جناب رسول اکرم ﷺ کی چند امتیازی خصوصیات

   
۱۰ جون ۲۰۰۱ء

جملہ اہل اسلام کا عقیدہ ہے کہ جناب رسالت مآب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پوری کائنات اور مخلوقات میں افضل ترین ہستی ہیں، اور اللہ تعالیٰ کی ذاتِ گرامی کے بعد مقام و مرتبت میں جناب نبی اکرمؐ ہی کا نام نامی آتا ہے۔ سیدنا حضرت آدم علیہ السلام سے جناب محمد رسول اللہ تک کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر دنیا میں تشریف لائے جو سب مخلوقات میں افضل ترین طبقہ اور بزرگ ترین ہستیاں ہیں، اور ان میں حضرت محمدؐ کا مقام و مرتبہ سب سے بلند و بالا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت ہی ایسی خصوصیات و امتیازات سے نوازا ہے جو آپ سے قبل کسی کو عطا نہیں ہوئیں۔ انہیں سیرت و سنت کی کتابوں میں ’’خصائصِ نبویؐ‘‘ کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے اور محدثین کرام نے مستقل ابواب قائم کر کے ان خصوصیات و امتیازات کا اہتمام سے تذکرہ کیا ہے۔ جب کہ امام جلال الدین سیوطیؒ کی مستقل تصنیف ’’الخصائص الکبریٰ‘‘ کے نام سے موجود ہے جس میں احادیث اور سیرت کی کتابوں سے جناب نبی اکرمؐ کی سینکڑوں خصوصیات کو انہوں نے جمع کر دیا ہے۔ ان میں سے چند امور کو ثواب و برکت کے لیے ہم آج کے کالم میں ذکر کرنا چاہتے ہیں جو حضرت امام مسلم بن حجاج قشیریؒ نے مسلم شریف میں مساجد کی فضیلت کے باب میں حضرت جابر بن عبد اللہؓ، حضرت حذیفہ بن یمانؓ اور حضرت ابوہریرہؓ سے نقل فرمائے ہیں، اور جنہیں خود جناب نبی اکرمؐ نے ان الفاظ اور عنوان کے ساتھ بیان فرمایا ہے کہ ’’ان باتوں میں مجھے باقی انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات پر فضیلت دی گئی ہے اور یہ مجھ سے پہلے کسی کو عطا نہیں کی گئیں۔‘‘

مسلم شریف کی ان روایات میں نو خصوصیات و امتیازات کا تذکرہ ہے اور اسی ترتیب سے ہم انہیں بیان کر رہے ہیں:

  1. جناب رسالت مآب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’پہلے حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کسی خاص علاقہ یا قوم کی طرف بھیجے جاتے تھے، مگر مجھے اللہ تعالیٰ نے پوری نسل انسانی بلکہ سب مخلوقات کے لیے نبی بنا کر مبعوث فرمایا ہے۔‘‘
    گویا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و تعلیمات کسی خاص قوم، علاقہ یا زمانہ کے لیے نہیں بلکہ انسانوں اور جنوں کے ہر طبقہ اور نسل سے تعلق رکھنے والے تمام افراد کے لیے ہے اور قیامت تک کے لیے ہے۔
  2. ’’پہلی امتوں کے لیے جہاد اور جنگ میں دشمن سے حاصل ہونے والا مالِ غنیمت حلال نہیں ہوتا تھا مگر میرے لیے اور میری امت کے لیے اللہ تعالیٰ نے غنیمت کا مال حلال کر دیا ہے۔‘‘
  3. ’’پہلی امتوں میں عبادت گاہ کے علاوہ اور کسی جگہ عبادت کرنے کی سہولت نہیں تھی اور طہارت کے لیے پانی کا استعمال ضروری تھا جس کا کوئی متبادل نہیں ہوتا تھا، مگر میری امت کے لیے زمین کو سجدہ گاہ اور طہارت کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔‘‘
    یعنی اگر کسی وجہ سے نماز کے لیے مسجد میں نہیں پہنچ سکے تو جہاں نماز کا وقت ہو جائے وہیں نماز ادا کر لیں۔ اور اگر طہارت کے لیے پانی نہ ملے یا کسی عذر کی وجہ سے پانی استعمال نہ کیا جا سکتا ہو تو پاک مٹی پر تیمم کر کے طہارت حاصل کی جا سکتی ہے۔
  4. ’’ایک ماہ کی مسافت سے دشمن پر رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے۔‘‘
    یہ غزوہ تبوک کی طرف اشارہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا کہ قیصر روم بڑے لشکر کے ساتھ مدینہ منورہ پر حملہ کی تیاری کر رہا ہے تو آپ نے اس کا انتظار کرنے کی بجائے تنگی و عسرت اور شدید گرمی کے باوجود صحابہ کرامؓ کا ایک بڑا لشکر تیار کیا، اور ایک ماہ کی مسافت طے کر کے شام کی سرحد پر جو اس وقت روم کا صوبہ تھا تبوک کے مقام تک جا پہنچے، اور ایک ماہ وہاں قیصر روم کی فوج کا انتظار کیا۔ مگر قیصر روم کو جب خود نبی اکرمؐ کی اس پیش قدمی کا علم ہوا تو وہ مرعوب ہو گیا اور اسے لشکر کشی کی ہمت نہ ہوئی۔
  5. ’’مجھے شفاعت عطا کی گئی ہے۔‘‘
    یعنی قیامت کے روز جب اللہ تعالیٰ کی عدالت قائم ہوگی اور قہر و جلال کا منظر ہو گا تو میدان حشر میں سب لوگ حساب کتاب کے جلد آغاز کے لیے حضرات انبیاء کرامؑ سے بارگاہ ایزدی میں سفارش و شفاعت کرنے کی درخواست کریں گے، مگر بڑے بڑے بزرگ انبیاء کرام علیہم السلام اس کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ اس روز صرف جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذاتِ گرامی ہو گی جو بنی نوع انسان کا سہارا بنے گی، اور حضورؐ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب لوگوں کی بالعموم اور اپنی امت کی بالخصوص شفاعت کریں گے جو قبول کی جائے گی۔
  6. ’’ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں کی طرح کر دی گئی ہیں۔’’
    یعنی پہلی امتوں میں عبادت و نماز کے وقت صف بندی ضروری نہیں تھی مگر ہمارے لیے ضروری کردی گئی ہے، جو دراصل اللہ تعالیٰ کے معصوم فرشتوں کا طریقہ ہے۔
  7. ’’مجھے جامع کلمات عطا کیے گئے ہیں۔‘‘
    یعنی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے فصاحت و بلاغت کے ایسے مقام سے نوازا تھا کہ مختصر سے جملے میں مکمل بات بیان فرما دیا کرتے تھے جس پر سینکڑوں بلکہ ہزاروں ارشادات نبویؐ گواہ ہیں۔
  8. ’’مجھ پر نبیوں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے۔‘‘
    یعنی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر ہیں جن کے بعد نبوت کا دروازہ قیامت تک بند کر دیا گیا ہے، کسی اور شخصیت کو اب نبوت ملے گی اور نہ ہی کوئی نئی وحی کسی پر نازل ہوگی۔
  9. ’’ایک روز میں سویا ہوا تھا کہ خواب میں میرے ہاتھوں پر زمین کے خزانوں کی چابیاں رکھ دی گئیں۔‘‘
    یعنی اللہ تعالیٰ نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرمایا کہ آپ کی امت دولت و وسائل سے مالامال ہو گی۔ چنانچہ اس حدیث کے راوی حضرت ابوہریرہؓ جناب نبی اکرمؐ کا یہ ارشاد نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے ہیں اور تم ان خزانوں کو کرید رہے ہو۔‘‘

۔ ۔ ۔

   
2016ء سے
Flag Counter