مسئلہ فلسطین اور ملک میں الیکشن کی صورتحال

   
۲۹ جنوری ۲۰۲۴ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج مختلف دینی پروگرامز کے حوالے سے ٹنڈو الٰہ یار حاضری ہوئی ہے، اور صحافی برادری سے ملاقات اس حوالے سے خوشی کا باعث بنی ہے کہ میں خود بھی ایک صحافی ہوں، صحافی برادری کے ساتھ میرا تعلق بھی ہے۔ میں پریس کلب اور آپ سب حضرات کا شکر گزار ہوں کہ اس ملاقات کا اہتمام کیا۔ میں پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل کے طور پر چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔

➊ اس وقت عالمی سطح پر ہمارا سب سے اہم مسئلہ فلسطین کا ہے۔ یہ دنیا کے امن اور علاقائی صورتحال کا مسئلہ بھی ہے، لیکن بالخصوص ہم مسلمانوں کے لیے مسجدِ اقصیٰ اور فلسطین کے حوالے سے ملی اور دینی مسئلہ بھی ہے ۔ فلسطینی مجاہدین نے گزشتہ تین چار ماہ کی جدوجہد میں جو پیشرفت کی ہے اور قربانیاں دے کر مسئلے کو اجاگر کیا ہے، اس پر فلسطینی مجاہدین کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے میں اس بات پر افسوس کا اظہار کرنا چاہوں گا کہ مسلم امہ نے تو دنیا بھر میں اپنے جذبات، تعلق، عقیدت اور اس مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھنے کا بھرپور اظہار کیا ہے، لیکن حکومتوں کی سطح پر جو ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہوا۔ حالانکہ ماضی اور مستقبل دونوں حوالوں سے یہ مسئلہ عالمِ اسلام اور امتِ مسلمہ کا ہے، مگر اس پر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور اس کے بعد مصر، پاکستان، سعودیہ اور دیگر مسلم ممالک کو جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا وہ نہیں ہوا اس بات پر ہمیں افسوس ہے۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ فلسطینی مجاہدین نے سات اکتوبر کو جو کارروائی کی تھی اس میں سٹریٹیجک کامیابی تو انہوں نے حاصل کر لی ہے کہ

  1. اسرائیل کو تسلیم کرنے کا جو نیا راؤنڈ شروع ہو رہا تھا، انہوں نے اسے بریک لگا دی۔
  2. انہوں نے دنیا کا یہ تاثر ختم کر دیا کہ اسرائیل سے لڑا نہیں جا سکتا۔ فلسطینی مجاہدین نے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر افغان امریکہ سے لڑ سکتے ہیں تو فلسطینی بھی اسرائیل سے لڑ سکتے ہیں۔
  3. انہوں نے اس مسئلے کے علاقائی مسئلہ ہونے کا تصور ختم کیا ہے کہ یہ علاقائی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ عالمی امن کا مسئلہ اور عالمِ اسلام کا مسئلہ ہے۔

لیکن اس میں جو کردار ہماری حکومتوں کو ادا کرنا چاہیے تھا وہ نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ عالمی عدالت میں اس کیس کو جنوبی افریقہ لے کر گیا ہے، جس پر ہم جنوبی افریقہ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں اور خیر مقدم کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک جائز انسانی مسئلے پر آواز اٹھائی ہے اور پیشرفت کی ہے۔ عالمی عدالت کے اس وقت تک جو ریمارکس ہیں وہ بتا رہے ہیں کہ اسرائیل نے جارحیت، درندگی، عالمی قوانین کی خلاف ورزی اور انسانی حقوق کی پامالی کی ہے۔

اس پر میں مسلم حکومتوں، او آئی سی ، پھر پاکستان، سعودی عرب اور مصر سے یہ درخواست کرنا چاہوں گا کہ وہ اس کیس میں فریق بنیں، جنوبی افریقہ کے ساتھ کھڑے ہوں، فلسطینی بھائیوں کی امداد کریں اور واضح کریں کہ یہ مسئلہ عالمی امن اور عالمِ اسلام کا اجتماعی مسئلہ ہے۔

اس کے ساتھ پاکستان کے دینی حلقوں نے جس اعتماد کے ساتھ پاکستانی قوم کے موقف کا اظہار کیا ہے وہ خوش آئند ہے۔ کنونشن سینٹر اسلام آباد اور کراچی میں اس حوالے سے جو کنونشن ہوئے الحمد للہ پاکستان کے دینی اور عوامی حلقوں نے اپنی آواز اور موقف کو پیش کرنے پر بہتر کردار ادا کیا ہے۔ اور اس کے ساتھ میں اس اطلاع کا اضافہ کرنا چاہوں گا کہ ہم نے انتخابی گہماگہمی کی وجہ سے اس مہم میں کچھ بریک لگائی ہے، الیکشن کے بعد ہم کمپین کو دوبارہ منظم کریں گے۔ ہمارا تمام مکاتبِ فکر کا ایک مشترکہ فورم ’’ملی مجلس شرعی پاکستان‘‘ کے نام سے ہے، جس میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، جماعت اسلامی اور شیعہ تقریباً سب شامل ہیں۔ جس طرح اسلام آباد اور کراچی میں فلسطین اور مسجد اقصیٰ کی حمایت میں مشترکہ کنونشن ہوا ہے، ہم نے اسی طرز پر لاہور اور ملک کے بڑے بڑے شہروں میں کنونشنز کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے، تاہم تاریخوں کا تعین انتخابی صورتحال کو دیکھ کر کیا جائے گا۔ انتخابات سے پہلے تو مشکل ہے، بعد میں ہم اس سلسلے کا آغاز کریں گے اور اس سلسلے کو مسلسل چلائیں گے ان شاء اللہ العزیز تاکہ پاکستانی قوم بیدار رہے اور یہ پتہ چلتا رہے کہ پاکستانی قوم اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ ہے۔

میں اس مسئلے پر ملی مجلس شرعی پاکستان اور پاکستان شریعت کونسل کی طرف سے تین گزارشات عرض کرنا چاہوں گا:

  1. سب سے پہلے تو ہمیں اس آواز کو بلند کرتے رہنا چاہیے کہ یہ علاقائی جھگڑا نہیں ہے، بلکہ یہ نسلِ انسانی کے اجتماعی امن اور عالمِ اسلام کا ملی مسئلہ ہے اور فلسطینی مظلوم ہیں، اسرائیل جارحیت، وحشت اور بربریت کا ارتکاب کر رہا ہے۔ یہ آواز سب دینی جماعتوں کو مل کر اٹھانی چاہیے، دینی جماعتوں کا آپس میں اختلاف ہوتا ہے، لیکن قومی، دینی اور ملی مسائل پر دینی جماعتوں نے ہمیشہ متفقہ موقف دیا ہے۔
  2. اس کے ساتھ ہر ممکن ذرائع سے مظلوم فلسطینیوں کی مدد کرنی چاہیے، جو بھی معتمد اور جائز ذرائع ملتے ہوں ان کے ذریعے ان تک امداد پہنچانی چاہیے۔ پاکستان کی طرف سے اور دوسری رفاہی تنظیمیں جو امداد وہاں پہنچا رہی ہیں اس میں تیزی آنی چاہیے، اور وہاں کی ضروریات کو سامنے رکھ کر جو کچھ ہم سے ہو سکے ہمیں کرنا چاہیے۔
  3. تیسری بات یہ ہے کہ اپنے جذبات کے اظہار کے لیے کم از کم اسرائیلی یہودی مصنوعات کے بائیکاٹ کا ضرور ماحول پیدا کرنا چاہیے۔ یہ دینی اور سیاسی جماعتوں اور جو بھی اس کاز سے دلچسپی رکھتے ہیں ان سب کی ذمہ داری ہے۔

یہ ہمارا مسئلہ فلسطین کے حوالے سے موقف ہے جو اس وقت عالمی سطح پر چل رہا ہے۔

➋ ملک کے اندر اس وقت انتخابات کی فضا ہے۔ پاکستان شریعت کونسل اور ملی مجلس شرعی پاکستان دونوں انتخابی جماعتیں نہیں ہیں۔ ہم علمی اور فکری فورم کے طور پر کام کرتے ہیں، انتخابات میں بطور پارٹی فریق نہیں ہیں، نہ کسی کے حق میں اور نہ کسی کے خلاف۔ البتہ اس مسئلے پر اپنے جذبات کا اظہار ضرور کریں گے کہ اس دفعہ دینی جماعتوں نے باہمی افہام و تفہیم کا کوئی راستہ اختیار نہیں کیا اور سب الگ الگ الیکشن لڑ رہی ہیں، یہ صورتحال ٹھیک نہیں ہے، انہیں متحد ہو کر الیکشن میں آنا چاہیے تھا۔ بہرحال جو کچھ بھی ہو چکا، غلط ہوا یا صحیح ہوا، اس ماحول اور موجودہ معروضی صورتحال میں ہماری ملک بھر کے تمام حلقوں میں ووٹروں سے تین گزارشات ہیں:

  1. ملک بھر کے تمام حلقوں کے تمام ووٹروں سے ہماری پہلی درخواست یہ ہے کہ اپنے حلقے میں مشاورت کے ساتھ ایسے آدمی کا انتخاب کریں جو پاکستان کی قومی خودمختاری، دستور کی بالادستی، معیشت کی بحالی اور آزادی، اسلامی اقدار و روایات اور تعلیمات کے فروغ و نفاذ، اور مسلم تہذیب اور شناخت کے تحفظ کو یقینی بنانے کا عزم کرے، چاہے وہ کسی بھی پارٹی کا امیدوار ہو، جو اِن مقاصد میں پاکستان کے ساتھ مخلص ہو، اسے کامیاب بنائیں۔
  2. دوسری بات یہ ہے کہ جن حلقوں میں دینی جماعتوں کے امیدوار آپس میں مد مقابل ہیں، ہم ان سے اور اس حلقے کے لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ ابھی الیکشن میں چند دن باقی ہیں آپ کسی ایک پر متفق ہونے کی کوشش کریں اور جگ ہنسائی کا ذریعہ نہ بنیں۔
  3. تیسرے نمبر پر ہم نے ملک بھر میں پاکستان شریعت کونسل کے فورم سے عام ووٹروں کو یہ تجویز دی ہے کہ آپ تمام تر تقسیمات سے ہٹ کر جس امیدوار کو بھی ووٹ دیں، درج ذیل چند باتوں کا ان سے تحریری وعدہ ضرور لیں کہ
    ’’میں دستور کی پاسداری کروں گا، دستور کی اسلامی دفعات کا تحفظ کروں گا، ختمِ نبوتؐ اور ناموسِ رسالتؐ کے قوانین کی حفاظت کروں گا، اسلامی تہذیب و ثقافت اور مسلم تشخص کی حفاظت کروں گا، اور قومی خود مختاری اور معیشت کی بحالی کے لیے جو بھی قدم ہوگا اس میں ساتھ دوں گا۔‘‘
    اس مفہوم کا تحریری وعدہ کم از کم ہر حلقے کے لوگوں کو اپنے ہر امیدوار سے لینا چاہیے تاکہ قوم و ملک اور دستور کے ساتھ ہماری اجتماعی کمٹمنٹ اور وفاداری کا ایک بار پھر اجتماعی طور پر اظہار ہو۔

اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو ہر مسئلہ میں صحیح رخ پر کام کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter