’’شریعت بل‘‘ میں مسلم لیگی ارکان کی پیش کردہ ترامیم

   
۱۷ اپریل ۱۹۸۷ء

سینٹ آف پاکستان میں مولانا سمیع الحق اور مولانا قاضی عبد اللطیف کے پیش کردہ ’’شریعت بل‘‘ کی پہلی خواندگی مکمل ہو چکی ہے اور سینٹ کے آئندہ اجلاس کے موقع پر پرائیویٹ دن کی کارروائی میں اس کی دوسری خواندگی کا آغاز ہونے والا ہے۔ اس مرحلہ پر شریعت بل میں ترامیم کے دو نوٹس سینٹ کے سیکرٹریٹ کو دیے گئے ہیں۔ ایک نوٹس سینیٹر قاضی حسین احمد، سینیٹر پروفیسر خورشید احمد اور سینیٹر عبد الرحیم میردادخیل کی طرف سے جن کا تعلق متحدہ شریعت محاذ سے ہے اور انہوں نے متحدہ شریعت محاذ پاکستان کے جامعہ نعیمیہ گڑھی شاہو لاہور میں منعقد ہونے والے قومی کنونشن کے فیصلہ کے مطابق ترامیم پیش کی ہیں۔ دوسرا نوٹس سینٹ کے مسلم لیگی ارکان لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ سعید قادر اور نوابزادہ جہانگیر شاہ جوگیزئی کی طرف سے ہے اور اس نوٹس کے ذریعے پیش کردہ ترامیم میں مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی کے اس موقف کو سمویا گیا ہے جو شریعت بل کے بارے میں حکومت کی طرف سے وقتاً فوقتاً سامنے آتا رہا ہے اور اب اسے ترامیم کے باضابطہ نوٹس کے ذریعے حتمی شکل دے دی گئی۔

متحدہ شریعت محاذ پاکستان کے ارکان سینٹ کی طرف سے پیش کی گئی ترامیم کی بنیاد دو باتوں پر ہے۔ ایک اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات ہیں جو کونسل نے حکومت کے استفسار پر مرتب کر کے بھجوائی ہیں اور ان میں شریعت بل سے اتفاق کرتے ہوئے اسے زیادہ مؤثر اور قابلِ عمل بنانے کے لیے ترامیم و تجاویز کا اضافہ کیا گیا ہے ۔اور دوسرے نمبر پر خود متحدہ شریعت محاذ نے مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام اور قانون دانوں کی ایک کمیٹی مقرر کی جس نے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو سامنے رکھتے ہوئے شریعت بل کے متن پر نظرثانی کی۔ اور اس میں ترامیم اور اضافے تجویز کے لیے اس کمیٹی میں مولانا محمد اجمل خان (دیوبندی مکتب فکر)، مولانا مفتی عبد القیوم ہزاروی (بریلوی مکتب فکر)، مولانا حافظ عبد الرحمان مدنی (اہل حدیث مکتب فکر)، جناب محمد اسلم سلیمی ایڈووکیٹ (جماعت اسلامی) اور میاں شیر عالم ایڈووکیٹ شامل تھے۔ اس کمیٹی نے نظرثانی کے بعد شریعت بل کا جو مسودہ مرتب کیا ہے اسے جامعہ نعیمیہ لاہور میں منعقد ہونے والے قومی شریعت کنونشن میں منظور کر لیا گیا اور اب انہی ترامیم کو دوسری خواندگی کے آغاز سے قبل سینٹ کے سیکرٹری کو بھجوا کر باضابطہ حیثیت دے دی گئی ہے۔

گویا اب شریعت بل کی دوسری خواندگی میں جو کہ شق وار ہوگی، حکمران پارٹی اور متحدہ شریعت محاذ کے موقف پر بحث ہوگی۔ ایک طرف شریعت بل کا اصل متن اور شریعت محاذ کی پیش کردہ ترامیم ہوں گی اور دوسری طرف حکومتی پارٹی کے ارکان کی طرف سے پیش کی گئی ترامیم زیرِ بحث آئیں گی۔ اس بحث و تمحیص کے نتیجہ میں سینٹ کے ارکان شریعت بل کی منظوری دیں گے۔ اس لیے یہ مناسب بلکہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ شریعت بل کا شق وار جائزہ لے کر متحدہ شریعت محاذ اور حکومتی پارٹی کے موقف میں فرق پر ایک نظر ڈالی جائے تاکہ دونوں موقفوں کے درمیان اس فاصلے کا صحیح اندازہ کیا جا سکے جس فاصلے کو سمیٹنے کے لیے حکومتی پارٹی سینٹ میں اپنی اکثریت پر مطمئن دکھائی دے رہی ہے اور متحدہ شریعت محاذ دینی حلقوں اور رائے عامہ کے دباؤ کو منظم کرنے اور عوامی تحریک کی فضا قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

ابتدائیہ

شریعت محاذ کی طرف سے شریعت بل کا ابتدائیہ یہ تجویز کیا گیا ہے:

’’ہرگاہ کہ قراردادِ مقاصد، جو پاکستان میں شریعت کو بالادستی عطا کرتی ہے، کو دستورِ اسلامی جمہوریہ پاکستان ۱۹۷۳ء کا مستقل بالذات حصہ بنا دیا گیا ہے اور ہرگاہ کہ مذکورہ قرارداد کے اغراض کو بروئے کار لانے کے لیے ضروری ہے کہ شریعت کے فی الفور نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔ لہٰذا حسبِ ذیل قانون بنایا جاتا ہے۔‘‘

