تاریخ اور سماجیات کے ایک طالب علم کے طور پر جب قیام پاکستان کے پس منظر کا جائزہ لیتا ہوں تو مجھے اس کے سوا اس کی کوئی اور تعبیر نہیں سوجھتی کہ یہ اسلام کی حقانیت اور اعجاز کا اظہار تھا جو اس دور میں رونما ہوا کہ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے صرف دو عشرے بعد اسلام کے نام پر ایک نئی ریاست پاکستان وجود میں آگئی جبکہ خلافت عثمانیہ کم و بیش پانچ صدیاں اسلام کے عنوان سے شرعی قوانین کے نفاذ کے ساتھ گزار کر دنیا کے نقشے سے غائب ہوگئی تھی۔ جدید سیکولر ترکیہ کے بانی مصطفٰی کمال اتاترک اور اسلامی پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح دونوں باہم معاصر تھے، جدید تعلیم یافتہ تھے، کلین شیو تھے اور سوٹڈ بوٹڈ تھے۔ ان میں سے ایک نے ۱۹۲۴ء میں اسلام کے نام پر صدیوں سے قائم خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا اور ترکی میں نافذ اسلامی قوانین کو منسوخ کر دیا جبکہ دوسرے نے اس سے تئیس برس بعد ۱۹۴۷ء میں اسلام کے نام پر اور اسلامی نظام و قوانین کے نفاذ کے اعلان کے ساتھ پاکستان کے عنوان سے دنیا کو ایک نئی اسلامی ریاست سے روشناس کرایا جس کا تہذیبی تشخص مسلسل سات عشروں سے سیکولر دنیا کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے اور اسے ختم کرنے کی کوئی کوشش بحمد اللہ تعالیٰ کامیاب نہیں ہو رہی۔ اسے اسلام کے ’’اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے‘‘ کے مزاج کے علاوہ اور کوئی عنوان دینے میں ابھی تک مجھے کامیابی نہیں ہو رہی اور اب تو میں نے اس حوالہ سے کسی اور رخ پر سوچنا ہی چھوڑ دیا ہے۔
پاکستان اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے جس کی ہم قدر نہیں کر سکے جبکہ ہماری تمام تر ناقدری اور ناشکری کے باوجود یہ ملک جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی مضبوط پناہ گاہ اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی امیدوں کا مرکز ہے اور اس کی یہ حیثیت بحمد اللہ تعالیٰ آج بھی قائم ہے۔ تحریک پاکستان میں قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کے رفقاء میں لیاقت علی خان، مولوی فضل الحق، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا عبد الحامد بد ایونی، مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی، مولوی تمیز الدین خان، حسین شہید سہروردی، پیر صاحب آف مانکی شریف، چودھری خلیق الزمان، سردار عبد الرب نشتر، چودھری رحمت علی اور مولانا ظفر علی خان رحمہم اللہ تعالیٰ جیسے زعمائے ملت شامل تھے جبکہ علامہ محمد اقبالؒ کی فکر و دانش اور تحریک آزادی کے ہزاروں شہداء کی قربانیاں ان کی پشت پر تھیں۔ ان زعماء نے قوم کو یہ خواب دکھایا کہ پاکستان کے نام سے الگ خودمختار ریاست قائم ہوگی تو ہندوؤں کی عددی بالادستی کے باعث نظر آنے والے مستقبل کے خطرات سے مسلمان نجات حاصل کر لیں گے، معاشی خودمختاری اور استحکام حاصل کریں گے، اپنی تہذیب و تمدن کے مطابق آزادی کے ساتھ زندگی گزاریں گے، اسلامی احکامات و قوانین کو آزادانہ طور پر نافذ کریں گے اور دنیا کے سامنے اسلامی نظام کی حقانیت اور قابل عمل ہونے کا ایک نیا تجربہ پیش کریں گے۔ مگر قیام پاکستان کے بعد ان زعماء کے یکے بعد دیگرے جلد دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد یہ خواب ابھی تک تشنۂ تعبیر ہے اور پوری قوم کسی ایسی قیادت کی منتظر ہے جو نہ صرف برطانوی استعمار کے چھوڑے ہوئے نوآبادیاتی نظام سے چھٹکارا دلائے بلکہ عالمی استعمار کی مسلسل دخل اندازی کا مقابلہ کرتے ہوئے اس خواب کو تعبیر کا جامہ پہنا سکے۔
اس خواب کو قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم کے ارشادات کی روشنی میں دیکھیں تو ہمیں جو خانے اپنے خلا کی طرف متوجہ کر رہے ہیں ان کا نقشہ کچھ یوں ہے:
- قائد اعظمؒ نے کہا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے جبکہ پاکستان کے نام میں ’’کاف‘‘ کشمیر ہی کی نمائندگی کرتا ہے مگر آزادیٔ کشمیر کی منزل ابھی تک حاصل نہیں کی جا سکی۔
