امریکی ایوانِ نمائندگان کی طرف سے پاکستان میں قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دینے اور توہینِ رسالتؐ پر موت کی سزا کے قوانین کی منسوخی کے مطالبات پر ابھی دینی حلقوں کے ردعمل کا سلسلہ جاری تھا کہ اقوام متحدہ کی طرف سے ’’حدود آرڈیننس‘‘ پر نظر ثانی کا مطالبہ بھی سامنے آ گیا ہے۔
اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق محترمہ میری رابنسن گزشتہ دنوں اسلام آباد تشریف لائیں تو ان سے مختلف سیاسی حلقوں اور جماعتوں کے وفود نے ملاقاتیں کیں، جن میں پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ کے دونوں دھڑے، تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور ملت پارٹی کے علاوہ قومی کشمیر کمیٹی بھی شامل ہے۔ میری رابنسن کے دورہ کی تفصیلات ایک قومی اخبار نے جس انداز سے شائع کی ہیں، انہیں دیکھ کر ذہن ماضی کی طرف گھوم گیا اور یوں محسوس ہوا جیسے ہم پھر ایک صدی پیچھے کی طرف لوٹ گئے ہیں۔ جنوبی ایشیا پر حکمرانی کرنے والی برطانوی بادشاہت کے وزیر امور ہند اس محکوم خطہ کے دورہ پر آئے ہوئے ہیں اور مختلف محکموں، طبقات اور گروہوں کے نمائندہ وفود ان کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی کارکردگی کی رپورٹ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی اپنی توقعات پر مشتمل درخواستیں بھی ان کے حضور گزار رہے ہیں۔ مگر ہم ان کی تفصیل میں جائے بغیر محترمہ میری رابنسن کی اسلام آباد کی پریس کانفرنس کے حوالے سے کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں، جس میں انہوں نے اور بہت سی باتوں کے علاوہ حکومت پاکستان سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ حدود قوانین کا بھی ازسرنو جائزہ لے۔
پاکستان میں جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور سے نافذ حدود آرڈیننس اس سے قبل بھی انسانی حقوق کی تنظیموں اور متعدد عالمی اداروں کی رپورٹوں اور مطالبات میں شامل چلا آ رہا ہے، جن میں ان قوانین کو انسانی حقوق کے منافی قرار دیتے ہوئے حکومت پاکستان سے ان کی منسوخی یا ان پر نظرثانی کا متعدد بار مطالبہ کیا گیا ہے، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حدود قوانین کا مختصر تعارف اور ان پر انسانی حقوق کے عالمی اداروں کے اعتراضات کا ایک سرسری جائزہ قارئین کی خدمت میں پیش کر دیا جائے۔
حدود قوانین معاشرتی جرائم کی ان شرعی سزاؤں کو کہتے ہیں جو قرآن کریم اور سنتِ نبویؐ کی رو سے قطعی طور پر طے کر دی گئی ہیں، اور جرم ثابت ہو جانے کی صورت میں عدالت اس بات کی پابند ہو جاتی ہے کہ وہ مجرم کو وہی سزا دے، اس سزا میں کمی بیشی یا معافی کا اختیار عدالت کے پاس باقی نہیں رہتا۔ جبکہ جرائم کی جن سزاؤں کے تعین، ان میں کمی بیشی یا ان کی معافی عدالت کے اختیار میں ہوتی ہے، انہیں تعزیرات کہا جاتا ہے، اور حکومت یا عدالت کی صوابدید پر ان کا دارومدار ہوتا ہے۔ جبکہ اسلامی اصولوں کی رو سے حدود شرعیہ میں کمی بیشی یا ان کی معافی نہ حکومت کے اختیار میں ہوتی ہے اور نہ ہی مقننہ یا عدلیہ ان میں رد و بدل کر سکتی ہیں۔ اسی وجہ سے ان سزاؤں کو ’’حدود‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے کہ ان حدود سے تجاوز کا کسی کو بھی حق نہیں ہے۔
جن جرائم کی سزائیں شریعت میں بطورِ حد متعین ہیں، امام بخاریؒ نے صحیح بخاری شریف میں (۱) زنا (۲)شراب نوشی (۳) چوری (۴) ڈاکہ (۵) ارتداد اور (۶) قذف کا ذکر کیا ہے۔ ان کی قدرے تفصیل یوں ہے۔