جبکہ سینیٹر جناب سعید قادر اور سینیٹر جہانگیر شاہ جوگیزئی نے اسے ان الفاظ میں پیش کیا ہے:

’’جبکہ قراردادِ مقاصد کے اعلان کے مطابق پوری کائنات پر حاکمیت تنہا اللہ تعالیٰ کی ہے اور جبکہ پاکستان اس لیے قائم کیا گیا تھا کہ مسلمان اپنی زندگیان قرآن اور سنت میں مذکورہ اسلامی تعلیمات اور ضروریات کے مطابق منظم کریں گے۔‘‘

دونوں عبارتوں میں ایک فرق نمایاں ہے کہ اول الذکر عبارت میں قراردادِ مقاصد کے حوالے سے پاکستان میں شریعت کی بالادستی اور شریعت کے فوری نفاذ کو یقینی بنانے کے متعین مفہوم کی بات کی گئی ہے مگر دوسری عبارت میں پوری کائنات پر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور مسلمانوں کے قرآن و سنت کے مطابق زندگی منظم کرنے کے عمومی اور غیر متعین مفہوم کا سہارا لیا گیا ہے۔

دفعہ نمبر ۱

متحدہ شریعت محاذ کی طرف سے بل کی دفعہ نمبر ۱ مندرجہ ذیل تجویز کی گئی ہے:

(الف) اس ایکٹ کو ’’نفاذ شریعت ایکٹ ۱۹۸۶ء‘‘ کہا جائے گا۔

(ب) یہ ایکٹ تمام پاکستان پر وسعت پذیر ہوگا۔

(ج) اس ایکٹ میں شامل کسی امر کا اطلاق غیر مسلموں کے شخصی قوانین پر نہ ہوگا۔

(د) یہ ایکٹ فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔

مسلم لیگی ارکان کی طرف سے اس میں صرف ۸۶ء کو ۸۷ء سے بدلا گیا ہے۔

دفعہ نمبر ۲ : تعریفات

متحدہ شریعت محاذ کی تجویز کردہ دفعہ ۲ یہ ہے:

’’اس ایکٹ میں تا وقتیکہ متن سے کوئی مختلف مفہوم مطلوب ہو، مندرجہ ذیل اصطلاحات سے وہ مفہوم مراد ہے جو ذیل میں انہیں دیا گیا ہے یعنی:

(الف) ’’قراردادِ مقاصد‘‘ سے مراد وہ مفہوم ہے جو آرٹیکل ۲ الف دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان ۱۹۷۳ء میں اسے دیا گیا ہے۔

(ب) مقررہ سے مراد اس ایکٹ کے تحت مقررہ قواعد ہیں۔

(ج) شریعت سے مراد قرآن و سنت ہیں۔

توضیح: قرآن و سنت کے احکام کی تعبیر کرتے ہوئے درجِ ذیل مآخذ سے راہنمائی حاصل کی جائے گی: (۱) سنت خلفائے راشدینؓ۔ (۲) تعاملِ اہلِ بیت عظامؓ و صحابہ کرامؓ۔ (۳) اجماعِ امت (۴) مسلمہ فقہائے اسلام کی تشریحات و آراء۔‘‘

سرکاری ارکان کی طرف سے اس دفعہ کی شق ج اور تشریح درجِ ذیل تجویز کی گئی ہے:

’’شریعت کا معنٰی اسلامی احکام ہے جیسا کہ قرآن پاک اور سنت میں دیا گیا ہے۔

تشریح: مسلمانوں کے کسی فرقہ پر اس شق کا اطلاق کرتے وقت قرآن و سنت کی اصطلاح سے قرآن و سنت کی وہ تعبیر مراد ہوگی جو مذکورہ فرقہ کی طرف سے کی جاتی ہے۔‘‘

اس دفعہ میں متحدہ شریعت محاذ نے نفاذِ اسلام کے حوالے سے قیامِ پاکستان کے بعد سے چلے آنے والے اس تسلسل کو قائم رکھا ہے کہ قرآن و سنت کی الگ الگ فرقہ وارانہ تعبیر و تشریح کی الجھن میں پڑنے کی بجائے تعبیر و تشریح کے ایسے متفقہ اصول طے کیے جائیں جو تمام متعلقہ فرقوں کے لیے قابل قبول ہوں۔ چنانچہ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح کی جو بنیاد متحدہ شریعت محاذ نے طے کی ہے اس سے اہل سنت کے تینوں مکاتبِ فکر دیوبندی، بریلوی اور اہلِ حدیث کے ساتھ اہلِ تشیع کے علمی حلقے بھی متفق ہیں۔ لیکن حکومتی حلقوں نے قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح کو تمام معاملات و مسائل میں الگ الگ فرقوں کے حوالے کر دیا ہے جس سے نہ صرف یہ کہ فرقہ وارانہ اختلافات کو قانونی حیثیت حاصل ہو جائے گی بلکہ عملی طور پر پاکستان میں تین قسم کے پبلک لاء بیک وقت نافذ ہوں گے۔ ایک حنفی لاء دوسرا جعفری لاء اور تیسرا اہلِ حدیث لاء۔ اور پھر اس تہرے پبلک لاء کے بیک وقت نفاذ سے ملک کے قانونی نظام میں جو دھماچوکڑی مچے گی سرکاری حلقوں نے اس کا کوئی حل تجویز نہیں کیا۔ دوسرے لفظوں میں متحدہ شریعت محاذ، جسے فرقہ واریت کا مسلسل الزام دیا جا رہا ہے، قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح کو ایک متفقہ نکتہ پر لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ جبکہ حکومتی حلقے جو فرقہ واریت کے الزام کی اوٹ میں شریعت بل کی مخالفت میں مصروف ہیں خود فرقہ واریت کو قانونی حیثیت دینے کا فیصلہ کیے بیٹھے ہیں۔

