بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ابھی تھوڑی دیر میں نے پہلے جی ٹی روڈ پر تاجر برادری کے ہڑتالی کیمپ میں حاضری دی ہے اور تاجروں کی یہ جو جدوجہد ہے یہ ٹیکسوں میں اضافے کے خلاف اور بجلی کے ناقابل برداشت بلوں کے خلاف اور ہوشربا بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف تاجر برادری نے احتجاجی مہم کا فیصلہ کیا ہے، ان کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے علماء کرام کے ساتھ میں شریک ہوا ہوں اور ان کو یقین دلایا ہے کہ ان شاء اللہ العزیز یہ شہری جدوجہد ہے، قومی جدوجہد ہے کسی طبقے کی نہیں ہے، کسی مکتبِ فکر کی نہیں ہے، بجلی کا بل سب کو آتا ہے، بازار سے چیزیں سب نے خریدنی ہیں اور ٹیکس سب کو دینے پڑتے ہیں۔ خواہ کوئی تاجر ہو، خواہ کوئی مولوی دیوبندی ہو، بریلوی ہو، اہلحدیث ہو، مسلم لیگی ہو، پی ٹی آئی کا ہو، یا پیپلز پارٹی کا ہو۔ یہ کسی پارٹی کا مسئلہ نہیں ہے، یہ قومی مسئلہ ہے، شہری مسئلہ ہے۔
اور الحمد للہ ہماری یہ روایت چلی آرہی ہے جب سے یہ جامع مسجد بنی ہے، اوپر ۱۳۰۱ ہجری کی تاریخ لکھی ہوئی ہے اور اب ۱۴۴۶ ہجری ہے، ڈیڑھ سو سال ہو گیا ہے، اس مسجد کا الحمدللہ گوجرانوالہ میں رول یہی ہے دینی تحریک ہو، قومی تحریک ہو، شہری تحریک ہو، ہمیشہ الحمد للہ ہم نے مورچے کا کردار ادا کیا ہے۔ ڈیڑھ سو سال کی تاریخ اس مسجد کی گواہ ہے۔ چنانچہ اس حوالے سے بھی ملک میں عوام کی بے چینی، اضطراب اور جو کچھ ہو رہا ہے آپ کے سامنے ہے، کسی کو بتانے کی ضرورت تو نہیں ہے الحمد للہ ہم نے گزشتہ دنوں یہاں میٹنگ کی، تاجر رہنماؤں کو گزارش کی وہ تشریف لائے، شہر کے مختلف مکاتبِ فکر کے علماء کرام کو اکٹھا کیا اور درخواست کی کہ اس ظلم کے خلاف اس لوٹ مار کے خلاف اس معاشی بدمعاشی کے خلاف تاجر برادری منظم ہو آگے آئیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ اس کے بعد تاجر برادری کی جتنی بھی تنظیمیں ہیں الحمد للہ تمام اکٹھی ہوئیں، انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم احتجاجی مہم کا آغاز کریں گے۔
چنانچہ آج انہوں نے احتجاجی مہم کا آغاز کیا ہے جس کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ جی ٹی روڈ پر ۱۱۲۲ کے دفتر کے ساتھ انہوں نے ایک ہڑتالی کیمپ لگایا ہے جو روزانہ شام چار سے ساڑھے سات بجے تک ہو گا، مختلف حضرات آئیں گے اپنے جذبات کا اظہار کریں گے۔ اور پھر ہڑتال کا فیصلہ کیا ہے ان شاء اللہ العزیز ہماری کوشش یہ ہوگی کہ یہ مہم پورے ملک میں چلے اس لیے کہ جب تک قوم منظم ہو کر سڑکوں پر نہیں آئے گی آئی ایم ایف کی غلامی سے نجات نہیں ملے گی۔ ہم نے انگریزوں کے خلاف بھی آزادی کہ جنگ لڑی تھی اور بڑی قربانیاں دی تھی۔ قربانیوں کے بغیر، جدوجہد کے بغیر اور اتحاد کے بغیر کوئی کام نہیں ہوا کرتا۔ تو بہرحال آج اس جدوجہد کا آغاز ہوا ہے، میں نے وہاں ریلی سے جو گفتگو کی ہے وہ دو تین باتیں آپ کے سامنے دہرا دیتا ہوں۔
پہلی گزارش میں نے کی ہے کہ ہم اپنے حکمرانوں سے اور اُن کے حکمرانوں سے زندہ رہنے کا حق مانگ رہے ہیں، اس ملک کے شہریوں کو زندہ رہنے کا حق ہے، بھوکا نہ مارو ہمیں۔ میری گزارش ٹھیک ہے؟ سب سے پہلے ہمارا حق کیا ہے؟ ہمیں زندہ رہنے کا حق دو۔ اللہ پاک نے یہ وسائل سب کے لیے پیدا کیے ہیں، عیاش طبقے کے لیے نہیں کہ غریب خودکشیاں کریں اور وہ لوگ غریبوں کے خون پر عیاشی کریں۔ یہ سب کا حق ہے ملک کے وسائل صرف اَپر کلاس کا حق ہے یا غریبوں کا بھی حق ہے؟ میں نے کہا کہ ہمارا پہلا تقاضا زندہ رہنے کا ہے، ہمارا گلا نہیں گھونٹو۔ اگلی بات کہ جب قوموں کو زندہ رہنے کے حق سے محروم کیا جاتا ہے تو زندگی کے حق سے محروم کرنے والے خود زندگی کے حق سے محروم ہو جایا کرتے ہیں۔ قوموں کی یہ تاریخ ہے، دیکھو کیا ہوتا آ رہا ہے دنیا میں؟ اور اب بھی یہ ہو گا۔ پہلی گزارش میں نے کی ہے کہ غریب عوام کے لیے جنہوں نے یہاں رہنا ہے ہم ان کے لیے زندگی کا حق تم سے مانگ رہے ہیں اتنا گلا دباؤ جتنا گلا دبانا کل برداشت کر سکو۔
دوسری گزارش میں نے کی ہے کہ یہ اگست کا مہینہ ہے، ہم نے سن ۱۹۴۷ء میں ۱۴ اگست کو آزادی حاصل کی تھی، اس دن ہم پورے ملک میں یوم آزادی منائیں گے ان شاء اللہ اور اپنے شہداء کو یاد کریں گے، مجاہدین کو یاد کریں گے، اپنے قائدین کو خراجِ عقیدت پیش کریں گے، پاکستان کی وحدت اور سالمیت کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ کو تازہ کریں گے۔ لیکن یہ بات کہ پاکستان ہم نے کن سے حاصل کیا تھا اور آزادی کن سے حاصل کی تھی؟ انگریزوں سے۔ اور نجات کن سے حاصل کی تھی؟ ہندو اکثریت سے۔ ہم نے انگریزوں کی غلامی سے اور ہندو اکثریت کی تسلط سے نجات حاصل کی تھی۔ کیا ہم نے انگریزوں سے، برطانیہ سے غلامی سے آزادی امریکہ کا غلام بننے کے لیے حاصل کی تھی؟ یہ بات نوٹ کریں کہ ہم نے آقا نہیں بدلے تھے کہ یہ آقا نہیں وہ آقا ہیں۔ ہم بھٹا مزدور نہیں ہیں کہ ہمیں کوئی بیچ دے ہمارے پیسے کمائے۔ کل ہم وہاں پر بھٹا مزدور تھے اور آج دوسری جگہ بھٹا مزدور ہوں گے؟ نہیں! ہم نے برطانیہ سے آزادی امریکہ کا غلام بننے کے لیے نہیں حاصل کی تھی بلکہ آزاد رہنے کے لیے حاصل کی تھی۔ ہم نے ہندوؤں کے معاشی تسلط اور جبر سے بالادستی آئی ایم ایف کا غلام بننے کے لیے نہیں حاصل کی تھی۔ آج ہم کس کے غلام ہیں؟ امریکہ کے! آئی ایم ایف کے! ہمارا وزیراعظم کہتا ہے کہ یہ بجٹ میرا نہیں آئی ایم ایف کا ہے، یہ گلا ہمارا آئی ایم ایف گھونٹ رہا ہے، جس کے پیچھے امریکہ کھڑا ہے۔
اس لیے ہمیں زندہ رہنے کا حق بھی چاہیے اور ہمارا آزادی کا حق بھی بحال ہونا چاہیے۔ ہماری آزادی گروی ہے امریکہ کے آگے، آئی ایم ایف کے آگے، ہمیں اپنی آزادی بھی بحال کروانی ہے ان شاء اللہ العزیز انگریزوں سے آزادی لینے میں وقت لگ گیا تھا، یہاں بھی وقت لگے گا لیکن ان شاء اللہ ہم نے آزادی حاصل کرنی ہے، زندہ رہنے کا حق بھی ہم نے بحال کروانا ہے اور آزادی کا تحفظ اور پاکستان کی سالمیت، وحدت اور خود مختاری کا تحفظ بھی ہم نے کرنا ہے۔
تیسری گزارش جو میں نے وہاں کی کہ منبر اور مسجد قوم کے ساتھ ہمیشہ رہا ہے۔ میں نے تاجر برادری سے گزارش کی ہے کہ منبر اور مسجد آپ کے ساتھ ہے اور آپ کے ساتھ رہے گا ان شاء اللہ العزیز۔ علماء اور تاجر اکٹھے تحریک چلائیں گے، جو مطالبات بھی ہیں بالخصوص گوجرانوالہ کی تاجر تنظیموں نے اکٹھے ہو کر جو مطالبات کی فہرست پیش کی ہے ہم مکمل طور پر حمایت کا اعلان کرتے ہیں، ساتھ دیں گے اور ہماری حکمرانوں سے گزارش ہے خدا کے لیے اپنی قوم کا ساتھ دیں، آقاؤں کے ساتھ نہ کھڑے ہوں۔
یہ گزارشات میں نے وہاں بھی کی ہیں یہاں بھی عرض کی ہیں، حکمرانوں سے بھی اور حکمرانوں کے حکمران سے بھی۔ تینوں دائروں سے درخواست ہے کہ ہمیں دیوار سے نہ لگائیں۔ جب قومیں دیوار سے لگتی ہیں تو پھر کیا ہوتا ہے؟ بتانے کی ضرورت نہیں ہے، بنگلہ دیش میں دیکھ لیا آپ نے۔ قوم کو دیوار سے نہیں لگاؤ، سانس لینے دو، زندگی کا حق دو، چلنے پھرنے کا حق دو۔
اللہ تبارک و تعالی ہمارے تاجر بھائیوں کی قیادت کو حوصلہ عطا فرمائے اور ہمیں ان کا مکمل ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائے، میری تمام طبقات سے گزارش ہے یہ نہ کسی مسلک کا مسئلہ ہے نہ کسی طبقے کا مسئلہ ہے نہ کسی پارٹی کا مسئلہ ہے، بلکہ ملک کے شہریوں کا مسئلہ ہے اور بطور شہری ہمیں اس تحریک کا حصہ بنانا چاہیے اور جو ہم سے ہو سکتا ہے کرنا چاہیے۔
آخر میں ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ والد محترم امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ اس بات پر ایک بڑی خوبصورت مثال دیا کرتے تھے کہ قوم کے دکھ درد بھی شریک ہونا چاہیے یا نہیں، قوم کا ساتھ دینا چاہیے یا نہیں؟ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا لشکر آرہا تھا، راستے میں چیونٹیوں کے آبادی تھی تو وہیں ایک چیونٹی کھڑی ہو کر کہتی ہے: "ادخلوا مساكنكم لا يحطمنم سليمان وجنوده وہم لا یشعرون" بلوں میں گھس جاؤ! سلیمان کا لشکر آرہا ہے ان کو پتہ بھی نہیں چلے گا اور کچلے جاؤ گے۔ اس طرح اپنی قوم کو کچلے جانے سے بچایا، قرآن پاک نے اس پر کس کی مثال دی ہے؟ چیونٹی کی۔ اس لیے قوم کی دکھ درد میں شریک ہونا یہ بھی فطرت ہے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے اور کامیابی کی منزل کی طرف پیشرفت نصیب فرمائے، آمین۔ و آخر دعوانا ان الحمد اللہ رب العالمین۔