کشمیر کے بارے میں ’’ٹریک ٹو پالیسی‘‘ کے پس پردہ بعض سرگرم قادیانیوں کو متحرک دیکھ کر کم و بیش پون صدی قبل کا وہ منظر نگاہوں کے سامنے گھومنے لگا ہے جب قادیانی گروہ نے کشمیر پر اپنا جال پھیلانے کے لیے مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ تک کو کچھ دیر کے لیے دام ہمرنگ زمین کا شکار بنا لیا تھا۔ مگر مجلس احرار اسلام خطرہ کی بو سونگھتے ہوئے میدان میں کود پڑی اور اس نے نہ صرف علامہ اقبالؒ کو اس جال سے نکالنے میں کامیابی حاصل کر لی تھی بلکہ ڈوگرہ سامراج کے مظالم میں مسلسل پستے چلے جانے والے مجبور کشمیری عوام کے ساتھ ہمدردی کی آڑ میں قادیانیوں کے کشمیر کی طرف بڑھتے ہوئے قدموں کو بھی روک دیا تھا۔
یہ ۱۹۳۱ء کی بات ہے جب ریاست جموں و کشمیر کے مسلمان عوام ڈوگرہ حکمرانوں کے مظالم اور جبر و تشدد سے تنگ آکر بغاوت پر اتر آئے تھے اور قرآن کریم کی توہین کے ایک شرمناک واقعہ نے کشمیر کے غیور مسلمانوں کو ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف سڑکوں پر لا کھڑا کیا تھا۔ شیخ محمد عبد اللہ مرحوم اسی احتجاجی تحریک میں منظر عام پر آئے تھے اور پھر اپنی شعلہ نوائی اور قائدانہ صلاحیتوں کے باعث آگے بڑھتے چلے گئے تھے۔ اس موقع پر میاں سر فضل حسین مرحوم جو پنجاب کے ان سرکردہ سیاسی رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے جو تحریک آزادی کا ساتھ دینے کی بجائے انگریزی حکومت کا سہارا بننے کو ترجیح دیتے رہے، انہوں نے شملہ میں کشمیری عوام کی حمایت کے لیے اپنے سیاسی ذوق کے حامل حضرات پر ایک کشمیر کمیٹی تشکیل دی جس کا سربراہ قادیانی گروہ کے قائد مرزا بشیر الدین محمود کو بنایا گیا اور چند دیگر سرکردہ مسلمان قائدین کے ساتھ ساتھ علامہ محمد اقبالؒ کو بھی کشمیر کمیٹی کا رکن بنا لیا گیا۔
مرزا بشیر الدین محمود کی سربراہی میں بننے والی کشمیر کمیٹی سے اس کے علاوہ کیا توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ مسلمانوں کی مظلومیت اور جذبات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ریاست جموں و کشمیر میں قادیانی اثر و نفوذ کو فروغ دے گی۔ اور اس کمیٹی میں علامہ اقبالؒ کو شامل کرنے کا مقصد مسلمانوں میں اس عظیم فلسفی شاعر اور مفکر کی مقبولیت کی آڑ میں اپنے لیے پیش رفت کی جگہ بنانے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ چنانچہ اس پس منظر میں مرزا بشیر الدین محمود اور ان کے بعض حواریوں کی طرف سے کشمیر کو قادیانی ریاست بنانے کی خواہش کا بھی اظہار ہونے لگا جسے برصغیر کے دیندار مسلمانوں اور خاص طور پر مجلس احرار اسلام نے محسوس کیا۔ احرار رہنماؤں کے وفد نے علامہ اقبالؒ سے ملاقات کر کے انہیں اس خطرہ سے آگاہ کرتے ہوئے ان سے درخواست کی وہ مرزا بشیر الدین محمود کی سربراہی میں بننے والی کشمیر کمیٹی سے علیحدگی کا اعلان کریں۔ علامہ اقبالؒ نے یہ درخواست منظور کرلی اور کشمیر کمیٹی سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔
اس کے بعد اگست ۱۹۳۱ء کے وسط میں مجلس احرار اسلام نے کشمیری عوام کی حمایت میں خود میدان میں آنے کا فیصلہ کیا۔ اکتوبر میں چوہدری افضل حق مرحوم، مولانا مظہر علی اظہر مرحوم اور خواجہ غلام محمد مرحوم پر مشتمل احرار قائدین کا وفد کشمیری عوام کے مطالبات پر ڈوگرہ حکمرانوں سے بات چیت کے لیے جموں پہنچا مگر بات چیت جب کسی نتیجہ پر نہ پہنچی تو مجلس احرار اسلام نے کشمیری عوام کی حمایت میں احرار کارکنوں کو کشمیر بھیجنے اور ان کی تحریک میں شامل ہونے کا اعلان کردیا۔ اسی دوران امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کو دہلی سے گرفتار کر لیا گیا اور ڈیڑھ سال قید با مشقت کی سزا سنا دی گئی جس سے احرار کارکنوں کے جذبات میں مزید جوش و خروش پیدا ہوا۔
نومبر ۱۹۳۱ء میں احرار کارکنوں نے چاروں طرف سے کشمیر پر یلغار کر دی، جہلم سے میر پور، راولپنڈی سے کوہالہ، اور سیالکوٹ سے سچیت گڑھ کے راستے احرار رضاکار کشمیر میں داخل ہونا شروع ہوئے جنہیں ریاست کی حدود میں قدم رکھتے ہی گرفتار کر لیا جاتا۔ تین ماہ کے عرصہ میں چالیس ہزار کے لگ بھگ رضاکاروں کو کنٹرول سے باہر ہوتا دیکھ کر ڈوگرہ حکمرانوں نے دہلی کی انگریز حکومت سے رابطہ کیا جس نے پہلے جمعیۃ علماء ہند کے حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ کے ذریعہ احرار رہنماؤں سے مفاہمت کا راستہ نکالنے کی کوشش کی جو کامیاب نہ ہوئی جس پر احرار کے خلاف داروگیر اور جبر و تشدد کا محاذ دہلی کی انگریز حکومت نے براہ راست سنبھال لیا۔ پھر تحریک کا دائرہ ریاست سے نکل کر پورے ہندوستان میں پھیل گیا۔ کشمیر کے بعض لیڈروں کو ریاست میں احرار کی مقبولیت بڑھنے سے اپنی قیادت ڈگمگاتی دکھائی دی اور بعض معاصر سیاسی جماعتوں نے بھی تعاون کی امیدیں پوری نہ کیں جس کی وجہ سے مجلس احرار اسلام کی یہ جدوجہد مزید آگے نہ بڑھ سکی۔ البتہ کشمیری عوام میں سیاسی بیداری اور جذبۂ حریت کو فروغ دینے میں اس تحریک نے اہم کردار ادا کیا۔ ورنہ اگر برصغیر کی دوسری سیاسی جماعتیں بھی اس موقع پر احرار کا ساتھ دیتیں اور ریاست جموں و کشمیر کی مقامی لیڈرشپ احرار کو اپنا حریف قرار دینے کی بجائے دوست اور معاون سمجھ لیتی تو آج اس خطہ کی صورتحال ہی مختلف ہوتی۔
چنانچہ قیام پاکستان کے بعد جب مجلس احرار اسلام نے مسلم لیگ کے ساتھ سیاسی مخالفت کے خاتمہ کا اعلان کرتے ہوئے عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور پاکستان کے تحفظ و دفاع کی خاطر متحرک ہونے کا فیصلہ کیا تو لاہور کے کھلے جلسہ میں امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے اس کا شکوہ بھی کیا جسے ’’حیات امیر شریعتؒ‘‘ کے مصنف جانباز مرزا مرحوم نے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جب بھارتی حکمرانوں کی طرف سے پاکستان کے خلاف جارحانہ عزائم کا اظہار شروع ہوا تو مجلس احرار اسلام نے جنوری ۱۹۴۹ء کے دوران دہلی دروازہ سے باہر ’’دفاع پاکستان کانفرنس‘‘ کے عنوان سے تین روزہ کانفرنس منعقد کی جس میں احرار قائدین نے وطن عزیز پاکستان کے دفاع اور تحفظ کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کا اعلان کیا۔ اس کانفرنس میں جب امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ خطاب کر رہے تھے تو ان کی تقریر کے دوران ممتاز کشمیری لیڈر چوہدری غلام عباس مرحوم بھی جلسہ گاہ میں تشریف لائے جن کا احرار کارکنوں نے پرجوش استقبال کیا اور ’’کشمیر ہمارا ہے‘‘ کے نعروں کی گونج میں انہیں اسٹیج پر پہنچا دیا۔ اس موقع پر شاہ جی نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ
’’چوہدری صاحب کی آمد سے بات دوسری طرف چلی گئی عزیزو! خدا جانے اب آپ کس کشمیر کو لینے کے ارادے کر رہے ہیں یا کس کشمیر کے متعلق سوچتے ہیں؟ ورنہ وہ کشمیر جو ذہنوں میں جنت کا نشان ہے جس کے متعلق میری رائے ہے کہ پروردگار عالم نے آسمانوں پر اپنی موجودگی میں تیار کروا کر اسے زمین پر اتار دیا وہ جنت کا ایک ٹکڑا ہے، جس پر اب نہیں ۱۹۳۱ء سے مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے۔ اس زمانے میں ہم نے اسی کشمیر کے متعلق مسلمانوں سے بات کہی تھی لیکن اس وقت کے رئیس مسلمانوں نے جن کا تعلق فرنگی ایوانوں سے تھا ہماری بات نہ سنی۔ اگر اس زمانے میں جب ہم نے چالیس ہزار کے قریب مسلمانوں کو جیل میں بھجوایا اور بائیس نوجوانوں نے کشمیر کی آزادی کے لیے جام شہادت نوش فرمایا تھا، ہماری بات مان لی ہوتی تو آج کشمیر کا نقشہ یہ نہ ہوتا۔ خیر ۔۔۔۔ اب آپ بھی سن لیں اور چوہدری صاحب بھی! کشمیر تو آپ اپنے ہاتھ سے دے چکے، اگر فائربندی کی بات نہ ہوتی تو ممکن ہے کوئی بات بن جاتی۔ مگر اب تو میری بات لکھ کر جیب میں ڈال لو کہ فرنگی اور ہندو اب آپ کو کشمیر نہیں دیں گے۔ ہاں اگر کبھی فرنگی کو ضرورت ہو کہ وہ اس مستقل فساد کو ختم کرنا چاہے تو ممکن ہے اس کا کچھ حصہ آپ کے پاس آجائے۔‘‘
شاہ جیؒ کا مطلب یہ تھا کہ جب ۱۹۴۸ء میں کشمیری مجاہدین اور ان کے ساتھ آزاد قبائل کے غیور مسلمان سری نگر اور پونچھ میں داخل ہو رہے تھے اس وقت جنگ جاری رکھنے کی بجائے سیز فائر قبول کر کے ہندوستان کو کشمیر پر مسلح قبضے کا موقع فراہم کیا گیا، اس لیے اب بھارت آسانی سے کشمیر نہیں چھوڑے گا اور نہ ہی فرنگی کشمیر کو پاکستان کے سپرد کرنے کے لیے تیار ہوگا۔
اس پرانی داستان کو دہراتے ہوئے میرے ذہن میں دو سوال ابھر رہے ہیں:
- ایک یہ کہ آج پھر جبکہ مجاہدین کشمیر نے انڈین آرمی کے لیے کشمیر میں زیادہ دیر تک براجمان رہنے کو مشکل تر بنا دیا ہے اور بھارت ایک بار پھر سیز فائر کے نام سے اپنے اکھڑے ہوئے قدم دوبارہ جمانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے تو کیا ہمارے حکمران پھر سے بھارت کو کشمیر میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کا موقع دینے کے لیے تیار ہو جائیں گے؟
- دوسرا سوال یہ ہے کہ آج پھر کشمیر کی صورتحال کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیے ’’قادیانی لابی‘‘ سرگرم عمل ہے اور اس کے دام ہمرنگ زمین میں بڑے بڑے خوشنما چہرے اور متبرک نام شکار ہوتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ تو کیا آج چوہدری افضل حقؒ، سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، مولانا مظہر علی اظہرؒ، شیخ حسام الدینؒ، اور ماسٹر تاج الدین انصاریؒ کا کوئی وارث زندہ نہیں ہے جو کشمیر کی طرف قادیانیوں کے تیزی سے بڑھتے ہوئے قدموں کی راہ روک لے اور آج کے دانشوروں آج کے بشیر الدین محمودوں کے جال میں پھنسنے سے بچا لے؟