- قائد اعظمؒ نے کہا تھا کہ ہمارا دستور قرآن کریم ہے اور ہم اس کی راہنمائی میں حکومت و مملکت کا نظام ترتیب دیں گے۔ ان کی اس بات کو دستور میں تو شامل کر لیا گیا ہے مگر اس پر عملدرآمد کی طرف کوئی سنجیدہ پیشرفت دکھائی نہیں دیتی۔
- قائد اعظمؒ نے کہا تھا کہ وہ پاکستان کو ایک جمہوری، اسلامی اور رفاہی ریاست دیکھنا چاہتے ہیں۔ مگر اسلام اور جمہوریت کو دستور کی اساس قرار دیے جانے کے باوجود ان دونوں کے ساتھ سات عشروں سے جو آنکھ مچولی کھیلی جا رہی ہے وہ مستقل المیہ کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔
- قائد اعظمؒ نے کہا تھا کہ وہ پاکستان کے معاشی نظام کو مغربی اصولوں پر نہیں بلکہ اسلامی اصولوں پر استوار دیکھنا چاہتے ہیں۔
- رفاہی ریاست اور ویلفیئر اسٹیٹ کے تصور کا حال یہ ہے کہ اس کا نام سنتے ہی نو آبادیاتی نظام کے محافظ طبقات کو جھرجھری آجاتی ہے اور اسے ناممکن قرار دے کر جھٹک دیا جاتا ہے، جبکہ عملی طور پر پاکستان کو ایک رفاہی ریاست بننے سے روکنے کے لیے گزشتہ نصف صدی میں اسے بین الاقوامی قرضوں کے جس جال میں جکڑا گیا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ اور اس سلسلہ میں ہماری دستوری تاریخ کا وہ مرحلہ بھی کتنا عجیب ہے کہ جس دستور ساز اسمبلی نے ۱۹۷۳ء کا دستور بنایا اس کا الیکشن اسمبلی کی اکثریتی پارٹی نے ’’روٹی کپڑا مکان‘‘ کے نعرے پر جیتا تھا، مگر اسی اسمبلی کے ایک اپوزیشن لیڈر مولانا مفتی محمودؒ نے جب دستور کے حوالہ سے مذاکرات کے دوران قائدِ ایوان ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو ان کے اس انتخابی نعرے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ وہ عام شہری کی بنیادی ضروریات تک رسائی کو اس کا قانونی حق تسلیم کرتے ہوئے دستور میں اسے عدالتی چارہ جوئی کا حق دینے کی شق شامل کریں، تو جواب میں کہا گیا کہ یہ بات سردست قابل عمل نہیں ہے۔ جس پر مفتی صاحبؒ نے کہا کہ پانچ یا دس سال کی استثنا تیاری کے لیے رکھی جائے اور اس کے بعد شہریوں کو عدالتی چارہ جوئی کا حق دینے کی بات دستور میں شامل کر لی جائے تو اس سے بھی صاف طور پر معذرت کر لی گئی۔
- قیام پاکستان کا بنیادی مقصد اسلامی تہذیب و ثقافت کا تحفظ تھا مگر یہ مملکتِ خداداد اپنے قیام کے بعد سے مسلسل مغربی اور ہندووانہ تہذیبوں کی یلغار کی زد میں ہے۔ جبکہ انٹرنیٹ کے ماحول میں قائم ہونے والے آج کے اس گلوبل ویلج میں متنوع قسم کے نظریات و عقائد جس تیزی کے ساتھ سرایت کر رہے ہیں اس نے ہماری نئی نسل کے اسلامی نظریات و عقائد اور تہذیبی تشخص کے حوالہ سے کئی سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔
چنانچہ پاکستان کے حوالے سے قوم نے جو خواب دیکھے تھے وہ اعلیٰ قیادت کے دنیا سے رخصت ہوتے ہی ’’سیاسی وعدوں‘‘ کے زمرے میں شامل ہوگئے اور قوم ابھی تک اسلامی، جمہوری، فلاحی اور رفاہی ریاست کا منظر دیکھنے کو ترس رہی ہے۔ ۱۴ اگست ہمارا ’’یوم آزادی‘‘ ہے جو اس لحاظ سے یقیناً قومی خوشی کا دن ہے کہ اس دن ہم برطانوی استعمار سے آزادی حاصل کر کے ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے شہری بن گئے تھے، اس پر جس قدر خوشی کا اظہار کیا جائے کم ہے۔ مگر آزادیٔ کشمیر، نفاذ اسلام، تہذیب و ثقافت کے تحفظ، رفاہی ریاست اور اسلامی معیشت کی جو باتیں قائد اعظم اور ان کے رفقاء نے تحریک پاکستان سے پہلے بلکہ قیام پاکستان کے بعد بھی کی تھیں، ان کی طرف پیشرفت ابھی باقی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم ۱۴ اگست کو آزادی کی نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے تحریک آزادی اور تحریک پاکستان کے قائدین، کارکنوں اور شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ قیام پاکستان کے مقاصد کی تکمیل کے لیے اپنے طرز عمل پر نظر ثانی اور احتساب کے ساتھ جدوجہد کا ازسرنو عہد کریں۔ اور عزم نو کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے بارگاہِ ایزدی میں دست بدعا رہیں کہ مولائے کریم! ہمیں تحریک پاکستان کے قائدین کے حسین خوابوں کی تعبیر کو عملی شکل دینے کی توفیق عطا فرما، آمین یا رب العالمین۔