضرات میں سے ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter