جہادِ کشمیر اور شہدائے بالاکوٹ

   
۲۳ جون ۲۰۰۱ء

جہادِ کشمیر کے بارے میں گزارشات پر محترم سید بشیر حسین جعفری صاحب نے قلم اٹھایا اور دو باتوں کو محلِ نظر ٹھہرایا ہے۔ ایک یہ کہ ۱۹۴۷ء کے جہادِ کشمیر میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یوسف خان کا کوئی سرگرم کردار رہا ہے۔ اور دوسری یہ کہ ۱۸۳۱ء میں مجاہدینِ بالاکوٹ اور راولاکوٹ کشمیر کے مجاہدین کی جدوجہد کا دور ایک ہونے کے باوجود ان کے درمیان کوئی رابطہ تھا یا نہیں؟ یہ بات جعفری صاحب کے نزدیک ابھی تحقیق طلب ہے۔

جعفری صاحب نے اصولی طور پر میرے اس موقف سے اتفاق کیا ہے کہ آزادئ کشمیر کے لیے کشمیری عوام کی مسلح جدوجہد شرعی جہاد ہے، جس کے لیے علماء کرام نے باقاعدہ فتویٰ دیا تھا اور اس فتویٰ کی بنیاد پر علماء اور عوام نے مسلح جنگ کے ذریعے کشمیر کے اس خطہ کو آزاد کرایا تھا جہاں آج آزاد ریاست جموں و کشمیر کی حکومت قائم ہے، اور آج آزادئ کشمیر کی جو مسلح جدوجہد انڈین آرمی کے خلاف جاری ہے وہ اس جہادِ آزادی کا تسلسل ہے۔ مگر جعفری صاحب محترم کا ارشاد ہے کہ

’’اس کا آغاز نیلا بٹ سے ہوا تھا جہاں ان کے برادر بزرگ حضرت مولانا سید مظفر حسین ندوی کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں علماء کرام نے جہاد کا فتویٰ صادر کیا تھا اور سردار محمد عبد القیوم خان نے وہیں جہاد کی بیعت کر کے جہاد کا آغاز کیا تھا جس کی وجہ سے وہ مجاہدِ اول کہلائے۔‘‘

مجھے اس واقعہ سے کوئی انکار نہیں ہے مگر اس کی تفصیلات میرے علم میں نہیں تھیں اور اگر محترم سید بشیر حسین جعفری صاحب کو یاد ہو تو گزشتہ سال راولپنڈی میں ان کے دولت خانہ پر حاضری کے موقع پر میں نے ان سے استدعا کی تھی کہ وہ اس سلسلہ میں مجھے تفصیلات فراہم کر سکیں تو ان کی نوازش ہو گی۔ انہوں نے اچھا کیا کہ اپنے مضمون میں اس واقعہ کا ذکر کر دیا اور نیلا بٹ کے اس تاریخی واقعہ کا تذکرہ ایک حد تک ہمارے قارئین کے سامنے آگیا جس میں حضرت مولانا سید مظفر حسین ندوی کی سربراہی میں تحصیل باغ کے سرکردہ علماء کرام نے آزادئ کشمیر کے لیے جہاد کا اعلان کیا تھا اور جہاں سے سردار عبد القیوم خان صاحب اور ان کے رفقاء نے اس خطہ میں ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف مسلح جنگ کا آغاز کیا تھا۔

البتہ واقعات کی ترتیب کا قارئین کے سامنے صحیح طور پر لانا ضروری ہے، اس لیے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ نیلا بٹ کا یہ واقعہ اگست ۱۹۴۷ء کا ہے جبکہ اس سے قبل بائیس جولائی ۱۹۴۷ء کو جسہ پیر منگ کے مقام پر راولاکوٹ اور پلندری کے علماء کرام کا اجتماع ہو چکا تھا جس کے داعی حضرت مولانا محمد یوسف خان اور حضرت مولانا عبد العزیز تھوراڑوی تھے۔ اور ان دونوں بزرگوں کی کوشش سے سرکردہ علماء کرام کے ایک نمائندہ اور بھرپور اجتماع میں ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف جہاد کا فیصلہ کرتے ہوئے علماء کرام اور عوام سے قرآن پاک پر جہاد کا حلف لیا گیا تھا جس کی بنیاد پر اس خطہ کے علماء اور عوام نے جنگ میں شرکت کی تھی۔

تعجب کی بات ہے کہ جعفری صاحب محترم جنگِ آزادی میں مولانا عبد العزیز تھوراڑوی کی خدمات کا احترام کرتے ہیں، مگر مولانا محمد یوسف خان کے سرگرم کردار میں انہیں تردد ہے۔ حالانکہ مولانا یوسف خان اور مولانا عبد العزیز تھوراڑوی دارالعلوم دیوبند میں دورہ حدیث کی رفاقت سے لے کر جنگِ آزادی اور آزادکشمیر میں اسلامی قوانین کے نفاذ کی جدوجہد تک کے سارے معاملات میں اکٹھے اور ہر تحریک میں ساتھ رہے ہیں۔ حتیٰ کہ ان مقاصد کے لیے ان حضرات نے علماء کرام کی جو جماعت تشکیل دی اس میں مولانا محمد یوسف خان کی حیثیت سربراہ کی اور مولانا عبد العزیز تھوراڑوی کی حیثیت ان کے نائب اور معاون کی تھی۔ پھر جعفری صاحب محترم کو شاید یہ بات بھی معلوم ہوگی کہ مسلح جنگ کا فیصلہ تو ۱۹۴۷ء میں ہوا، مگر مولانا محمد یوسف خان اس سے چار سال قبل ۱۹۴۳ء میں عیدگاہ منگ میں ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف باغیانہ تقریر کے الزام میں گرفتار ہوئے تھے، ان کے خلاف بغاوت کے الزام میں مقدمہ چلا تھا۔ اس لیے یہ کہنا کہ ۱۹۴۷ء کے جہادِ کشمیر میں مولانا محمد یوسف خان کا کوئی سرگرم کردار نہیں تھا سراسر زیادتی اور ناانصافی کی بات ہے۔

باقی رہی بات ۱۸۳۱ء میں مجاہدینِ بالاکوٹ اور کشمیری مجاہدین کے باہمی رابطے کی تو اس سلسلہ میں دو تاریخی حوالے جعفری صاحب کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا۔

❶ پنجاب یونیورسٹی کے شائع کردہ انسائیکلو پیڈیا آف اسلام (دائرہ معارف اسلامیہ) میں مجاہدینِ بالاکوٹ کے امیر حضرت سید احمد شہیدؒ کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ

’’انہوں نے جب ۱۸۳۰ء میں پشاور میں حکومت قائم کر کے اسے برصغیر کی جنگِ آزادی کے لیے بیس کیمپ بنانے کا ارادہ کیا تو اردگرد کے سرداروں اور خوانین کے مخالفانہ طرز عمل کی وجہ سے انہیں یہ بات مشکل دکھائی دی۔ چنانچہ انہوں نے اس مقصد کے لیے کشمیر کا رخ کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ اس ریاست کو آزاد کرا کے وہاں اسلامی حکومت قائم کی جائے اور اسے جنگِ آزادی کا بیس کیمپ بنایا جائے۔‘‘

چنانچہ مقالہ نگار کا کہنا ہے کہ

’’سید صاحب نے سرداروں اور خوانین کے پیہم نقض عہد اور خلل اندازی سے متاثر ہو کر اپنا چار سالہ مرکز چھوڑ دینا مناسب سمجھا اور کشمیر کا قصد کر لیا، جہاں کے مسلمانوں کی طرف سے بارہا دعوت آ چکی تھی۔ ہزارہ، مظفر آباد وغیرہ کے خوانین جن کے علاقے کشمیر کے راستے پر واقع تھے، ساتھ دینے کے لیے ہمہ تن تیار تھے۔ چنانچہ آپ دشوار گزار پہاڑی راستوں سے گزرتے ہوئے دریائے اباسین کو عبور کر کے راج دواروں (بالائی ہزارہ) میں وارد ہوئے اور غاری، بھوکڑ منگ، کونش اور بالاکوٹ میں مراکز قائم کرتے ہوئے مظفر آباد پہنچ گئے۔ معاون خوانین کو سکھوں کی دست برد سے بچانے کے لیے ایک فیصلہ کن جنگ ضروری سمجھی گئی، اس غرض سے کچھ عرصہ کے لیے بالاکوٹ میں مقیم ہو گئے۔‘‘

❷ اور اس کے ساتھ ہی اگر جعفری صاحب محترم مہاراجہ گلاب سنگھ کی تحریر کردہ ’’گلاب نامہ‘‘ کے اس حصہ پر بھی نظر ڈال لیں تو نوازش ہو گی جس میں اس نے ۱۸۳۲ء میں پونچھ کے مسلمانوں کے خلاف اپنی انتقامی کارروائیوں کی تفصیل بیان کی ہے اور بتایا ہے کہ اس نے ’’ہزارہ کی شورش اور فساد‘‘ میں حصہ لینے پر پونچھ کے غیور مسلمانوں کو عبرتناک سزائیں دیں۔ تاریخی روایات کے مطابق اس موقع پر سینکڑوں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا، بیسیوں کے سرکاٹ کر عبرت کے لیے آبادیوں میں گھمائے گئے، ہزاروں مسلمانوں کو جرمانہ کی سزا دی گئی اور سینکڑوں کی جائیدادیں ضبط کر لی گئیں۔ حتیٰ کہ منگ کے دو مجاہدوں کے سردار سبز علی شہید اور سردار قلی خان شہید کو گلاب سنگھ نے اپنے سامنے درخت سے الٹا لٹکوا کر زندہ حالت میں ان کی کھالیں اتروا دیں۔

اس کے باوجود اگر جعفری صاحب محترم مجاہدینِ بالاکوٹ کے جہاد اور کشمیری مجاہدین کی جدوجہد کو ایک دور میں ہوتے ہوئے بھی الگ الگ قرار دیتے ہیں اور انہیں ابھی ان کے درمیان رابطوں کی تلاش ہے تو ان کے لیے ’’دعائے صحت‘‘ کے سوا اور کیا کیا جا سکتا ہے؟

   
2016ء سے
Flag Counter