مسلم ممالک کا فوجی اتحاد

   
تاریخ : 
۱۸ دسمبر ۲۰۱۵ء

گزشتہ دنوں سعودی عرب نے ۳۴ اسلامی ملکوں کے فوجی اتحاد کے قیام کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد دہشت گردی کے مختلف گروپوں کی کاروائیوں کا انسداد بتایا گیا ہے۔ اس اتحاد کا ہیڈ کوارٹر ریاض میں ہوگا اور اس میں شامل ممالک میں پاکستان کا نام بھی موجود ہے جبکہ ایران، عراق اور شام اس کا حصہ نہیں ہیں۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس کی تفصیلات سے لا علمی کا اظہار کرتے ہوئے اصولی طور پر اس کا خیر مقدم کیا ہے مگر شمولیت کے بارے میں کہا ہے کہ تفصیلات حاصل کی جا رہی ہیں۔ اس کے بعد ہی اس کے بارے میں بتایا جا سکے گا کہ پاکستان اس اتحاد میں کس حد تک شریک ہوگا۔ ۳۴ ممالک کی اس فہرست میں شامل بہت سے دیگر ممالک بھی ابھی خاموش ہیں اور ان کی طرف سے کوئی رد عمل سردست سامنے نہیں آیا۔ امریکہ کے صدر باراک اوباما نے اتحاد کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اتحاد کا قیام امریکی حکمت عملی کے عین مطابق ہے۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے وزیر خارجہ جناب جبیر العادل نے گزشتہ روز پیرس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب داعش کے خلاف امریکہ کی قیادت میں قائم ہونے والے اتحاد کا حصہ ہے اور اس کے مطابق داعش کے خلاف فضائی حملوں میں شریک کار ہے۔ جبکہ سعودی عرب کی سربراہی میں بننے والا ۳۴ ملکوں کا یہ اتحاد بھی داعش اور دیگر دہشت گرد گروپوں سے نمٹنے کے لیے بنایا جا رہا ہے۔

اس سے قبل ۲ دسمبر کو ایک اخبار میں شائع ہونے والی یہ تفصیلی خبر بھی اس سلسلہ میں قابل توجہ ہے کہ

’’امریکی کانگریس کے دو سرکردہ ارکان نے تجویز پیش کی ہے کہ شام اور عراق سمیت دنیا کے دوسرے ملکوں میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث تنظیم داعش کی سرکوبی کے لیے امریکی فوج کے ساتھ کم از کم ایک لاکھ سنی جنگجوؤں کا ایک لشکر تیار کیا جائے جو دولت اسلامیہ نامی اس انتہا پسند گروہ کے خلاف جنگ میں معاونت کرے۔ ایوان نمائندگان کے دو اراکین جان مکین اور لینڈی گراہام نے دورۂ عراق کے موقع پر بغداد میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران یہ تجویز پیش کی اور کہا کہ امریکہ کے باہر کے سنی مسلمان جنگجوؤں کا ایک لشکر تیار کیا جائے جس میں کم از کم ایک لاکھ جنگجو شامل ہوں۔ انہیں شام اور عراق میں سرگرم ’’داعش‘‘ کے خلاف جنگ میں استعمال کیا جائے۔ جان مکین کا کہنا ہے کہ ایک لاکھ سنی مسلمانوں کا لشکر تیار کرنا کوئی مشکل نہیں، یہ کام تنہا مصر بھی انجام دے سکتا ہے۔ خیال رہے کہ جان مکین امریکی ایوان نمائندگان میں مسلح افواج سے متعلق کمیٹی کے چیئرمین، جبکہ لینڈی گراہام اس کے رکن ہیں۔ ان دونوں امریکی سیاستدانوں نے داعش کے خلاف اپنی حکومت کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے حکومتی پالیسی کو غیر تسلی بخش قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ داعش کو شکست سے دوچار کرنے میں ناکامی کی ذمہ داری امریکی حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ واشنگٹن نے وہ اقدامات نہیں کیے جو داعش کا قلع قمع کرنے کے لیے ناگزیر ہیں۔ جان مکین کا کہنا ہے کہ امریکہ نے داعش کے خلاف زیادہ سے زیادہ فضائی حملوں تک اپنی پالیسی محدود رکھی یا امریکی فوج کی نگرانی میں محدود شامی گروپ کو عسکری تربیت فراہم کی گئی ہے۔‘‘