دفعہ نمبر ۳: شریعت کی بالادستی

متحدہ شریعت محاذ کی دفعہ ۳ کا متن یہ طے کیا گیا ہے:

’’کسی دیگر قانون، رواج، تعامل یا بعض فریقوں کے مابین معاملہ یا لین دین میں شامل کسی بھی امر کے اس سے مختلف ہونے کے باوجود شریعت پاکستان میں بالاتر قانون کی حیثیت سے مؤثر ہوگی۔‘‘

جبکہ جناب سعید قادر اور جناب جوگیزئی نے ’’شریعت کی بالادستی‘‘ کے عنوان سے جو دفعہ مرتب کی ہے اس کا متن یہ ہے:

’’شریعت بالاتر قانون ہوگا اور موجودہ قوانین میں سے کوئی قانون، جو شریعت کے خلاف ہو، نافذ نہیں رہے گا۔ اور اسی طرح شریعت کے خلاف کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا۔

تشریح: اس دفعہ کے احکام اس طریقہ سے نافذ کیے جائیں گے جیسا کہ دستور کے حصہ ۷ کے باب ۳ الف اور اس ایکٹ کی دفعہ ۴ میں درج ہے۔‘‘

اس ایکٹ کی دفعہ ۴ کے حوالے سے بات تو آگے آرہی ہے لیکن شریعت کی بالادستی کے خوبصورت عنوان کے تحت دوٹوک جملے تحریر کرنے کے بعد انہیں جس چابکدستی کے ساتھ دستور کی مذکورہ دفعات کی دلدل میں پھنسا دیا گیا ہے اس پر فی الواقع یہ ترمیم تجویز کرنے والوں کی مہارت کو داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ دستور کی دفعات میں قوانین کو شریعت کے مطابق ڈھالنے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل بلاشبہ ایک مفید ادارہ ہے اور اس نے اپنی تشکیل کے بعد سے اب تک ملک کے قانونی ڈھانچے اور قوانین کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے قابلِ قدر کام کیا ہے، لیکن اس کی حیثیت ایک سفارشی ادارے کی ہے اور اس کے مرتب کردہ مسودہ ہائے قانون کو کوئی دستوری یا قانونی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کونسل نے اب تک جتنے قانونی مسودات مرتب و مدون کیے ہیں وہ سرد خانے میں پڑے ہیں انہیں نافذ کرنے کے لیے کوئی قانون سازی نہیں ہوئی اور نہ ہی حکومت اس کے لیے آمادہ نظر آتی ہے۔ گزشتہ دنوں قومی اسمبلی اور سینٹ کے علاوہ پنجاب اسمبلی میں بھی اسلامی نظریاتی کونسل کے مرتب کردہ مسوداتِ قانون کو پیش کرنے کے لیے آواز اٹھائی گئی لیکن حکومت نے اس سمت کسی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اب شریعت بل میں شریعت کی بالادستی کی مذکورہ دفعہ کو بھی حتمی اور یقینی حیثیت دینے کی بجائے اس ترمیم کے ذریعے نمائشی اور سفارشی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب شریعت کی بالادستی کے تقاضوں کو بھی ایک سفارشی ادارے کے حوالے سے حکومتی پالیسیوں کے رحم و کرم پر ہی چھوڑنا ہے تو پھر اس قدر خوبصورت عنوان اختیار کر کے لوگوں کو دھوکہ دینے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ سفارشی اور نمائشی کام تو پہلے بھی دستور کی مذکورہ دفعات کے حوالے سے ہو رہا ہے۔

دفعہ نمبر ۴: عدالتیں شریعت کے مطابق فیصلے کریں گی

یہ دفعہ جو دراصل سارے ’’شریعت بل‘‘ کی روح اور بنیاد ہے متحدہ شریعت محاذ کی عبارت میں یوں ہے:

’’ملک کی تمام عدالتیں بشمول ٹربیونل تمام امور و مقدمات میں شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کی پابند ہوں گی۔‘‘

مگر ترامیم کے سرکاری مسودہ میں اس کے عنوان کو یوں بدل دیا گیا ہے’’وفاقی شرعی عدالت یا عدالت عظمیٰ کے شریعت اپیل بنچ سے استفسار‘‘ اور اس عنوان کے تحت مندرجہ ذیل متن ہے:

’’کسی عدالت کے سامنے ہونے والی قانونی کارروائی کا کوئی فریق یہ سوال اٹھا سکتا ہے کہ کوئی قانون یا کوئی قانونی حکم، جو اس کارروائی سے متعلق ہو، شریعت کے خلاف ہے۔

(۲) اگر کوئی ایسا سوال اٹھایا جائے اور عدالت قلمبند کردہ وجوہات کے باعث مطمئن ہو کہ سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے تو عدالتِ عظمیٰ یا عدالتِ عالیہ ہو تو عدالتِ عظمیٰ کے شریعت اپیل بینچ سے استفسار کرے گی، اور وفاقی شرعی عدالت یا شریعت اپیل بینچ اس معاملہ میں دستور کے آرٹیکل ۲۰۳ (د) کی رو سے وفاقی شرعی عدالت کو مفوضہ اختیارِ سماعت کو استعمال کرے گی۔ مگر شرط یہ ہے کہ کسی ایسے قانون یا قانونی حکم کے بارے میں استفسار نہیں کیا جائے گا جس پر دستور کے حصہ ۷ کے باب ۳ (الف) کی رو سے غور ہو چکا ہو اور جس کے بارے میں کوئی فیصلہ دیا جا چکا ہو۔

(۳) کسی عدالت میں زیرِ التواء کارروائی، جس کی بابت وفاقی شرعی عدالت یا شرعی اپیل بینچ عظمیٰ کو ریفرنس پیش کیا گیا، کو ملتوی یا روکا نہیں جائے گا اور اس میں پیش نکتے کے مسئلے کا حل وقتی طور پر نافذ قانون کے مطابق کیا جائے گا۔‘‘

ازراہِ کرم دونوں دفعات کا ازسرِنو تقابلی مطالعہ کیجئے اور غور فرمائیے کہ کس طرح ایک سیدھے سادے معاملہ کو دستوری گورکھ دھندوں میں الجھا دیا گیا ہے۔ متحدہ شریعت محاذ کی دفعہ ۴ کا مقصد عدالتوں میں مروجہ قوانین کی جگہ شرعی قوانین کا اجراء اور ہر سطح کی عدالتوں کو لوگوں کے مقدمات کے فیصلے شریعت کے مطابق کرنے کا پابند بنانا ہے۔ جبکہ ترامیم کے سرکاری مسودہ کی دفعہ ۴ میں سرے سے اس مقصد کو ہی ختم کر کے صرف وفاقی شرعی عدالت یا سپریم کورٹ کے شریعت اپلیٹ بینچ سے استفسار کے طریق کار اور حدود کی وضاحت کر دی گئی ہے جو پہلے سے دستور میں موجود ہے۔ اور اس طرح عدالتوں میں اس وقت مروجہ انگریزی قوانین کو بہرحال باقی رکھنے اور شرعی قوانین کے عملدرآمد کو روکنے کی راہ اختیار کی گئی ہے۔

دفعہ نمبر ۵: وفاقی شرعی عدالت کا دائرۂ اختیار

متحدہ شریعت محاذ کے مسودہ میں اس عنوان کے تحت دفعہ ۵ یوں مذکور ہے:

’’وفاقی شرعی عدالت کا دائرۂ اختیارِ سماعت و فیصلہ بلا استثنیٰ تمام امور و مقدمات پر حاوی ہوگا۔‘‘

جبکہ جناب سعید قادر اور جہانگیر شاہ جوگیزئی نے اسے یوں بدل دیا ہے:

’’دستور کے تابع وفاقی شرعی عدالت اس سوال پر غور کرنے یا فیصلہ دینے کی مختار ہوگی کہ آیا کوئی قانون یا قانونی حکم شریعت کے خلاف ہے یا نہیں۔‘‘

دونوں میں فرق یہ ہے کہ اول الذکر عبارت کا مقصد وفاقی شرعی عدالت کے اختیارات میں ان استثناؤں کو ختم کرنا ہے جن کے ذریعے عائلی قوانین، مالی قوانین، عدالتی طریقِ کار اور دستوری معاملات کو اس کے دائرۂ اختیار سے باہر رکھ کر اس کے اختیارات کو محدود کر دیا گیا ہے۔ جبکہ ثانی الذکر عبارت کے ذریعے یہ تمام استثنائیں بدستور باقی رہتی ہیں اور وفاقی شرعی عدالت کے پہلے سے حاصل اختیارات میں کسی قسم کا اضافہ نہیں ہوتا۔ گویا یہ دفعہ ملک میں کوئی نئی قانونی تبدیلی لانے کی بجائے پہلے سے موجود صورتِحال کی مکرر وضاحت کی حیثیت رکھتی ہے جو بالکل بے مقصد ہے۔

دفعہ نمبر ۶: شریعت کے خلاف احکامات دینے پر پابندی

متحدہ شریعت محاذ کے مسودہ میں اس دفعہ کو یوں بیان کیا گیا ہے:

’’انتظامیہ کا کوئی بھی فرد بشمول صدرِ مملکت اور وزیرِ اعظم شریعت کے خلاف کوئی حکم نہیں دے سکے گا، اور اگر کوئی ایسا حکم دیا گیا تو اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوگی اور اسے وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا جا سکے گا، بشرطیکہ شکایت کنندہ کے لیے کوئی اور قانونی مداوا موجود نہ ہو۔‘‘

اس دفعہ کو ترامیم کے سرکاری مسودہ میں اس طرح تبدیل کر دیا گیا ہے:

’’پالیسی بنانے کی راہنمائی شریعت کرے گی: حکومت کی جانب سے پالیسی بنانے کی کارروائی کے لیے شریعت سب سے بڑا ذریعہ ہوگی۔‘‘

دونوں میں واضح فرق ہے کہ اول الذکر عبارت کا مقصد کسی بھی سطح پر غیر شرعی حکم کی دوٹوک ممانعت کے ساتھ عوام کو اس سلسلہ میں عدالتی چارہ جوئی کا حق دینا ہے۔ جبکہ ثانی الذکر دفعہ کے ذریعہ اس بات کو سرے سے گول کر کے عمومی پالیسی سازی کے حوالہ سے شریعت کو سب سے بڑے ذریعہ کی حیثیت سے ذکر کر دیا گیا ہے جس کی کوئی عملی صورت ممکن نہیں ہے۔ پھر یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پالیسی سازی میں شریعت کو ’’واحد ذریعہ‘‘ قرار دینے کی بجائے ’’سب سے بڑا ذریعہ‘‘ قرار دے کر اور ذرائع کے لیے بھی گنجائش پیدا کر لی گئی ہے۔

دفعہ نمبر ۷: عدالتی عمل اور احتساب

متحدہ شریعت محاذ نے اپنے مسودہ میں اس عنوان کے تحت لکھا ہے:

’’حکومت کے تمام عمال بشمول صدرِ مملکت اسلامی قانونِ عدل کے مطابق احتساب سے بالاتر نہیں ہوں گے۔‘‘

مگر حکومتی ارکان کی پیش کردہ ترامیم میں اسے یوں بدل دیا گیا ہے:

’’اسلامی انصاف و احتساب: دستور کے ماتحت حکومت کے تمام عمال اسلامی انصاف و احتساب بہم پہنچانے کے تابع ہوں گے۔‘‘

دونوں میں فرق یہ ہے کہ شریعت محاذ کی دفعہ کا مقصد موجودہ قانونی نظام کے اس حصہ کو تبدیل کرنا ہے جس میں صدرِ مملکت اور دیگر اہم شخصیات کو عدالتی احتساب سے بالاتر قرار دیا گیا ہے، کیونکہ اسلامی عدل کا تقاضا ہے کہ سربراہِ مملکت سمیت تمام افراد عدالت کے سامنے یکساں جواب دہ ہوں گے۔ مگر سرکاری ترامیم کے ذریعے موجودہ صورتحال ہی کو دہرا دیا گیا ہے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی پیدا کرنے کی بجائے اسے باقی رکھنے کی صورت اختیار کی گئی ہے۔

دفعہ نمبر ۸: مسلمہ اسلامی فرقوں کے شخصی معاملات

شریعت محاذ کے مسودہ میں اس عنوان کے تحت درج ہے کہ:

’’مسلمہ اسلامی فرقوں کے شخصی معاملات ان کے اپنے اپنے فقہی مسلک کے مطابق طے کیے جائیں گے۔‘‘

شریعت بل کی یہ واحد دفعہ ہے جس سے سرکاری ترامیم کے مسودہ میں کوئی تعرض نہیں کیا گیا اور اسے جوں کا توں رہنے دیا گیا ہے جو بظاہر ایک حد تک خوش آئند بات ہے کہ چلو حکمرانوں نے شریعت بل کی ایک دفعہ سے تو اتفاق کیا ہے۔ لیکن یہاں بھی بات نہیں بنی اور سرکاری ترامیم کا مسودہ مرتب کرنے والے حضرات اس دفعہ سے تعرض نہ کر کے خود تضاد کا شکار ہو گئے ہیں۔ کیونکہ دفعہ ۲ کی شق ج میں شریعت کی تعریف کے ضمن میں حکومتی موقف اس طرح سامنے آچکا ہے کہ شریعت سے مراد قرآن و سنت ہے اور اس کی تعبیر ہر فرقہ کی اپنی فقہ کے مطابق ہوگی۔ اس موقع پر شخصی قوانین اور پبلک لاء میں کوئی فرق نہیں کیا گیا جس کا مطلب یہ ہے کہ پبلک لاء اور پرسنل لاء دونوں میں ہر فرقہ کو اپنی فقہ کے مطابق قرآن و سنت کی تعبیر کا حق حاصل ہوگا۔ اسی بنیاد پر ہم نے یہ اعتراض کیا ہے کہ حکومت اس طرح ملک میں تین قسم کے پبلک لاء بیک وقت نافذ کرنا چاہتی ہے۔ لیکن دفعہ ۸ میں حکومتی پارٹی نے اسلامی فرقوں کے صرف شخصی معاملات کو ان کی فقہ کے مطابق طے کرنے کی تجویز کو قبول کر لیا ہے جو دفعہ ۲ کی شق ۲ کے عموم کے منافی اور متضاد ہے۔

دفعہ نمبر ۹: غیر مسلموں کو تبلیغ کی آزادی

اس دفعہ میں غیر مسلموں کے حقوق کا ذکر کیا گیا ہے مگر چونکہ دفعہ ۱ کی شق ج میں غیر مسلموں کے شخصی قوانین کو شریعت بل کے اطلاق سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے اس لیے اس دفعہ کو غیر ضروری سمجھ کر متحدہ شریعت محاذ کے مسودہ میں حذف کر دیا گیا ہے اور سرکاری ترامیم کا مسودہ بھی اس کے بارے میں خاموش ہے۔

دفعہ نمبر ۱۰: علماء کو جج مقرر کیا جائے گا

متحدہ شریعت محاذ کے مسودہ میں یہ دفعہ یوں مرتب کی گئی ہے:

’’تمام عدالتوں میں حسبِ ضرورت تجربہ کار اور جید علماء دین کا بحیثیت جج اور معاونینِ عدالت تقرر کیا جائے گا۔‘‘

مگر سرکاری ترامیم میں اسے یوں بدل دیا گیا ہے:

’’تمام عدالتوں میں حسبِ ضرورت تجربہ کار اور جید علماء دین کا بحیثیت جج اور معاونینِ عدالت کا تقرر، جو دستور یا کسی اور قانون میں مخصوص تعلیمی استعداد کا حامل ہو، وہ اس کا اہل ہوگا۔‘‘

دونوں میں فرق یہ ہے کہ اول الذکر عبارت میں تجربہ کار اور جید علماء کو حسبِ ضرورت عدالتوں میں جج اور معاون کے طور پر مقرر کرنے کی بات حتمی طور پر طے کی گئی ہے۔ جبکہ ثانی الذکر مسودہ میں علماء کے لیے تجربہ کار اور جید ہونے کو کافی نہیں سمجھا گیا بلکہ دستور اور قانون میں مخصوص تعلیمی استعداد کے حامل علماء کو بھی بطور جج یا معاون مقرر کرنے کی حتمی بات طے کرنے کی بجائے انہیں صرف اس کا اہل قرار دے کر حکومتی پالیسیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ اگر حکومت کی مرضی ہو تو ان کا تقرر کر دے ورنہ وہ اہلیت کی سند پر ہی اکتفا کریں۔

دفعہ نمبر ۱۱: ججوں کی تربیت کے انتظامات

متحدہ شریعت محاذ کے مسودہ میں یہ دفعہ اس طرح پیش کی گئی ہے:

’’علومِ شرعیہ اور اسلامی قانون کی تعلیم اور ججوں کی تربیت کا ایسا انتظام کیا جائے گا کہ مستقبل میں علومِ شرعیہ اور خصوصاً اسلامی قانون کے ماہر جج تیار ہو سکیں۔‘‘

مگر جناب سعید قادر اور جناب جوگیزئی نے اس میں یہ ترمیم پیش کی ہے کہ عنوان میں ’’ججوں کی تربیت‘‘ کے الفاظ کو ’’تعلیماتِ شرعیہ‘‘ سے بدل دیا جائے، اور متن میں بھی ’’ججوں‘‘ کا لفظ حذف کر دیا جائے۔

اول الذکر عبارت کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ کے لیے اسلامی قانون کے ماہر جج تیار کرنے کے لیے علومِ شرعیہ اور اسلامی قانون کی تعلیم کا انتظام کرنے کے ساتھ ساتھ موجودہ جج صاحبان کی تربیت کا بھی اہتمام کیا جائے تاکہ ان کی تعلیم و تربیت میں دینی علوم سے ناواقفیت کا جو خلا ہے وہ کسی حد تک پر ہو سکے اور شرعی قوانین کے نفاذ سے ملک کے قانونی نظام میں کوئی بڑا خلا واقع نہ ہو۔

جبکہ سرکاری ترمیم میں موجودہ ججوں کو تربیت کی ضرورت سے بے نیاز کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ وفاقی وزیرِ قانون سمیت ذمہ دار حکومتی حضرات شریعت بل کی دفعہ ۴ کے مکمل نفاذ اور موجودہ قوانین کی شرعی قوانین میں مکمل تبدیلی کی مخالفت میں سب سے بڑی دلیل یہی دے رہے ہیں کہ موجودہ جج صاحبان شرعی قوانین کے تحت فیصلے کرنے کی استعداد سے بہرہ ور نہیں ہیں۔ ایک طرف موجودہ جج صاحبان میں شرعی قوانین کے تحت فیصلے کرنے کی استعداد نہ ہونے کا اعتراف اور دوسری طرف اسلامی قانون کے مطابق ان کی تربیت کے انتظامات سے گریز ایک ایسا کھلا تضاد ہے جس کی وضاحت جناب سعید قادر اور جناب جوگیزئی یا انہیں یہ ترامیم پیش کرنے پر آمادہ کرنے والی مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی کے ذمہ دار حضرات ہی کر سکتے ہیں۔

دفعہ نمبر ۱۲: قرآن و سنت کی تعبیر کا طریقِ کار

متحدہ شریعت محاذ کے مسودہ میں دفعہ ۱۲ کا متن یہ ہے:

’’قرآن و سنت کی تعبیر کا طریقِ کار وہی معتبر ہے جو مسلمہ مجتہدین کے علمِ اصولِ تفسیر اور علمِ اصولِ حدیث و فقہ کے مسلمہ قواعد اور ضوابط کے مطابق ہو۔‘‘

مگر سرکاری ترامیم میں اسے یوں شکل دی گئی ہے:

’’شریعت کی تشریح: دفعہ ۴ کے مقاصد کے لیے قانونی پریکٹیشنرز یا فقیہ، جو کسی عدالت میں ایک فریق کی نمائندگی کرتا ہے، فریق کے لیے وکالت نہیں کرے گا۔ بلکہ کارروائی سے متعلق شریعت کے اصولوں کی تفسیر و تشریح بیان کرے گا اور ایسے اصولوں کے بارے میں اپنی تشریح کے بارے میں تحریری بیان عدالت میں پیش کرے گا‘‘۔

دونوں میں فرق یہ ہے کہ اول الذکر میں قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح کو امتِ مسلمہ کے مسلمہ اصولوں کا پابند بنایا گیا ہے تاکہ ہر کس و ناکس جو قرآن و سنت میں من مانی تعبیر و تشریح کر کے نت نئے فتنوں کا باعث بنتا ہے اس کا سدباب ہو سکے اور اس سلسلہ میں مفسرین و محدثین کے مسلمہ قواعد و ضوابط کو قانونی حیثیت حاصل ہو جائے۔ مگر ترمیمی دفعہ میں اس مقصد کو بالکل ختم کر کے صرف کسی مقدمہ میں پیش وکیل یا عالمِ دین کے بحث کے طریقِ کار تک اسے محدود کر دیا گیا ہے۔ اور اسے بھی کسی قاعدہ اور اصول کا پابند بنانے کی بجائے قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح کو محض اس کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

دفعہ نمبر ۱۳: عمالِ حکومت کے لیے شریعت کی پابندی

متحدہ شریعت محاذ کے مسودہ میں اس دفعہ کے تحت مذکور ہے کہ:

’’انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ کے ہر فرد کے لیے فرائضِ شریعت کی پابندی اور محرمات سے اجتناب لازم ہوگا۔ جو شخص اس کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا وہ مستوجبِ سزا ہوگا۔ بشرطیکہ کسی دیگر قانون کے تحت یہ جرم مستوجبِ سزا نہ ہو۔‘‘

مگر اس کے مقابلہ میں سرکاری ترمیمی مسودہ کی دفعہ ۱۳ ملاحظہ فرمائیے:

’’شریعت کے متعلق فیصلہ جات کا لازمی ہونا: وفاقی شرعی عدالت کا کوئی فیصلہ یا ایسے مقدمے کے بارے میں جس میں شرعی اپیل کی مجاز عدالت عظمٰی کے بینچ کو اپیل کرنے کو ترجییح دی گئی ہو تو اس بینچ کا جو دستور میں اس کے دائرۂ اختیار میں کیا گیا ہوگا فیصلہ عدالتِ عالیہ اور عدالتِ عالیہ کے ماتحت تمام عدالتوں کے لیے لازمی ہوگا۔‘‘

اسے کہتے ہیں ’’ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ‘‘ یعنی متحدہ شریعت محاذ کے مسودہ میں عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کے ارکان کو شرعی احکام کا پابند بنانے کے لیے خصوصی دفعہ لا کر قانونی گرفت اور شریعت کی پابندی سے سرکاری افسران کے بالاتر ہونے کے تاثر اور عمومی رجحان ختم کرنے کی بات کی گئی ہے، مگر سرکاری ترمیم اسے گھسیٹ کر عدالتی طریقِ کار اور عدالتوں کے باہمی تعلقات اور ذمہ داریوں کے دائرہ میں لے جا رہی ہے۔ اور اس میں بھی کوئی بات نئی نہیں کی گئی بلکہ اس صورتِحال کو دہرایا دیا گیا ہے جو اس وقت موجود ہے اور اس طرح نہایت خوبصورتی کے ساتھ حکمرانوں اور سرکاری افسران کے لیے شرعی امور میں ترجیحی رجحان اور طرزِ عمل کے تسلسل کو باقی رکھا گیا ہے۔

دفعہ نمبر ۱۴: ذرائع ابلاغ کی تطہیر

متحدہ شریعت محاذ کے مسودہ میں اس عنوان کے تحت درج ہے کہ:

’’تمام ذرائع ابلاغ سے خلافِ شریعت پروگراموں، فواحش اور منکرات کی اشاعت ممنوع ہوگی۔ جو شخص اس کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا مستوجبِ سزا ہوگا جو کم از کم ۲ سال قید بامشقت یا زیادہ سے زیادہ ۵ سال قید بامشقت ہوگی، بشرطیکہ کسی دوسرے قانون کے تحت یہ جرم مستوجبِ سزا نہ ہو۔‘‘

مگر سرکاری ترامیم کے مسودہ میں اسے اس صورت میں پیش کیا گیا ہے:

’’ذرائع ابلاغ اسلامی اقدار کو اجاگر کرے گی اور اس کی نشرواشاعت کرے گی۔ اسلامی اقدار کو اجاگر کرنے اور اس کی نشرواشاعت کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔‘‘

دونوں میں فرق واضح ہے کہ اول الذکر میں خلاف شریعت پروگراموں، فواحش اور منکرات کی اشاعت کو ممنوع قرار دے کر اسے قابلِ سزا جرائم کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ جبکہ سرکاری ترمیم میں سرے سے اس کے جرم ہونے کو بھی تسلیم نہیں کیا گیا اور اسلامی اقدار کی اشاعت کے مبہم وعدے پر اکتفا کیا گیا ہے۔

دفعہ نمبر ۱۵: حرام کی کمائی پر پابندی

متحدہ شریعت محاذ کے مسودہ میں یہ دفعہ اس طرح مذکور ہے:

’’خلافِ شریعت کاروبار کرنا اور حرام طریقوں سے دولت کمانا ممنوع ہوگا۔ جو شخص اس کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا مستوجبِ سزا ہوگا بشرطیکہ کسی دوسرے قانون کے تحت یہ جرم مستوجبِ سزا نہ ہو۔‘‘

مگر جناب سعید قادر اور جناب جوگیزئی نے اسے ان الفاظ میں بدل دیا ہے کہ:

’’شریعت کی رو سے حرام کی کمائی پر پابندی: چوری، ڈاکہ، حرابہ، استحصال بالجبر، خوردبرد، فریب دہی، فراڈ، رشوت یا بدعنوانی، یا ایسے دیگر قانون کی رو سے ممنوع ذرائع سے حاصل کی گئی کمائی غیر قانونی ہوگی۔‘‘

دونوں میں فرق یہ ہے کہ شریعت محاذ کے مسودہ میں شرعی طور پر حرام قرار دیے گئے ہر قسم کے کاروبار کی ممانعت کر کے اسے قابلِ سزا جرم قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ سرکاری ترمیمی مسودہ میں قانون میں ممنوع کا حوالہ دے کر صرف ان غیرقانونی کاروباروں کا دوبارہ ذکر کر دیا گیا ہے جو موجودہ قوانین میں بھی ممنوع ہیں۔ اور انہیں بھی قابلِ سزا جرم کی حیثیت نہیں دی گئی۔ دوسرے لفظوں میں سود سمیت ان تمام غیر شرعی ذرائع آمدنی کو بدستور تحفظ دیا گیا ہے جن کی موجودہ قانون میں گنجائش موجود ہے۔

دفعہ نمبر ۱۶: بنیادی حقوق کا تحفظ

متحدہ شریعت محاذ کے مسودہ میں اس عنوان کو مندرجہ ذیل دفعہ کی شکل دی گئی ہے:

’’شریعت نے جو بنیادی حقوق باشندگانِ ملک کو دیے ہیں ان کے خلاف کوئی حکم نہیں دیا جائے گا۔‘‘

