اوصاف میں شجاعت علی کی داستان آپ نے بھی پڑھی ہو گی کہ کس طرح انہوں نے شیر کا پندرہ دن کا بچہ حاصل کیا اور اس کی گھر میں پرورش کی، اس کا نام عنزہ رکھا اور اسے اس طرح پالا کہ وہ ان کے خاندان کا فرد بن گیا۔ وہ ان کے ساتھ کھیلتا تھا، ان کے ساتھ سوتا تھا اور ان کے ساتھ گاڑی میں سیر سپاٹے کے لیے جاتا تھا، لیکن بالآخر اس کی اصل فطرت اور جبلت کا اظہار شروع ہوا تو شجاعت علی کے لیے اسے ساتھ رکھنا مشکل ہو گیا، اور تمام تر محبت و شفقت اور انس کے باوجود انہیں اپنا یہ پیارا اور محبوب شیر چڑیا گھر کے حوالے کرنا پڑا، جہاں وہ اسے دیکھنے اور ملنے کے لیے بھی کبھار جاتے تو ہیں لیکن اب وہ اسے جنگلے سے باہر نکالنے اور اپنے ساتھ کھلی گاڑی میں لیے پھرنے کا رسک لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
فطرت اور جبلت ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اظہار بہرصورت ہو کر رہتا ہے اور مصنوعی اور وقتی لیپاپوتی سے اسے زیادہ دیر تک چھپائے اور دبائے رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس سلسلہ میں عربی ادب کی دو کہانیاں یاد آ گئی ہیں۔ ان کا تذکرہ کر کے پھر اس بات کے ایک خاص پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا۔
ایک کہاوت تو یہ ہے کہ ایک خاتون کو کہیں سے بھیڑیے کا بچہ مل گیا جو اس نے اٹھا لیا اور اپنے گھر میں بکریوں کے بچوں کے ساتھ اس کی پرورش شروع کر دی۔ وہ بکری کا دودھ پی کر اس کے بچوں کے ساتھ پلا اور جوان ہو گیا۔ انہی کے ساتھ کھیلتا کودتا، کھاتا پیتا اور شب و روز گزارتا تھا۔ ایک دن اچانک اس کی جبلت جاگی اور اس نے اپنے ساتھ کھانے پینے اور کھیلنے والے بکری کے بچے کو دبوچ لیا۔ اس پر خاتون اشعار میں افسوس اور غم کا اظہار کرتی ہے، اور اس بھیڑے کو اپنی پرورش اور بکری کی شفقت یاد دلاتے ہوئے پوچھتی ہے کہ تجھے یہ کس نے بتایا ہے کہ تیرا باپ بھیڑیا تھا؟
دوسری کہاوت یوں ہے کہ ایک بادشاہ اپنے وزیر کے ساتھ اس بات پر بحث کر رہا تھا کہ تربیت کے ساتھ ۔۔۔۔ ہو سکتی ہے، جبکہ وزیر کا کہنا تھا کہ جبلت بہرحال جبلت ہوتی ہے جسے تربیت کے ذریعہ وقتی طور پر چھپایا تو جا سکتا ہے مگر اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا، اور جبلت و فطرت کو جب بھی اظہار کا موقع میسر آتا ہے وہ بے نقاب ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔ بادشاہ سلامت اپنی بادشاہت کے زور پر بات منوانے کے موڈ میں تھے، مگر وزیر نے دانش مندی سے کام لیا اور اپنی بات سمجھانے کے لیے کچھ مہلت مانگ لی۔ وزیر نے بلی کے کچھ بچے حاصل کیے، ان کی خاص انداز میں تربیت کی اور دربار میں انہیں اس انداز میں لایا کہ ان بلیوں کے ہاتھوں میں شمعیں تھیں اور وہ پچھلی ٹانگوں پر ایک ترتیب کے ساتھ چلتی ہوئی بادشاہ سلامت کے اردگرد بڑے ادب و احترام کے ساتھ کھڑی ہو گئیں۔ وزیر نے دو چار بار اس کا مظاہرہ دربار میں کیا تو بادشاہ بہت خوش ہوا اور کہا کہ دیکھو! میں نہیں کہتا تھا کہ تربیت، جبلت پر غالب ہو جاتی ہے۔ وزیر نے اگلے موقع پر یہ کیا کہ چند چوہے ایک تھیلی میں چھپا کر دربار میں لے آیا۔ اور جب بلیاں پورے ادب و احترام کے ساتھ ہاتھوں میں شمعیں اٹھائے پچھلی ٹانگوں پر بادشاہ کے اردگرد کھڑی ہوئیں تو وزیر نے چپکے سے تھیلی میں سے چوہوں کو باہر نکال دیا۔ اب بلیوں نے چوہوں کو دیکھا تو سب کچھ بھول گئیں، نہ دربار کا خیال رہا اور نہ تربیت یاد رہی۔ چوہے دیکھتے ہی ان کی جبلت جاگ گئی۔ انہوں نے شمعیں وہیں پھینکیں اور چوہوں کو پکڑنے کے لیے دوڑ لگا دی۔ بادشاہ بہت حیران ہوا اور وزیر کو بات دہرانے کا موقع مل گیا کہ جناب! ۔۔۔۔
اس مرحلہ پر گفتگو کا رخ اس طرف مڑتے ہوئے دیکھ کر قارئین کو حیرت تو ہو گی، مگر میرا ذہن اسی طرف جا رہا ہے اور مجھے ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ترجمان پندرہ روزہ ’’تعمیر حیات‘‘ میں گزشتہ ماہ شائع ہونے والا ایک فرانسیسی نومسلم خاتون لیلیٰ ریفی کا انٹرویو یاد آ گیا ہے جس کا ایک حصہ یوں ہے:
’’سوال: وہ کون سی دشواریاں ہیں جو اسلام کو سمجھنے میں آپ کو پیش آئیں؟
جواب: سب سے بڑی دشواری اسلام اور مسلمانوں کے درمیان تضاد کا ہونا ہے، اور یہی چیز اہلِ یورپ کی نظر میں اسلام کی خراب تصویر کا سبب بن رہی ہے۔ وہ اسلام اور مسلمانوں کے درمیان فرق نہیں کر پاتے ہیں۔ اس مسئلہ سے آگے بڑھنے میں جس چیز نے میری مدد کی وہ یہ تھی کہ میں نے مسلمانوں کو سمجھنے سے پہلے اسلام کو سمجھا۔ مسلمانوں کے بارے میں مغربی میڈیا جو کچھ پھیلاتا ہے وہ صحیح نہیں ہے، وہ صرف خراب پہلو کو ہی لیتا ہے۔ اور مشکل یہ ہے کہ مسلمانوں کے خراب کردار کو اسلام سے جوڑ دیتا ہے اور دونوں کے درمیان رابطہ پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی اصلاح کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت اسلام کی تعلیمات سے ناواقف بھی ہے، ان کو واقف کرانے کی ضرورت ہے۔
ثقافت اور دین کے درمیان خلیج سب سے بڑی مشکل ہے۔ یہاں پہلی سب سے بڑی مشکل ہے۔ میں نے اسلام سے واقفیت کتابوں کے ذریعہ حاصل کی، مسلمانوں کی عملی زندگی سے میں نے واقفیت حاصل نہیں کی، اور میری رائے میں مثبت پہلو بس یہی ہے۔ جس وقت میں مسجد میں گئی میرے سامنے وہ بہت سی باتیں آئیں جنہیں مسلمان دین سمجھتے ہیں حالانکہ وہ دین سے متعلق نہیں۔‘‘
نومسلم فرانسیسی دانشور محترمہ لیلیٰ ریفی کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی موجودہ زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں ہے اور یہی تضاد اسلام کو سمجھنے میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ جبکہ مغربی میڈیا مسلمانوں کی عملی خرابیوں کو اسلام کے حوالے سے پیش کر کے اسلام کی تصویر خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جسے سمجھنے اور اصلاحِ احوال کے لیے کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس معاملہ کو اگر اس پس منظر میں دیکھ لیا جائے تو ہماری گزارش کو سمجھنا مشکل نہیں ہوگا کہ اسلام مسلمانوں کی اصل فطرت و جبلت ہے، اور ان کی موجودہ عملی زندگی اسی تربیت کا نتیجہ ہے جو ان کی اسلامی فطرت و جبلت کے خلاف ان پر مسلط کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تربیت مسلمان ملکوں پر استعماری ملکوں کے قبضہ کے دوران غلامی کے دور میں اور اس کے بعد ظاہری آزادی کے لیبل کے ساتھ اسی استعماری نظام اور سسٹم کے تحت ہوئی ہے۔ کیونکہ تعلیم، میڈیا، معاشرتی ماحول اور دینی و فکری تربیت کے بیشتر بلکہ کم و بیش سبھی مراکز اسی سسٹم کی تحویل میں رہے ہیں اور اب بھی اسی کے کنٹرول میں ہیں۔ گویا استعمار اور اس کے سسٹم نے ملتِ اسلامیہ کو اس کی جبلت و فطرت کے خلاف مصنوعی تعلیم و تربیت اور معاشرتی ماحول مہیا کر کے پہلے اس کی عادتیں بگاڑیں اور خرابیاں پیدا کیں اور اب انہی بری عادتوں اور خرابیوں کو اسلام کے نام پر پیش کر کے اسلام کی تصویر خراب کی جا رہی ہے۔
لیکن میرا وجدان بلکہ مشاہدہ یہ کہتا ہے کہ شیر کی ۔۔۔۔ بیدار ہو رہی ہے اور اسے اپنا اصل گھر یاد آنے لگا ہے، اس لیے شیر کو پنجرے میں بند کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور اس کے لیے گلوبلائزیشن اور معاشی ترقی و خوشحالی کا خوبصورت سنہری پنجرہ تیار کر لیا گیا ہے، لیکن کیا یہ شیر اتنی آسانی کے ساتھ پنجرے میں بند ہو جائے گا؟