زنا کو قرآن کریم نے سخت جرائم میں شمار کیا ہے اور اس کی سزا کے دو درجے ہیں۔ زناکار مرد اور عورت اگر غیر شادی شدہ ہوں تو ان کا جرم ثابت ہونے پر سزا یہ ہے کہ انہیں سو سو کوڑے کھلے بندوں مارے جائیں۔ یہ سزا قرآن کریم کی سورۃ النور آیت ۲ میں صراحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔ اور اگر زنا کرنے والا مرد یا عورت شادی شدہ ہیں تو اس کی سزا رجم ہے، یعنی انہیں کھلے میدان میں پتھر مار مار کر سنگسار کر دیا جائے۔ بخاری شریف کی روایات کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد مواقع پر خود ایسے مجرموں کو سنگسار کرنے کی سزا دی ہے اور اس کے لیے تورات کے حکم کا حوالہ دیا ہے۔
اسلامی اصول قوانین کا مسلّمہ ضابطہ یہ ہے کہ قرآن کریم یا سنت نبویؐ میں پہلی کسی آسمانی کتاب کے کسی حکم یا قانون کا تذکرہ کیا گیا ہے اور اس کے بعد اس کے نسخ یا تبدیلی کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا تو سابقہ آسمانی کتاب کا وہ حکم ہمارے لیے بھی اسی طرح قانون کا درجہ اختیار کر جاتا ہے، جیسے خود قرآن کریم کا فیصلہ ہو۔ اس لیے رجم کا یہ قانون بھی کتاب اللہ کا قانون کہلاتا ہے۔
شرابی کو بخاری شریف کی روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت صدیق اکبرؓ کے دور میں چالیس کوڑے لگائے جاتے تھے، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں انہوں نے صحابہ کرامؓ کے مشورہ سے شرابی کی سزا اسی کوڑے مقرر کر دی، جس پر صحابہ کرامؓ کا اجماع منعقد ہوا اور اسی اجماعِ صحابہؓ کی وجہ سے اس سزا کو حدود میں شمار کیا جاتا ہے۔
چوری کی سزا قرآن کریم کی سورۃ المائدہ آیت ۳۸ میں یہ بیان کی گئی ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں چوری کے جرم پر یہی سزا دی ہے۔
کسی کافر کو زبردستی مسلمان کرنے کی اجازت نہیں ہے اور قرآن کریم کی سورۃ البقرہ آیت ۲۵۶ میں کہا گیا ہے کہ دین میں جبر نہیں ہے، لیکن مسلمان ہو جانے کے بعد کسی کو اسلام سے پھر جانے کی اجازت نہیں ہے اور اسے ’’ارتداد‘‘ کہا جاتا ہے، جس کی سزا قرآن کریم کی سورۃ البقرہ آیت ۵۴ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے یہ بیان کی گئی ہے کہ انہوں نے بچھڑے کی پوجا کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق قتل کی سزا دی تھی۔ اور خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے دور میں متعدد واقعات میں مرتد کو یہی سزا دی گئی ہے۔ اس لیے مرتد کے لیے موت کی شرعی سزا کو بھی حدود میں شمار کیا جاتا ہے۔
ڈاکہ ڈالنے اور اس میں مال لوٹنے اور قتل کرنے کی سزا قرآن کریم کی سورۃ المائدہ آیت ۳۳ ہاتھ اور پاؤں کاٹنے، سولی دینے اور جلاوطن کرنے کی صورت میں بیان کی گئی ہے۔ اور قذف یعنی کسی پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگانے اور اس کا ثبوت فراہم نہ کر سکنے کی صورت میں تہمت لگانے والے کو اسی کوڑے مارنے کی سزا قرآن کریم کی سورۃ النور آیت ۴ میں بیان کی گئی ہے۔
جرائم کی یہ سزائیں پہلی شریعتوں میں بھی تھیں، چنانچہ تورات، انجیل اور زبور پر مشتمل بائیبل کا جو نسخہ آج کل عام طور پر ملتا ہے، اس میں بعض سزاؤں کا تذکرہ موجود ہے۔ اس وقت بائیبل سوسائٹی انارکلی لاہور کی شائع کردہ اردو ’’کتاب مقدس‘‘ (بائیبل) ہمارے سامنے ہے اور اس کے مطابق ’’استثناء‘‘ باب ۱۳ میں بت پرستی (ارتداد) پر قتل کی سزا دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ ’’احبار‘‘ باب ۲۰ میں زنا کی سزا جان سے مار دینا بیان کی گئی ہے، اور ہم جنس پرستی (لواطت) کی سزا بھی اس باب میں مار ڈالنے ہی کی متعین کی گئی ہے۔ جبکہ استثناء باب ۲۱ میں زنا پر سنگسار کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور کسی پر بدکاری کی تہمت لگانے (قذف) پر کوڑوں کی سزا کا قانون بھی اسی باب میں موجود ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرتی جرائم پر سخت سزائیں یعنی قتل کرنا، سنگسار کرنا اور کوڑے مارنا وغیرہ صرف قرآن کریم کے احکام نہیں، بلکہ پہلی شریعتوں اور بائیبل کا حکم بھی یہی ہے اور قرآن کریم نے صرف انہیں بیان کر کے ان کے تسلسل کو برقرار رکھا ہے۔ اس لیے اگر یہ سزائیں سخت نظر آتی ہیں یا مغربی لابیوں کے بقول انسانی حقوق کے منافی ہیں تو اس کی ذمہ داری صرف قرآن کریم پر عائد نہیں ہوتی، بلکہ بائیبل اور قرآن کریم دونوں اس میں برابر کے شریک ہیں۔ مگر مغربی لابیاں بائیبل کے خلاف کوئی بات کہنے یا اس کے احکام و قوانین کو انسانی حقوق کے خود ساختہ معیار پر پرکھنے اور ان کی نشاندہی کرنے کی بجائے صرف قرآن کریم کو معاندانہ اور مخالفانہ مہم کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں جو سراسر ظلم اور ناانصافی ہے۔ حدود شرعیہ پر اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق یا دوسرے بین الاقوامی اداروں کے اعتراض کی وجہ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر ہے، جس کی ایک شق میں کہا گیا ہے کہ
’’کسی جرم پر مجرم کو دی جانے والی سزا میں جسمانی تشدد، ذہنی اذیت اور تذلیل کا عنصر موجود نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
اسی وجہ سے قرآن کریم کی بیان کردہ سزاؤں کو (معاذ اللہ) ظالمانہ، وحشیانہ، سنگدلانہ اور انسانی حقوق کے منافی کہا جاتا ہے۔ پاکستان سمیت جن مسلم ممالک میں یہ سزائیں قانونی طور پر نافذ ہیں، ان پر مسلسل زور دیا جا رہا ہے کہ وہ ان قوانین پر نظرثانی کر کے انہیں بین الاقوامی معیار یعنی اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کے مطابق بنائیں اور محترمہ میری رابنسن نے اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی حیثیت سے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حکومت پاکستان کو حدود قوانین کا ازسرنو جائزہ لینے کی جو ہدایت کی ہے، اس کا پس منظر بھی یہی ہے۔
ہمارے خیال میں اس قسم کے مسائل پر ہمارا قومی طرز عمل درست نہیں ہے اور ہم افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ ایک طرف ان مطالبات پر ناک بھوں چڑھانے اور آنکھیں بند کر کے انہیں یکسر نظرانداز کر دینے کا رویہ ہے، اور دوسری طرف معذرت خواہانہ لہجہ میں بین الاقوامی اداروں کو یہ یقین دلانے کا طرز عمل ہے کہ ہم آہستہ آہستہ سب کچھ کر رہے ہیں، بس تھوڑا سا وقت دیا جائے اور مذہبی رجحانات کو دبانے میں ہمارا ساتھ دیا جائے۔
یہ دونوں طرزِعمل درست نہیں ہیں اور اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ وفاقی وزارت قانون اور وزارت مذہبی امور ان مسائل پر باوقار اور دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے عالم اسلام کے دیگر ممالک میں لابنگ کا اہتمام کریں، اور مسلم دنیا کو ایک مشترکہ موقف پر لانے کی منظم کوشش کریں۔ جبکہ علمی و دینی ادارے علمی و فکری بنیادوں پر آج کی بین الاقوامی زبان اور اسلوب میں عالمی رائے عامہ کو یہ باور کرانے کے لیے محنت کریں، کیونکہ مسلمانوں کے لیے کسی بھی جگہ قرآن و سنت کے صریح احکام سے دستبردار ہونا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے اقوام متحدہ کے منشور کے حوالے سے مسلمانوں پر دباؤ ڈالنے اور ان سے اسلامی احکام و قوانین سے دست برداری کا مطالبہ کرنے کی بجائے اقوام متحدہ کے چارٹر پر نظرثانی کا راستہ اختیار کیا جائے، کیونکہ انصاف اور معقولیت کا راستہ یہی ہے۔