اس تفصیلی خبر میں امریکی کانگریس کی افواج سے متعلقہ کمیٹی کے چیئرمین جان مکین نے داعش کو شکست سے دوچار کرنے میں جس ناکامی کا ذکر کیا ہے وہ صرف ان کا ذاتی تاثر نہیں ہے بلکہ امریکی صدر باراک اوباما بھی ایک حالیہ بیان میں کہہ چکے ہیں کہ داعش ابھی تک عراق اور شام کے ساٹھ فی صد علاقے پر قابض ہے جبکہ بعض بین الاقوامی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ داعش ان علاقوں پر صرف قابض نہیں ہے بلکہ ایک مستقل نظام رکھتی ہے اور منظم طریقہ سے حکومت کر رہی ہے۔

داعش کے بارے میں ہم ایک سابقہ کالم میں عرض کر چکے ہیں کہ یہ شام اور عراق کے ان جنگجو گروپوں کے اتحاد کا نام ہے جو ایک عرصہ نوری مالکی اور بشار الاسد کے خلاف لڑتے آرہے ہیں اور اب انہوں نے متحد ہو کر ایک مضبوط قوت کی شکل اختیار کر لی ہے جس سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر خدا جانے کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑ رہے ہیں۔ ہم اپنی اس گزارش پر بھی قائم ہیں کہ داعش اگر ’’داھش‘‘ نہ بن جاتی اور دہشت گردی، تکفیر اور قتال کے فتنے سے خود کو بچا لیتی تو خلافت اسلامیہ کے قیام اور مشرق وسطیٰ کے سنی ممالک و عوام کے تحفظ کے مقاصد میں اسے عالم اسلام کے معتمد بہ حصے کی حمایت مل سکتی تھی، اس لیے کہ خلافت کا احیا و قیام بہرحال عالم اسلام کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ اور مشرق وسطیٰ کی سنی ریاستوں بالخصوص سعودی عرب کو جس طرح فرقہ وارانہ کشمکش کے حصار میں جکڑ لیا گیا ہے اسے زیادہ دیر تک نظر انداز کرنا بھی اب ممکن نہیں رہا۔ ہم بار بار یہ گزارش کر چکے ہیں کہ ان دونوں ملی مقاصد کے لیے خود عالم اسلام کو اپنے علمی اور فکری دائرے میں سوچنا چاہیے کیونکہ یہ کام دراصل او آئی سی، خلیجی تعاون کونسل، عرب لیگ اور رابطہ عالم اسلامی جیسے اداروں کے کرنے کا ہے کہ وہ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے آگے بڑھیں۔ اس کے لیے جان مکین اور لینڈی گراہام کے کسی فارمولے کی ضرورت نہیں ہے۔

بلکہ ہمارے خیال میں داعش کو کچلنے کے لیے فیصلہ کن اور متحدہ عسکری کاروائی سے پہلے دو کام کرنا زیادہ ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ خلافت اسلامیہ کے قیام اور مشرق وسطیٰ کے سنّی ماحول کے تحفظ کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے لیے پر امن جدوجہد کا کوئی مؤثر فورم مہیا کیا جائے تاکہ ان ملی مقاصد کی خاطر محنت کا جذبہ رکھنے والے نوجوانوں کے لیے صرف ’’داعش‘‘ ہی واحد آپشن نہ رہے اور وہ دہشت گردی کی طرف مائل ہونے کی بجائے پر امن جدوجہد کا راستہ اختیار کر سکیں۔ اور دوسرا کام یہ کہ عالم اسلام کے علمی مراکز مشترکہ طور پر کوئی لائحہ عمل طے کر کے نہ صرف داعش بلکہ اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والے تمام گروپوں سے مذاکرات، افہام و تفہیم اور ملی مقاصد کے حصول کے متبادل ذرائع سامنے لانے کا اہتمام کریں۔ کیونکہ جب تک اصل مسائل موجود رہیں گے اور ان کے حل کے لیے کوئی متبادل آپشن دکھائی نہیں دے گا، اس دہشت گردی کا راستہ نہ ایک لاکھ سنی جنگجوؤں کے لشکر کے ذریعہ روکا جا سکے گا اور نہ ہی ۳۴ ملکوں کا عسکری اتحاد اس سلسلہ میں کوئی حتمی کامیابی حاصل کر پائے گا۔ پاکستان کے دفتر خارجہ سے بھی ہماری گزارش یہی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دفتر خارجہ ہونے کے ناتے سے وہ ملی ضروریات کا احساس کرے اور امت مسلمہ کی صحیح سمت راہنمائی میں اپنا کردار ادا کرے۔

   
2016ء سے
Flag Counter