مگر مسلم لیگی ارکانِ سینٹ کے پیش کردہ ترمیمی مسودہ میں اس عنوان کے تحت یوں درج ہے کہ:

’’شریعت کی رو سے دیے گئے بنیادی حقوق سے متضاد کسی قانون یا قانونی حکم کا تعین کرنا وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ اختیار میں ہوگا۔‘‘

دونوں میں فرق یہ ہے کہ اول الذکر عبارت کا مقصد حکومت اور انتظامیہ کو پابند کرنا ہے کہ وہ شریعت کی طرف سے دیے گئے بنیادی حقوق کے منافی کوئی حکم نہ جاری کریں۔ مگر ثانی الذکر میں اس پابندی کو گول کر کے وفاقی شرعی عدالت کے حوالے سے معاملہ کو اسی گورکھ دھندے میں ڈال دیا گیا ہے کہ کوئی شہری حکومت کے کسی حکم کو بنیادی حقوق کے منافی سمجھ کر اسے شرعی عدالت میں چیلنج کرے، پھر اگر وہ معاملہ شرعی عدالت کے دائرۂ اختیار میں ہو تو وہ اس کی سماعت کرے، اور پھر اس کے فیصلہ کے بعد قانون سازی کے تمام مراحل سے گزرتے ہوئے اس شہری کی شکایت کا ازالہ اس طرح ہو کہ

تا تریاق از عراق آوردہ شود
مار گزیدہ مردہ شود

دفعہ نمبر ۱۷: قواعد سازی کے اختیارات

اس عنوان کے تحت متحدہ شریعت محاذ کے مسودہ میں تجویز کیا گیا ہے کہ:

’’اس ایکٹ کے مقاصد کے حصول اور شریعت کے عملی نفاذ اور اس قانون پر عملدرآمد کرانے کے لیے مرکزی حکومت کو اختیار ہوگا کہ ضروری قواعد وضع کرے۔ ان قواعد کا نفاذ اس دن سے ہوگا جس دن مرکزی حکومت انہیں گزٹ میں شائع کرے گی۔‘‘

مگر سرکاری ترمیمی مسودہ میں اس کی بجائے یہ دفعہ تجویز کی گئی ہے کہ:

’’شریعت سے متصادم ہونے یا نہ ہونے والے قوانین کی فہرست کی اشاعت کرنا: وفاقی حکومت وقتاً فوقتاً ایسے قوانین یا قانونی احکامات کی فہرست سرکاری گزٹ میں شائع کرے گی جن کو وفاقی شرعی عدالت یا سپریم کورٹ کی ایپلٹ بینچ نے شریعت سے متصادم ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں اعلان کیا ہو۔‘‘

سابقہ دفعات کی طرح اس دفعہ میں بھی شریعت محاذ کی تجویز کردہ عبارت اور سرکاری ترمیم میں فرق یہ ہے کہ اول الذکر میں حکومت کو ’’شریعت بل‘‘ کی دفعات پر عملدرآمد کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اسے اس سلسلہ میں قواعد و وضوابط مرتب کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ جبکہ سرکاری ترامیم میں حکومت کو عملدرآمد کا ذمہ دار قرار دینے کی بجائے صرف اتنی زحمت دی گئی ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً ان قوانین کی فہرست کو جاری کر دیا کرے جنہیں شرعی عدالت نے شرعی یا غیر شرعی قرار دیا ہو۔ اور پھر لطف کی بات یہ ہے کہ جن قوانین کو وفاقی شرعی عدالت یا سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بینچ نے غیر شرعی قرار دیا ہو ان کے بارے میں زیر بحث دفعہ کی رو سے حکومت کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ اسے اشاعت کے لیے جاری کر دے تاکہ لوگوں کو اس کے بارے میں علم ہو جائے، باقی اللہ اللہ خیر صلّا۔

الغرض ’’شریعت بل‘‘ کی دوسری خواندگی کے آغاز سے پہلے مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی کے دو اہم ارکان جناب سینیٹر سعید قادر اور جناب سینیٹر جہانگیر شاہ جوگیزئی نے جن ترامیم کا سینٹ کے سیکرٹریٹ کو نوٹس دیا ہے ان کا بنیادی مقصد ہر اس تبدیلی کو روکنا ہے جو شریعت بل کی منظوری کی صورت میں ملک کے قانونی نظام میں رونما ہو سکتی ہے۔ دونوں مسودات کا تقابلی مطالعہ کرنے سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ متحدہ شریعت محاذ کے مسودہ کی ہر دفعہ ملک کے قانونی نظام میں کسی نہ کسی تبدیلی اور شریعت کے نفاذ کی طرف پیش رفت کی متقاضی ہے، جبکہ سرکاری مسودہ کی ہر دفعہ ان تبدیلیوں کو روکنے اور موجودہ صورتِ حال کو جوں کا توں بحال رکھنے کی حکمتِ عملی پر مبنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متحدہ شریعت محاذ کے راہنماؤں نے ان ترامیم کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے اور یہ اعلان کیا ہے کہ اگر حکومت نے شریعت بل کو ۲۷ رمضان تک منظور نہ کیا یا من مانی ترامیم کے ذریعے اسے غیر مؤثر بنانے کی کوشش کی تو سرکاری پالیسی کی مزاحمت کی جائے گی اور عوامی تحریک منظم کر کے اسے نفاذِ اسلام کے بارے میں منافقانہ طرزِ عمل ترک کرنے یا پھر اقتدار سے الگ ہونے پر مجبور کر دیا جائے گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter