آٹھویں آئینی ترمیم کے اسلامی قوانین کے خلاف مہم

   
جولائی ۱۹۹۶ء

لاہور سے شائع ہونے والے مسیحی جریدہ پندرہ روزہ ’’کیتھولک نقیب‘‘ نے یکم تا ۱۵ جون ۱۹۹۶ء کی اشاعت میں یہ رپورٹ شائع کی ہے کہ

’’جسٹس اینڈ پیس کمیشن نامی ایک تنظیم نے ۶ دسمبر ۱۹۹۵ء سے آٹھویں آئینی ترمیم کے خلاف عوامی دستخطوں کی مہم شروع کر رکھی ہے جو ۶ نومبر ۱۹۹۶ء تک جاری رہے گی، اور اس میں ایک لاکھ بیس ہزار دستخط حاصل کر کے ارکان پارلیمنٹ کو یادداشت پیش کی جائے گی جس میں آٹھویں آئینی ترمیم کے مکمل خاتمے کا مطالبہ کیا جائے گا۔‘‘

آٹھویں آئینی ترمیم ۱۹۸۵ء میں غیر جماعتی بنیادوں پر منتخب ہونے والی قومی اسمبلی نے منظور کی تھی جس کے تحت صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے ان اقدامات کو آئینی تحفظ دیا گیا ہے جو انہوں نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے کیے تھے۔ ان میں

  • صدر کے اختیارات میں اضافہ کے علاوہ
  • قراردادِ مقاصد کو دستور کا واجب العمل حصہ قرار دینے کا آئینی حکم،
  • بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے قیام کا آرڈیننس،
  • حدودِ شرعیہ کے نفاذ کا آرڈیننس،
  • امتناعِ قادیانیت آرڈیننس،
  • وفاقی شرعی عدالت کا قیام،
  • اسلامی قانونِ شہادت کا آرڈیننس،
  • اور احترامِ رمضان آرڈیننس بھی شامل ہیں۔

اور آٹھویں آئینی ترمیم کے مکمل خاتمہ کا مطلب یہ ہو گا کہ یہ تمام قوانین اس کے ساتھ ہی کالعدم ہو جائیں گے۔ اس سلسلہ میں بہانہ صدر کے اختیارات کو بنایا جا رہا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ صدر اور وزیراعظم کے اختیارات میں توازن کے لیے آٹھویں آئینی ترمیم ختم کر کے سابقہ پوزیشن بحال کرنا ضروری ہے۔ حالانکہ یہ بات غلط ہے کیونکہ سابقہ پوزیشن میں صدر بالکل بے اختیار تھا اور موجودہ پوزیشن میں اسے بہت زیادہ اختیارات حاصل ہیں۔ اس لیے سابقہ پوزیشن کی بحالی سے اختیارات میں توازن قائم نہیں ہو گا بلکہ صدر کی بجائے وزیراعظم کے حق میں الٹ جائے گا، جسے توازن بہرحال نہیں کہا جا سکتا۔

مگر اس سے قطع نظر آٹھویں ترمیم کے خاتمہ سے غیر مسلم تنظیموں اور لابیوں کا اصل مقصد ان اسلامی قوانین کا خاتمہ ہے جو عملاً نافذ اور لاگو نہ ہونے کے باوجود پاکستان کے نظریاتی اور اسلامی تشخص کی بنیاد بنے ہوئے ہیں، اور جن کی موجودگی میں پاکستان کو سیکولر ملک کے طور پر متعارف کرانا ممکن نہیں ہے۔ یہ بات ملک کی دینی جماعتوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے اور انہیں بہرحال اپنے موجودہ طرزعمل پر نظرثانی کرتے ہوئے فیصلہ کن جدوجہد کے لیے آگے بڑھنا ہو گا ورنہ وہ اپنے دینی اور قومی فرائض سے سبکدوش نہیں ہو سکیں گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter