۳۱ مئی کو قرآن آڈیٹوریم گارڈن ٹاؤن لاہور میں تنظیم اسلامی کے زیر اہتمام ایک سیمینار ’’نفاذ شریعت: کیا، کیوں اور کیسے؟‘‘ کے عنوان پر محترم جناب ڈاکٹر اسرار احمد کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں تنظیم اسلامی کے امیر جناب حافظ عاکف سعید، مولانا حافظ عبد الرحمان مدنی، مولانا ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی، جناب احمد جاوید اور دیگر ارباب دانش نے خطاب کیا۔ راقم الحروف کو بھی گزارشات پیش کرنے کی دعوت دی گئی جن کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ ۔ مجھے جس موضوع پر اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی ہے اس کے تین حصے ہیں:
- ایک یہ کہ شریعت کیا ہے؟
- دوسرا یہ کہ اس کے نفاذ کی ضرورت کیوں محسوس کی جا رہی ہے؟
- اور تیسرا یہ کہ اس کے نفاذ کا طریق کار کیا ہوگا؟
جہاں تک شریعت کا تعلق ہے، یہ بات واضح ہے کہ قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام و فرامین کو شریعت کہا جاتا ہے اور قرآن و سنت سے مستنبط احکام شریعت کہلاتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی آج کے دور میں ایک سوال کیا جاتا ہے کہ شریعت کے بارے میں آپ کا وژن کیا ہے اور شریعت کے احکام کو قوانین کی صورت دینے کی آپ کے نزدیک عملی صورت کیا ہے؟ میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نفاذ شریعت کے حوالے سے ہمارا وژن یہ ہے کہ:
- دستور کی اساس قراردادِ مقاصد پر عمل کیا جائے۔
- تمام مکاتبِ فکر کے ۳۱ علماء کرام کے ۲۲ متفقہ دستوری نکات کو عملی جامہ پہنایا جائے۔
- ۱۹۷۳ء کے دستور کی اسلامی دفعات کے عملی نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔
- اور اسلامی نظریاتی کونسل نے ملک کے قوانین کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے سفارشات کا جو جامع مجموعہ حکومت کو پیش کر رکھا ہے اس کے مطابق قانون سازی کی جائے۔
پاکستان میں نفاذِ شریعت کے بارے میں اس ’’وژن‘‘ پر تمام مذہبی مکاتب فکر کا اتفاق ہے اور بعض جزوی تحفظات کے باوجود اس پر تمام دینی جماعتوں کا مجموعی طور پر اجماع ہو چکا ہے۔ اس لیے پاکستان میں نفاذ شریعت کے لیے ہمارے نزدیک یہی چار بنیادیں ہیں، ان سے ہٹ کر نفاذِ شریعت کا کوئی اور وژن قابل قبول نہیں ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ نفاذِ شریعت کیوں؟ اس کے جواب میں گزارش ہے کہ تین وجوہ کی بنا پر ہمارے ہاں نفاذ شریعت ضروری ہے:
- پہلی وجہ یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور قرآن کریم اور جناب رسول اکرمؐ کے ارشادات و تعلیمات پر ہمارا ایمان ہے۔ یہ تعلیمات ایک فرد کی زندگی، خاندانی زندگی، سوسائٹی کی اجتماعی زندگی اور قومی زندگی کے تمام شعبوں کا احاطہ کرتی ہیں اور ہم تمام دائروں میں ان تعلیمات پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ اس لیے ہمارا دینی فریضہ ہے کہ ہماری زندگی کے تمام شعبوں میں قرآن و سنت کے احکام و قوانین کا عملاً نفاذ ہو۔
- دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم جس ملک میں رہتے ہیں اس کا قیام ہی اس غرض سے ہوا تھا کہ اس میں اسلامی تعلیمات پر عملدرآمد کا اہتمام ہوگا اور قرآن و سنت کے احکام و قوانین کا نفاذ ہوگا۔ تحریکِ پاکستان کے موقع پر قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم سمیت تمام ذمہ دار قائدین نے اس کا واضح اعلان کیا تھا، اس لیے بھی ہم پابند ہیں کہ پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کیا جائے اور اسلامی احکام و قوانین کی عملداری کا اہتمام کیا جائے۔
- تیسرا یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ شرعی قوانین کا نفاذ اور شرعی عدالتوں کا نظام ہماری قومی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک میں عام آدمی کو عدالتوں سے انصاف فراہم ہونے کے حوالے سے جو صورتحال ہے اس پر عدالتِ عظمیٰ کے جج صاحبان اور ہمارے حکمرانوں سمیت سب پریشانی کا اظہار کر رہے ہیں۔ موجودہ عدالتی نظام پر بے اطمینان کا کھلے بندوں اظہار کیا جا رہا ہے اور متبادل کی تلاش جاری ہے۔ چند ماہ قبل وفاقی وزارتِ قانون نے بین الصوبائی اجلاس میں یہ تجویز پیش کی کہ عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ کم کرنے اور عوام کو جلد انصاف مہیا کرنے کے لیے شام کی عدالتیں قائم کی جائیں مگر یہ تجویز مسترد کر دی گئی، ویسے بھی یہ قابل عمل نہیں ہے۔ سوات میں نظامِ عدل کے معاہدے کی دیگر تفصیلات سے قطع نظر اس کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکمرانوں کی طرف سے بار بار کہا جاتا رہا ہے کہ یہ عوام کو سستا اور فوری انصاف مہیا کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ اس کا اس کے سوا کیا مطلب ہے کہ ہماری حکومتیں اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ عوام کو سستا اور فوری انصاف مہیا کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ شرعی عدالتیں قائم کی جائیں اور شرعی قوانین کا نفاذ عمل میں لایا جائے۔
اس پس منظر میں، میں ان حکمرانوں سے پوچھنا چاہوں گا کہ اگر سوات میں سستا اور فوری انصاف مہیا کرنے کا ذریعہ شرعی عدالتیں ہیں تو لاہور اور کراچی کے عوام کا کیا قصور ہے کہ انہیں اس سے محروم رکھا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ملک بھر میں عوام کو فوری اور سستا انصاف فراہم کرنے کے لیے اس کے سوا دوسرا کوئی آپشن موجود نہیں ہے کہ نچلی سطح پر شرعی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جائے اور شرعی قوانین کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔
آج کے موضوع کا تیسرا پہلو اور سوال یہ ہے کہ پاکستان میں نفاذِ شریعت کے لیے کیا طریق کار اختیار کیا جائے اور اس کی جدوجہد کو کن خطوط پر استوار کیا جائے؟ اس کے بارے میں میری گزارش ہے کہ قیام پاکستان کے فورًا بعد ہی تمام علماء کرام نے متفقہ طور پر طے کر لیا تھا کہ ملک میں نفاذِ اسلام کے لیے سیاسی جدوجہد کی جائے گی، دستوری راستہ اختیار کیا جائے گا اور رائے عامہ کی قوت کے ذریعے حکمرانوں کو نفاذِ اسلام کے لیے آمادہ کیا جائے گا، جبکہ اس کے لیے مسلح اور غیر قانونی جدوجہد سے گریز کیا جائےگا۔ گزشتہ چھ عشروں سے اسی دائرے میں یہ تحریک جاری ہے اور پر امن جدوجہد کے ذریعے خاصی پیش رفت بھی ہوتی رہی ہے۔ مگر اب اس میں تشدد کا عنصر شامل ہوگیا ہے اور بعض گروہوں نے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کر لیا ہے جس سے حالات بگڑتے جا رہے ہیں۔
ہم ملک میں نفاذِ شریعت کے لیے مسلح جدوجہد کو درست نہیں سمجھتے اور اس کے لیے قانون کو ہاتھ میں لینے اور ہتھیار اٹھانے کی حمایت نہیں کرتے۔ لیکن اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ مسلح جدوجہد ہمارے اسٹیبلشمنٹ کے اس ساٹھ سالہ طرز عمل کا ری ایکشن ہے جو اس نے ملک میں نفاذ شریعت کا راستہ روکنے کے لیے اختیار کر رکھا ہے۔ اس لیے اس مسلح جدوجہد کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہمارے حکمرانوں، رولنگ کلاس اور اسٹیبلشمنٹ پر عائد ہوتی ہے جو مسلسل چھ عشروں سے نفاذ اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے اور کچھ لوگ اس کے رویے سے مایوس ہو کر ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ پر اتر آئے ہیں۔ ہم ہتھیار اٹھانے، قانون کو ہاتھ میں لینے اور حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے کے طریق کار کو درست نہیں سمجھتے اور اس کی حمایت نہیں کرتے لیکن اس سب کچھ کی ذمہ دار ہمارے نزدیک ملک کی رولنگ کلاس ہے جو اگر اپنے رویے میں تبدیلی نہیں کرے گی اور جمہوری راستے سے نفاذ شریعت کو آگے بڑھنے کا راستہ نہیں دے گی تو حالات میں اصلاح کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہوگی اور صورتحال کی سنگینی میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ مجھے حالات میں بگاڑ کے دیگر اسباب سے انکا رنہیں لیکن میرے نزدیک ان میں سب سے بڑا سبب یہی ہے۔ قومی خودمختاری، ملکی استحکام اور ملی وحدت کے لیے اس پر توجہ دینا بہرحال ضروری ہے۔